’کورٹ مارشل کا عمل شروع‘: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے خلاف کارروائی کیسے ہوگی؟

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور اس وقت وہ فوجی تحویل میں ہیں۔ ٹاپ سٹی کیس میں ان پر کیا الزامات عائد کیے گئے تھے اور اب پاکستانی فوج ان کے ’کورٹ مارشل کا عمل‘ کیسے آگے بڑھائے گی؟

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے اور اس وقت وہ فوجی تحویل میں ہیں۔

پیر کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی ’کورٹ آف انکوائری‘ ہوئی تاکہ ٹاپ سٹی کیس میں شکایات کی درستگی کا پتہ لگایا جاسکے۔

اس کے نتیجے میں پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیض حمید کے خلاف ’مناسب تادیبی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔‘

فوج نے اعتراف کیا ہے کہ فیض حمید کے حوالے سے ’ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کے خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔‘

اگرچہ وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے اسے ایک ایسا ’احتسابی عمل‘ قرار دیا ہے جس سے ’فوج پر عوام کا اعتماد بڑھے گا‘ تاہم آئی ایس پی آر کی جانب سے ان ’خلاف ورزیوں‘ کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

اس پیشرفت نے کئی سوال جنم دیے ہیں، جیسے ٹاپ سٹی کیس کیا ہے اور کسی فوجی اہلکار کے خلاف کورٹ آف انکوائری یا کورٹ مارشل کی کارروائی کیسے عمل میں آتی ہے۔

Getty Images
Getty Images

فیض حمید کے خلاف کارروائی کا کیا مطلب ہے؟

فوج کے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ میں ذمہ داریں ادا کرنے والے اور جبری گمشدگیوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کرنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے سے متعلق جو بیان جاری کیا ہے اس میں ’تمام قانونی پہلو کوور ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ٹاپ سٹی سے متعلق ابتدائی سماعت کے بعد درخواست گزار کو متعقلہ فورم سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کی روشنی میں ہی 24 اپریل کو فوج کی قیادت نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک میجر جنرل کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی تھی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بادی النظر میں اس درخواست میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اس سے متعلق ہی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی تحقیقات کی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 92 میں کسی بھی فوجی افسر کی ریٹائرمنٹ کے 6 ماہ کے بعد اگر ان کے خلاف کوئی الزام ہو تو ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی نہیں ہوسکتی تاہم آرمی ایکٹ کے سیکشن 31اور 40 اس سے مستثنیٰ ہے۔

آرمی ایکٹ کا سیکشن 31 فوجی افسران اور اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے سے متعلق ہے جبکہ سیکشن 40 مالی بدعنوانی اور فراڈ کے زمرے میں آتے ہیں اور اگر کسی بھی فوجی افسر یا اہلکار پر اس طرح کے الزامات ہوں تو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہوسکتی ہے۔

یاد رہے ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان کی جانب سے سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کی گئی تھی۔ اس کے مطابق 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معیز احمد خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور اس دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی نےنجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کے رشتہ دار کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے بھی رابطہ کیا۔

اس درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ ’واقعے میں چوری کیا گیا یا چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔‘

درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور ایک نجی چینل کو سپانسر کرنے پر مجبور کیا۔

کورٹ آف انکوائری کیا ہے اور کورٹ مارشل کیسے ہوتا ہے؟

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا تھا کہ کورٹ آف انکوائری ایک تفتیشی عمل ہے۔ ’جس طرح سویلین اداروں میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی جاتی ہے اس طرح فوج میں کورٹ آف انکوائری عمل میں لائی جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر فوجی افسر کی جانب سے بدعنوانی یا کرپشن اور اختیارت سے تجاوز کرنے کا معاملہ سامنے آئے تو سیکٹر کمانڈر اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کورٹ آف انکوائری کا حکم دیتا ہے۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ کورٹ آف انکوائری کوئی ایکشن لینے کی مجاز نہیں ہے البتہ اس کی سفارشات کی روشنی میں کورٹ مارشل کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

کورٹ مارشل کی کارروائی کے متعلق کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ ایک حاضر سروس لیفٹیننٹ جنرل کی سربراہی میں ایک عدالت قائم کی جاتی ہے جس میں دو ممبروں کے علاوہ جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ کا نمائندہ بھی شامل ہوتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس عدالت کے سربراہ کو پریذیڈنٹ کہا جاتا ہے۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کہتے ہیں کہ کسی بھی شخص کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کی صورت میں اس فوجی افسر کی گرفتاری کے 24 گھنٹوں کے اندراندر چارج شیٹ فراہم کی جاتی ہے اور پھر اس کے بعد ملزم پر الزامات کی کاپی بھی فراہم کردی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کورٹ مارشل کی کارروائی شروع ہو گی تو اس میں نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے سربراہ کو پراسیکوشن کے گواہ کے طور پر پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ کورٹ آف انکوائری میں ’جو شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں ان کی روشنی میں بھی مزید گواہوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران ملزم کو ’اپنی مرضی کا وکیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنی صفائی میں گواہان بھی پیش کرنا چاہے تو انھیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔‘

ٹاپ سٹی کیس کیا ہے اور سپریم کورٹ میں اس پر کیا سماعت ہوئی تھی؟

نومبر 2023 میں ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان نے سپریم کورٹ میں ایک پیٹیشن دائر کی تھی جس میں سابق ڈجی آئی ایس آئی لفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ پر اختیارات کے غلط استعمال کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

معیز احمد خان کی جانب سے دائر کردہ پیٹیشن میں کہا گیا تھا کہ 12 مئی 2017 کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی ایما پر خفیہ ادارے کے حکام نے ٹاپ سٹی کے دفتر اور ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ چھاپے کے دوران آئی ایس آئی کے حکام نے ان کے گھر سے سونے، ہیرے، اور پیسوں سمیت متعدد قیمتی اشیا قبضے میں لی تھیں۔

معیز احمد خان نے درخواست میں مزید کہا تھا کہ آئی ایس آئی کے حکام نے ان سے چار کروڑ روپے بھی لیے۔

اس پیٹیشن پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین نے کی تھی۔

سپریم کورٹ کے اسی بینچ نے لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا تھا، جس کے بعد پاکستانی فوج نے اپریل 2024 میں سابق ڈی آئی ایس آئی کے خلاف تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی تھی۔

ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک معیز احمد خان کی درخواست پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور 9 نومبر کو درخواست گزار کو سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا حکم دیا تھا۔

دلائل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کیا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے اور درخواست گزار کو وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

عدالت عظمیٰ کے بینچ نے مزید ریمارکس دیے تھے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے اپنے چیمبر میں ہاؤسنگ سکیم سے متعلق کیس کی سماعت آئینی دفعات کے مطابق نہیں تھی۔

عدالت نے یہ بھی نشان دہی کی تھی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔

فوج کی کارروائی سے ’عوام کا اعتماد بڑھے گا‘

پاکستان مُسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثنا اللہ نے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والی پریس ریلیز پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس عمل کی وجہ سے فوج پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔‘

ریٹائرمنٹ کے بعد فیض حمید کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان مُسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو مُشکلات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا کہ ’جو اقدامات پی ٹی آئی کی جانب سے نو مئی سے قبل اور اس کے بعد کیے گئے اور آج کل بھی جو اُن کی حکمتِ عملی ہے، ان کا عمل دخل اس سب میں تھا۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پاکستان مُسلم لیگ ن نے کوئی انکوائری نہیں کی جس سے یہ چیز ثابت ہوئی ہو۔

رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’ایسا نہیں ہے کہ وہ اکیلے تھے اس سب میں اُن کے ساتھ اور لوگ بھی شامل تھے کیونکہ ایک فردِ واحد اکیلا تو کُچھ بھی نہیں کر سکتا اور یہ سب باتیں بھی اس انکوائری میں سامنے آئی ہوں گی۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کی سیاسی معاملات میں حاضر سروس ہوتے ہوئے بھی خاصی دلچسپی ہوا کرتی تھی اور وہ بڑے واضح انداز میں کُھل کر سیاسی معاملات میں دخل دیتے تھے اور کوئی بات چھپاتے بھی نہیں تھے۔ اب اس سب میں آپ کے سامنے فیض آباد دھرنے کی مثال موجود ہے جس میں ہونے والے معاہدہ پر انھوں نے خود دستخط کیے۔‘

ماضی میں فوج کے کن جرنیلوں کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا؟

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی: اسد درانی نے انڈین خفیہ ادارے را کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ ایک کتاب لکھی تھی جس میں پاکستانی حکام کے بقول ایسا مواد بھی شامل تھا جو کہ پاکستان کی قومی سلامتی سے متعلق ہے۔

سپائی کرانیکلز کے مصنف جنرل اسد درانی کو 25 سال قبل فوج سے بے دخل کیا گیا تھا۔ اصغر خان کیس میں ان کا نام آنے کے بعد انھیں آئی ایس آئی سے جی ایچ کیو بلوا لیا گیا تھا اور پھر جب دوبارہ یہ سامنے آیا کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت کر رہے ہیں تو انھیں قبل از وقت ریٹائر یعنی فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔

سپائی کرانیکلز کتاب کی اشاعت کے بعد پاکستانی فوج نے انھیں جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) طلب کیا اور ان کے خلاف ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس انکوائری کے بعد انہیں فوجی ضابطوں کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا، جس کے نتیجے میں ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کیا گیا اور ان کی ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات بھی واپس لے لی گئیں۔

لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال (2012): لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال جو کہ پاکستان آرمی کے ایک سینئر افسر تھے، ان پر جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا اور14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ ان پر آئی ایس آئی کی اہم معلومات انڈین خفیہ ایجنسی را کو فراہم کرنے کا الزام تھا۔

سابق فوجی سربراہ قمر جاوید باجوہ نے مئی 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو سنائی گئی قید بامشقت کی سزا کی توثیق کی تھی تاہم ڈھائی برس کے ہی عرصے میں اب انھیں رہا کر دیا گیا۔

بریگیڈیئر علی خان (2011): بریگیڈیئر علی خان کو شدت پسند تنظیم حزب التحریر کے ساتھ روابط رکھنے کے الزام میں کورٹ مارشل کیا گیا۔ ان پر پاکستان آرمی کے اندر بغاوت پھیلانے کا بھی الزام تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ (2001): حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی جنھیں نواز شریف نے آرمی چیف تعینات کیا تھا، جنرل پرویز مشرف کے حکم پر انھیں گرفتار کرکے ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہوئی۔ بعد میں انھیں نظربند کیا گیا اور فوجی عہدے سے برخاست کردیا گیا۔

آرمی نے بطور ادارہ جنرل ضیاالدین بٹ کے بارے میں تین انکوائریاں (تحقیقات) کرائیں مگر بعدازاں انھیں ان الزامات سے بری کر دیا گیا کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی وزیراعظم کی منصوبہ بندی یا ’سازش‘ کا حصہ تھے۔

بریگیڈیئر نیاز (1958): جنرل ایوب خان کے دور میں بریگیڈیئر نیاز کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.