کملا ہیرس: امریکہ کے صدارتی الیکشن میں پہلی سیاہ فام خاتون امیدوار، جو اپنے آپ کو محض ’امریکی‘ کہنا پسند کرتی ہیں

کملا ہیرس امریکہ کی صرف پہلی خاتون نائب صدر ہی نہیں بلکہ ان کے والدین کے جمیکا اور انڈیا سے تعلق کی وجہ سے وہ پہلی سیاہ فام شخصیت بھی ہیں جو امریکہ کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہیں۔
امریکہ الیکشن، کملا ہیرس
Getty Images

امریکہ کی تاریخ کی پہلی خاتون نائب صدر کملا ہیرس نے جمعرات کی رات ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے صدارتی الیکشن میں پارٹی کی جانب سے نامزدگی باقاعدہ طور پر قبول کر لی ہے۔

رواں برس نومبر میں ہونے والے امریکی صدر کے انتخابات میں ان کا مقابلہ سابق صدر اور ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو گا۔

جمعرات کے روز شکاگو میں ڈیموکریٹک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کملا ہیرس نے تمام امریکیوں کی قیادت کرنے اور ایک ایسی معیشت بنانے کا عہد کیا جس میں تمام افراد کے لیے مواقع دستیاب ہوں۔

غزہ جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کا وقت آ گیا ہے۔

کملا ہیرس امریکہ کی صرف پہلی خاتون نائب صدر ہی نہیں بلکہ ان کے والدین کے جمیکا اور انڈیا سے تعلق کی وجہ سے وہ پہلی سیاہ فام شخصیت بھی ہیں جو امریکہ کے نائب صدر کے عہدے پر فائز رہیں۔

ان کا نائب صدر بننے کا سفر مشکلات سے بھرپور تھا۔ اُن واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جنھوں نے ان کی شخصیت کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کیا اور وہ کیسے امریکہ کی پہلی سیاہ فام خاتون صدارتی امیدوار نامزد ہونے میں کامیاب ہوئیں۔

کملا ہیرس کا ڈسٹرکٹ اٹارنی سے نائب صدر تک کا سفر

محض پانچ سال قبل کی بات ہے کہ کیلیفورنیا کی سینیٹر کملا ہیرس ڈیمکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کے لیے نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔

انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز المیڈا کاؤنٹی کے ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس سے کیا اور 2003 میں وہ سان فرانسسکو کی ڈسٹرکٹ اٹارنی بنیں۔

بعد ازاں وہ امریکہ کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کیلیفورنیا کی پہلی خاتون اور سیاہ فام اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں۔

انھوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2017 میں کیلیفورنیا سے جونیئر سینیٹر بننے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب رہیں۔

سنہ 2020 میں کملا نے ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار کی نامزدگی کی دوڑ میں حصہ لیا تاہم ان کی برجستہ تقریر کرنے کی صلاحیت کے باوجود وہ اس دوڑ سے جلد ہی باہر ہو گئیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کا قرعہ ان کے مخالف جو بائِڈن کے نام کھلا جو آگے جا کر امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔

یہ جو بائیڈن ہی تھے جنھوں نے ان کو اپنے نائب صدر کے طور پر نامزد کر کے انھیں ایک بار پھر امریکی عوام کی توجہ کا مرکز بننے میں مدد دی۔

گل ڈوران سنہ 2013 میں کملا ہیرس کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر تھے۔ وہ اسے ’قسمت کی مہربانی‘ کہتے ہیں۔

’بہت سے لوگوں کو نہیں لگتا تھا کہ ان میں اتنا نظم و ضبط اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت ہے کہ وہ اتنی جلدی وائٹ ہاؤس میں کسی عہدے تک پہنچ سکیں حالانکہ لوگ جانتے تھے کہ ان کے پاس ارادہ اور سٹار بننے کی قابلیت ہے۔ یہ تو ہمیشہ سے واضح تھا کہ ان میں ٹیلنٹ ہے۔‘

کملا ہیرس
Reuters

وائٹ ہاؤس میں اپنے وقت کے دوران کملا ہریس نے کئی اہم موضوعات پر اقدامات کیے۔ اس کے علاوہ بائیڈن انتظامیہ کی کچھ اہم کامیابیوں میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔

انھوں نے اسقاط حمل پر پابندی سے ہونے والے نقصانات کو اجاگر کرنے کے لیے ملک بھر میں مہم چلائی۔

امریکہ کی سپریم کورٹ کی جانب سے 2022 میں اسقاط حمل کے آئینی حق کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد انھوں نے کانگریس سے عورتوں کو استقاط حمل کا حق دینے کا بھی مطالبہ کیا۔

سینیٹ کی تاریخ میں کملا ہیرس نے بطور نائب صدر سب سے زیادہ ٹائی بریک کرنے والے ووٹوں کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کے ووٹوں نے افراط زر میں کمی کے ایکٹ اور امریکی ریسکیو پلان جس کے تحت کورونا سے نمٹنے کے لیے ریلیف فنڈز دیے گئے، کی منظوری میں مدد ملی۔

تاہم اس کے باوجود وہ امریکیوں میں بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل نہیں کر پائیں۔

ہم جنس پرستوں جوڑوں کی شادی اور سزائے موت جیسے مسائل پر ان کا بائیں بازو کی جانب جھکاؤ ہونے کے باوجود انھیں کچھ ڈیموکریٹک ووٹروں کی جانب سے بار بار حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔

2020 کی انتخابی مہم کے دوران ایک تنقید جس کا انھیں بار بار سامنا کرنا پڑا وہ یہ تھا کہ ’کملا پولیس کی طرح ہیں۔‘

صدر بائیڈن کی جانب سے کملا ہیرس کو تارکین وطن کا ریکارڈ تعداد میں امریکہ میکسیکو کی سرحد کی جانب رخ کرنے کے پیچھے موجود محرکات جاننے اور ان کو حل کرنے کا ہدف دیا گیا۔

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی جانب ان کے ناقدین اشارہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں خاطر خواہ پیشرفت نہیں کر پائیں۔

ریپبلکنز اور کچھ ڈیموکریٹس کی جانب سے ان پر اس بات پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے کہ انھوں نے نائب صدر بننے کے بعد سرحدی علاقے کا دورہ کرنے میں چھ مہینے لگا دیے۔

اگرچہ اس سال غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے واقعات میں ڈرامائی طور پر کمی آئی، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا وہ اس کامیابی کو صدارتی انتخابات میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کر پاتی ہیں یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کملا ہیرس جن کی پرورش انڈین والدہ نے سیاہ فام بیٹی کی طرح کی

کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی ڈیموکریٹ امیدوار آکلینڈ شہر میں دو تارکین وطن والدین کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ انڈیا جبکہ والد جمیکا سے تھے۔

والدین کی طلاق کے بعد کملا ہیریس کی پرورش بنیادی طور پر ان کی ہندو والدہ شیاملا گوپالن ہیریس نے کی جو کہ کینسر کے شعبے میں محقق اور شہری حقوق کی سرگرم کارکن تھیں۔

وہ اپنے انڈین ثقافتی پس منظر میں پلی بڑھیں اور اپنی والدہ کے ساتھ وہ انڈیا کے دورے پر آتی رہتی تھیں لیکن ان کی والدہ نے پوری طرح آکلینڈ کی سیاہ فام ثقافت کو اپنا لیا تھا اور انھوں نے اپنی دو بیٹویوں کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا کو اسی تہذیب و ثقافت میں رچا بسا دیا تھا۔

’دی ٹرتھ وی ہولڈ‘ نامی اپنی خود نوشت میں کملا لکھتی ہیں کہ ’میری والدہ اچھی طرح سمجھتی تھیں کہ وہ دو سیاہ فام بیٹیوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ انھیں پتا تھا کہ جس ملک کو انھوں نے اپنایا، وہ مجھے اور مایا کو دو سیاہ فام لڑکیوں کے طور پر دیکھے گا۔ اس لیے وہ یہ یقین دہانی کرنا چاہتی تھیں کہ ہم پر اعتماد اور فخر کرنے والی سیاہ فام خاتون کے طور پر بڑے ہوں۔‘

ہیرس نے بچپن میں کچھ وقت کینیڈا میں بھی گزارا۔ جب گوپالن نے میک گل یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس کا انتخاب کیا تو وہ اپنے ساتھ کملا اور ان کی چھوٹی بہن مایا کو بھی لے گئیں جنھوں نے مونٹریل کے سکول میں پانچ سال تک تعلیم حاصل کی۔

انھوں نے امریکہ میں کالج کی تعلیم حاصل کی اور چار سال ہارورڈ یونیورسٹی میں گزارے جو ملک میں تاریخی اعتبار سے سیاہ فام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔

وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں گزرے وقت کو اپنی زندگی کے سب سے تخلیقی تجربات میں سے ایک قرار دیتی ہیں۔

لیٹا روزاریو رچرڈسن کی کملا ہیرس سے ملاقات 1980 کی دہائی میں ہوئی۔ اس زمانے میں ہارورڈ میں طلبا کیمپس میں جمع ہوتے اور سیاست، فیشن سمیت مختلف موضوعات پر گفتگو کیا کرتے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے دیکھا کہ ان کی بحث کرنے میں بہت دلچسپی تھی۔‘

دھیرے دھیرے ان کا آپس کا تعلق بڑھتا گیا۔ وہ دونوں مل کر کیمپس میں ریپبلکنز کے ساتھپُرجوش بحث و مباحثے میں حصہ لیتی تھیں، ان کا سنگل ماؤں کے ساتھ پلنے کا تجربہ انھیں اور نزدیک لے آیا۔

سیاسی اعتبار سے یہ ایک ایسا دور تھا جب تبدیلیاں آ رہی تھی۔

لیٹا کہتی ہیں کہ ’اس وقت ریگن صدر تھے اور یہ نسل پرستی کا دور تھا اور ’ٹرانس افریقہ‘ اور مارٹن لوتھر کنگ کی چھٹیوں کے معاملے کے بارے میں بہت باتیں ہوتی تھیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے آباؤ اجداد غلام تھے اور نوآبادیاتی علاقوں سے تعلق رکھنے کے باعث ہمیں اندازہ تھا کہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ہمیں معاشرے میں ایک خاص مقام حاصل ہے اور ہمیں تبدیلی لانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ ایک ایسا فلسفہ ہے جو یونیورسٹی کے تجربے کا حصہ تھا اور جس نے کملا ہیرس کی شخصیت کو ڈھالنے میں اہم کردار ادا کیا۔

کملا ہیرس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی شناخت سے متعلق ہمیشہ مطمئن رہیں اور اپنے آپ کو محض ’امریکی‘ کہتی ہیں۔

سنہ 2019 میں انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ سیاستدانوں کو اپنے رنگ یا پس منظر کی وجہ سے خانوں میں فٹ نہیں ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرا کہنا بس یہ ہے کہ میں جو ہوں سو ہوں۔ میں اس کے ساتھ اچھی ہوں۔ آپ کو اس کا اندازہ لگانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن میں اس کے ساتھ ٹھیک ہوں۔‘

کملا ہیرس، جو بائیڈن
Reuters

حسِ مزاح سے بھرپور شخصیت کی حامل کملا

جیسا کہ کملا کی دوست لیٹا بتاتی ہیں ان میں ابتدا ہی سے وہ صلاحیتیں نمایاں تھیں جن کی بنیاد پر ان کا شمار ان چند خواتین میں کیا جا سکتا تھا جو ہر طرح کی رکاوٹیں عبور کرنے کی قابل ہوتی ہیں۔

مزاح کملا کے مزاج کا حصہ ہے۔ اس کی واضح مثال الیکشن جیتنے کے بعد 2020 میں ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ایک ویڈیو ہے جس میں وہ دل کھول کر ہنستے ہوئے بائیڈن کو کہتے دکھائی دیتی ہیں کہ ’ہم نے کر دکھایا، ہم نے کر دکھایا جو۔ آپ امریکہ کے اگلے صدر بننے جا رہے ہیں!‘

ان کی دوست اس ہنسی کو بخوبی پہچانتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’وہ ہمیشہ ایسے ہی ہنستی تھیں۔‘

لیٹا کے مطابق حسِ مزاح ہمیشہ سے کملا کی شخصیت کا حصہ رہے ہیں اور یونیورسٹی کے دور میں وہ ان کا استعمال مباحثوں کے دوران پوائنٹ حاصل کرنے کے لیے بھی کرتی تھیں۔

انھوں اپنی اس صلاحیت کا استعمال ڈیموکریٹک صدارتی نامزدگی کے لیے ہونے والے مناظروں کے دوران اپنے مخالفین کے خلاف بھی کیا۔

سنہ 2014 میں کملا ہیرس نے وکیل ڈگلوس ایمہوف سے شادی کی، جن کے پہلے سے دو بچے تھے۔

انھوں نے اس تجربے کے بارے میں 2019 میں ایلے میگزین کے لیے ایک مضمون بھی لکھا۔

’جب ڈَگ اور میری شادی ہوئی تو کول، ایلا اور میں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہمیں ’سوتیلی ماں‘ کی اصطلاح نہیں پسند۔ اس کی بجائے انھوں نے ’مومیلا‘ نام تجویز کیا۔‘

انھیں جدید امریکی خاندان کے طور پر پیش کیا جانے لگا جس پر امریکی میڈیا میں بہت بحث ہوئی۔ اس بحث نے اس جانب بھی توجہ مبذول کروائی لوگ خواتین سیاستدانوں کے بارے میں کیسے بات کرتے ہیں۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کملا کو سیاہ فام خواتین کارکنوں کی نسلوں کی وارث کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.