عمران خان، فوج اور کنٹینرز: اقتدار کی جاری جنگ کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہے؟

عمران خان کی جماعتپی ٹی آئی اور حکام کے درمیان بلی اور چوہے کوئی نئی بات نہیں اور حالیہ گرفتاریاں اسی سلسلے کی نئی کڑی ہیں۔ مگر پاکستان میں اقتدار کی اس لڑائی کا مطلب آخر کیا ہے؟
تصویر
Getty Images

کئی ہفتے گزر گئے مگر اسلام آباد کی سڑکوں کے کنارے آج بھی کنٹینر پڑے ہیں تاکہ کسی بھی احتجاج کی بِھنک پڑے تو فوراً انھیں سڑکوں کے بیچ رکھ کر راستے بند کیے جا سکیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اِس شہر کے باسی بھی اب عادی ہو گئے ہیں کہ جیسے ہی شہر کی انتظامیہ کو کسی ناخوشگوار صورتحال کی کوئی اُڑتی خبر ملے وہ شہر سیل کر دیتے ہیں۔

راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہنے والے جانتے ہیں کہ کسی بھی لمحے وہ کہیں بھی پھنس سکتے ہیں۔

گذشتہ اتوار کو ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کے پیش نظر راتوں رات شہر کی اہم شاہراوں پر کنٹینر رکھ کر 29 سڑکوں کو بلاک کر دیا گیا تھا۔ مگر یہ کنٹینر پاکستان تحریکِ انصاف کے حامیوں کا راستہ روکنے میں ناکام رہے، جو سڑکوں سے کنٹینر ہٹاتے، تمام رکاوٹیں دور کرتے، جھنڈے اور بینر لہراتے ہزاروں کی تعداد میں اسلام کے نواح میں ہونے والے جلسے میں پہنچے۔

جلسے میں پہنچنے والوں نے چہرے پر سابق وزیراعظم کے ماسک پہن رکھے تھے جبکہ اُن کے سروں پر غباروں سے بندھے عمران خان کے پوسٹر لہرا رہے تھے۔

پنڈال میں ہر طرف بس ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا ’عمران خان زندہ باد، عمران خان زندہ باد۔‘

اور کنٹینرز جس مقصد کے لیے رکھے گئے تھے وہ تو پورا نہیں ہو سکا۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں عمران خان کے سینکڑوں حامی ہاتھوں سے کنٹینر دھکیلتے نظر آئے تھے۔ وہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جلسے کے مقام تک ہر کنٹینر ہٹاتے گئے۔

مگر وہ ایک شخص جس کی محبت میں یہ ہزاروں افراد ہر رکاوٹ عبور کر کے جلسہ گاہ تک پپہنچے اور جس کا چہرہ ہر ماسک، ہر بینر پر آویزاں تھا، وہ وہاں موجود ہی نہیں تھا۔

عمران خان ایک سال سے زائد عرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اُن پر کرپشن اور ریاستی راز افشا کرنے جیسے الزامات ہیں۔

عمران خان اپنے خلاف تمام الزامات کو سیاسی مقدمات قرار دیتے ہیں۔ زیادہ تر مقدمات میں انھیں دی گئی سزائیں معطل ہو چکی ہیں اور اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ نے بھی اعلان کیا ہے کہ انھیں ’جبری حراست میں رکھا گیا ہے‘ مگر اس سب کے باوجود مستقبل قریب میں اُن کے جیل سے باہر آنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے۔

زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے جب تک پاکستان کی ’سیاسی طور پر طاقتور‘ فوج نہیں چاہیے گی، خان باہر نہیں آ سکتے۔

مگر اس حقیقت کا ادراک ہونے کے باوجود اتوار کو پی ٹی آئی رہنما عمران خان کے چاہنے والوں سے سیاسی وعدے کرنے سے باز نہیں آئے۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے سٹیج سے اعلان کیا ’سنو پاکستانیو، اگر ایک سے دو ہفتوں کے اندر اندر عمران کو قانونی طور پر رہا نہ کیا گیا تو خدا کی قسم ہم خود عمران خان کو رہا کروائیں گے۔‘

انھوں نے پرجوش ہجوم سے للکارتے ہوئے پوچھا ’کیا آپ تیار ہیں؟‘

کریک ڈاؤن

An emotional man is restrained
Getty Images
عمران خان کی جماعتپی ٹی آئی اور حکام کے درمیان بلی اور چوہے کوئی نئی بات نہیں

اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔

اگلے روز شام کو سوشل میڈیا اور ٹی وی نیوز چینلوں پر تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کی خبریں نشر ہونے لگیں۔

پاکستان کی پارلیمنٹ میں بنائی گئی فوٹیج میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کو مضبوطی سے بازؤں سے پکڑے عمارت سے باہر لا رہے تھے، ان کے گرد کیمرے اور موبائل فون اٹھائے صحافیوں اور کارکنان کا ہجوم تھا۔

مبینہ طور پر تحریکِ انصاف سے وابستہ قومی اسمبلی کے ایک رکن شعیب شاہین کے دفتر کے اندر فلمائی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج میں کئی باوردی پولیس اہلکار ان کے کمرے میں داخل ہو کر انھیں باہر دھکیلتے نظر آئے۔

کون کون گرفتار کر لیا گیا ہے اور کون بچ گیا، اس بارے میں واٹس ایپ گروپس میں عجیب کنفیوزن پھیلتی نظر آئی تاہم بعدازاں پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ 10 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

بیرسٹر گوہر کو بعد میں رہا کر دیا گیا مگر تحریک انصاف کے کئی دیگر ممبر پارلیمان پولیس کی حراست میں ہیں۔

شروع سے ہی خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ گرفتاریاں ایک نئے قانون کے تحت کی گئی ہیں جو گذشتہ ہفتے ہی متعارف کرایا گیا تھا اور جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ترجمان نے ’آزادیِ اظہار رائے اور پرامن احتجاج کے حق پر ایک اور حملہ‘ قرار دیا تھا۔

پرامن اجتماع اور پبلک آرڈر ایکٹ 2024 عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کرتا ہے اور اس میں ’غیر قانونی‘ احتجاج میں شامل شرکا کے لیے تین سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے اس کے علاوہ ایک سے زائد بار جرم کرنے کی صورت میں 10 سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کو یہ جلسہ منعقد کرنے کی باقاعدہ اجازت تو مل گئی تھی مگر پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے مقررہ اوقات کی پابندی نہیں کی جس وجہ سے ’امن و امان کی سنگین صورتحال‘ پیدا ہوئی اور ایکشن لیا گیا۔

بلی اور چوہے کا کھیل

Imran Khan sitting next to a Pakistan flag
Getty Images
وہ ایک شخص جس کی محبت میں ہزاروں افراد ہر رکاوٹ عبور کرکے جلسہ گاہ تک پپہنچے اور جس کا چہرہ ہر ماسک، ہر بینر پر آویزاں تھا، وہ وہاں موجود ہی نہیں تھا

عمران خان کی جماعت اور حکام کے درمیان بلی چوہے کا کھیل کوئی نئی بات نہیں اور حالیہ گرفتاریاں اسی سلسلے کی نئی کڑی ہیں۔

مگر پاکستان میں اقتدار کی اس لڑائی کا مطلب آخر کیا ہے؟

واشنگٹن میں ولسن سینٹر تھنک ٹینک میں ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں کہ یہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی بہترین کوشش ہے، لیکن بدترین بات یہ ہے کہ اس سے ملک مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں پاکستان کے لیے معاشی اور سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنا مزید مشکل ہو جائے گا۔

پاکستان اب بھی اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب حالیہ عرصے میں ملک میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

کوگل مین کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج (جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کے پیچھے اس کا ہاتھ ہے) بدلتی ہوئی دنیا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ کئی سالوں سے فوج ملک میں اختلاف رائے سے کامیابی کے ساتھ نمٹتی آ رہی تھی اور کریک ڈاؤن جیسے طریقوں سے اسے ختم کرنے میں کامیاب بھی رہی ہے لیکن اب یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور سیاسی نقطہ نظر سے پی ٹی آئی سوشل میڈیا سے فائدہ اٹھانے میں بہت کامیاب رہی ہے۔

کوگل مین کا ماننا ہے کہ فوج کے نقطہ نظر سے یہ انتہائی تشویشناک پیشرفت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ فوج غیر جمہوری طریقوں کا سہارا لے رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ فوج ایک ایسے سیاسی خطرے پر ردِعمل ظاہر کر رہی ہے جس کی اسے پہلے کبھی عادت نہیں رہی۔

پرامن اجتماع اور پبلک آرڈر ایکٹ 2024 متعارف کروانے اور پارلیمنٹ سے قانون سازوں کی گرفتاریوں کے علاوہ، پاکستانی حکومت کو آن لائن پابندیوں کے سبب ڈیجیٹل حقوق کے لیے مہم چلانے والوں کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔

فروری کے انتخابات کے دن سے ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس تک رسائی وی پی این کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

فوج نے بارہا ’سائبر دہشت گردی‘ کے خطرات کے بارے میں بات کی ہے اور حکومت نے حال ہی میں کہا ہے کہ وہ ایک آن لائن فائر وال پر کام کر رہی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ فائر وال آزادی اظہار کو کیسے محدود کر سکتی ہے، ایک وزیر کا کہنا تھا ’فائر وال سے کسی چیز میں رکاوٹ نہیں آئے گی۔‘

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا مشین کو محدود کرنے کی کوشش ہے، ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ حکومت ملک سے باہر رہنے والے پارٹی کے ان حامیوں کی رسائی محدود کرنا چاہتی ہے جو باقاعدگی سے آن لائن فوج پر تنقید کرتے ہیں۔

ایک ہائبرڈ نظامِ حکومت

Men, women and children look to the sky and raise their hands while flags wave overhead
Getty Images
پی ٹی آئی آج بھی ایک مقبول جماعت ہے جو کہیں بھی پاور شو دکھانے کی طاقت رکھتی ہے

کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ یہ بلی چوہے کا کھیل جتنا لمبا چلے گا، اتنا ہی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

لاہور میں مقیم سیاسی تجزیہ کار اور صحافی مہمل سرفراز کہتی ہیں: ’جب سیاسی جماعتیں آپس میں لڑتی ہیں تو ایک تیسری قوت اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتی ہے۔‘

بہت سے تجزیہ کاروں کے نزدیک وہ تیسری قوت پاکستانی فوج ہے جو طویل عرصے سے ملکی سیاست میں مداخلت کرتی آئی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی فوج ماضی قریب میں متعدد مرتبہ وضاحت کر چکی ہے اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

فوج نے پہلے جس حد تک سویلین حکومتوں کو فیصلے کرنے کی اجازت دی تھی اب وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ بہت سے سیاسی فیصلوں اور پابندیوں کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے۔

محمل سرفرازکہتی ہیں کہ جب تک سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے بات نہیں کریں گی یہ ہائبرڈ نظامِ حکومت مضبوط تر ہوتا جائے گا اور ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ مستقل طور پر ہائبرڈ نظام قائم ہو جائے۔

عمران خان نے واضح کیا ہے کہ انھیں اور ان کی پارٹی کو دوسری سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

پی ٹی آئی آج بھی ایک مقبول جماعت ہے جو کہیں بھی پاور شو دکھانے کی طاقت رکھتی ہے اور کسی قسم کے دباؤ کے سامنے جھکتی نظر نہیں آتی۔

اگرچہ پارٹی رہنما کامیابی کے ساتھ اپنے لیڈر کا نام اخباروں کی شہ سرخیوں میں رکھے ہوئے ہیں مگر وہ عمران خان کو جیل سے باہر نہیں لا سکتے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کسی سمجھوتے کے موڈ میں نہیں ہے اور حالیہ جلسے کے دوران کی گئی تقاریر بتاتی ہیں کہ وہ محاذ آرائی کی سیاست پر قائم ہیں اور یہی چیز ان کی سیاسی اور قانونی پریشانیوں کا سبب ہے۔

عمران خان اب بھی فوجی عدالت میں مقدمے سے بچنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ادھر فوج بھی اپنے ارادوں سے ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ پی ٹی آئی جتنی مزاحمت دکھانے کی کوشش کرتی ہے فوج ان کے راستے میں اتنی ہی زیادہ رکاوٹیں ڈالتی نظر آتی ہے۔

تاہم کچھ لوگوں کو خدشہ ہے کہ نئے اقدامات نافذ ہو گئے تو انھیں واپس لینا مشکل ہو جائے گا۔

محمل سرفراز کہتی ہیں ’خطرناک بات یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم جمہوریت سے دور ہو کر ایک ہائبرڈ نظام بنتے جائیں گے۔‘

اور ہاں ابھی تک کنٹینرز اسلام آباد کی سڑکوں کے کنارے رکھے ہوئے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.