’شیخ حسینہ کو سیاسی بیان بازی سے روکیں‘: بنگلہ دیش کی نئی سفارتی پالیسی جو انڈیا کو پریشان کر رہی ہے

انڈین خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر یونس نے دوٹوک کہا ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کو دہلی میں قیام کے دوران سیاسی بیان بازی سے روکے۔
ڈاکٹر محمد یونس اور شیخ حسینہ
Getty Images

بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں متنبہ کیا ہے کہ ’اگر انڈیا شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کی جانب سے واپسی کے مطالبے تک اپنے پاس روکے رکھنا چاہتا ہے تو ا نھیں خاموش رہنے کی شرط پر عمل کرنا ہوگا۔‘

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد ہمسایہ ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات ایک ماہ سے زائد عرصے سے کشیدہ ہیں۔

جہاں ایک طرف شیخ حسینہ کے انڈیا میں قیام سے بنگلہ دیش ناراض ہے وہیں دوسری طرف بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے ایک حالیہ انٹرویو نے انڈیا کو حیران کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی عوامی لیگ پارٹی کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔

شیخ حسینہ کو انڈیا نواز سیاسی لیڈر کے طور پر جانا جاتا ہے اور ان کے 15 سالہ دور حکومت میں دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹجک اور اقتصادی تعلقات قریبی نوعیت کے رہے ہیں۔

تاہم موجودہ صورت حال میں ان برسوں کی دوستی اور تعلقات کس نہج پر ہیں ،اس مضمون میں یہی جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

نریندر مودی اور شیخ حسینہ
Getty Images

شیخ حسینہ کا مطالبہ اور بنگلہ دیش میں غم و غصہ

شیخ حسینہ کا دور اقتدار انڈیا کی سکیورٹی کے لیے بھی فائدہ مند رہا ہے۔ اپنے دور اقتدار میں شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش سے سرگرم بعض انڈیا مخالف باغی گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا بلکہ سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے اقدامات بھی کیے۔

لیکن انڈیا میں ان کا غیر معینہ مدت تک قیام دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات برقرار رکھنے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔

اس اندیشے کو مزید تقویت گذشتہ ہفتے بنگلہ دیش کے عبوری وزیر اعظم ڈاکٹر یونس کے اس حالیہ انٹرویو سے ملی ہے۔

انڈین خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹر یونس نے کہا ہے کہ انڈیا شیخ حسینہ کو دہلی میں قیام کے دوران سیاسی بیان بازی سے روکے۔

ڈاکٹر یونس کا اشارہ یقینا شیخ حسینہ کے انڈیا آنے کے دوسرے ہی دن دیے جانے والے اس بیان کی طرف تھا جس میں انھوں نے نہ صرف اپنے خاندان کی ’قربانیوں‘ کا ذکر کیا تھا بلکہ یہ بھی کہا تھا کہ حالیہ احتجاج کے دوران بدامنی، آتشزدگی اور تشدد کے باعث بہت سے قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جس کے لیے وہ لواحقین سے تعزیت کرتی ہیں۔

حسینہ واجد نے مطالبہ کیا تھا کہ ’حالیہ قتل و غارت اور بدامنی میں ملوث افراد کی مناسب تحقیقات کے بعد نشاندہی کی جائے اور انھیں کڑی سزا دی جائے۔‘

شیخ حسینہ کے اس بیان کو ان کے بیٹے نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر شیئر کیا تھا اور اس بیان پر بنگلہ دیش کے عوام میں بہت غم و غصہ بھی دیکھا گیا۔

اس کے بعد سے شیخ حسینہ کا عوامی سطح پر دیا جانے والا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ بنگلہ دیش میں جولائی اور اگست میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر شیخ حسینہ کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔

شیخ حسینہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ان کی واپسی کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اب ’نچلی سطح‘ پر ہیں: ڈاکٹر یونس

ڈاکٹر یونس نے اپنے انٹرویو میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنے پر بھی زور دیا مگر کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اب ’نچلی سطح‘ پر ہیں۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے ابھی تک اس معاملے پر سرکاری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم کہا جا رہا ہے کہ حکام اس صورتحال سے مایوس ہیں۔

ایک انڈین اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’انڈیا بنگلہ دیش میں ہونے والی تبدیلیوں اورڈھاکہ سے حکومت میں شامل رہنماؤں اور دیگر کی تقاریر اور بیانات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘

انڈیا کے سابق سفارت کار ڈاکٹر یونس کے اس قسم کے بیان کو ’میگا فون ڈپلومیسی‘ قرار دے رہے ہیں اور اس معاملے پر حیران بھی ہیں۔

ان کے مطابق ڈاکٹر یونس متنازع مسائل پردو طرفہ بات چیت کے بجائے میڈیا پر معاملہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ڈھاکہ کی سابق انڈین ہائی کمشنر وینا سیکری نے کہا ہے کہ انڈیا نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت سے بات کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان مسائل پر مذاکرات کرنے کے لیے اپنی رضامندی کا اشارہ دیا ہے۔

ریٹائرڈ سفارت کار وینا سیکری نے مزید کہا کہ ان مسائل پر بات چیت کی ضرورت ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ ڈاکٹر یونس نے کس بنیاد پر یہ کہا کہ دو طرفہ تعلقات کم سطح پر ہیں۔

بنگلہ دیش کی وزارت خارجہ نے انڈیا کی تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔

بنگلہ دیش میں مظاہرے
Getty Images

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے خارجہ امور کے مشیر توحید حسین نے بی بی سی بنگلہ کو ایک انٹرویو میں بتایا ’کیا انڈین لیڈر اور رہنما کسی میڈیا سے بات نہیں کرتے؟ اگر ڈاکٹر یونس سے کسی خاص ایشو کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ یقینی طور پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔‘

توحید حسین کے مطابق ’اگر آپ تنقید کرنا چاہتے ہیں تو آپ کسی بھی چیز پر تنقید کر سکتے ہیں۔‘

چند ہفتے قبل انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور ڈاکٹر یونس نے ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے لیکن اب تک سرکاری سطح پر باضابطہ رابطہ نہیں ہوا۔

ایسا لگتا ہے کہ انڈیا میں اتفاق رائے پایا جا رہا ہے کہ شیخ حسینہ وہاں اس وقت تک رہ سکتی ہیں جب تک کہ انھیں کسی دوسرے ملک میں داخلے کی اجازت نہ مل جائے۔

تاہم بنگلہ دیش کے لیے بین الاقوامی فوجداری ٹریبونل کے نئے تعینات ہونے والے چیف پراسیکیوٹر محمد تاج الاسلام نے کہا ہے کہ وہ احتجاج کے دوران ہلاکتوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے باعث انھیں بنگلہ دیش واپس لانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

تاج الاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ ’چونکہ انھیں بنگلہ دیش میں ان ہلاکتوں کا مرکزی ملزم بنایا گیا ہے اس لیے ہم انھیں قانونی طور پر بنگلہ دیش واپس لانے اور قانون کے کٹہرے میں لانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔‘

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش اگر شیخ حسینہ کو واپس لانے کی باضابطہ درخواست کرے تب بھی حوالگی کا قانون آڑے آ سکتا ہے۔

ڈھاکہ میں انڈین ہائی کمشنر ریوا گنگولی داس نے اس کی وضاحت اس طرح کی: ’وہ انڈیا میں مہمان کے طور پر قیام پزیر ہیں اور اگر ہم اپنے دیرینہ دوست کے ساتھ شائستگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو مستقبل میں کوئی ہمیں دوست کے طور پر کیسے سنجیدگی سے لے گا۔‘

بنگلہ دیش کے عبوری سربراہ ڈاکٹر یونس
Getty Images

چین اور یورپی ممالک کے سفیروں کی بی این پی سے باقاعدہ ملاقاتیں

ڈاکٹر یونس نے اپنے انٹرویو میں بنگلہ دیش کی حزب اختلاف کی جماعتوں سے رابطہ نہ کرنے پر انڈیا پر تنقید بھی کی۔

انھوں نے کہا کہ ’ایک بیانیہ یہ بنایا گیا کہ چاہے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی ہو یا دیگر ہر کوئی انتہا پسند ہے، سب اسلام پسند ہیں اور وہ اس ملک کو افغانستان میں بدل دیں گے اور بنگلہ دیش صرف شیخ حسینہ کے ہاتھ میں محفوظ ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ انڈیا اس بیانیے سے مرعوب ہے۔

تاہم انڈین تجزیہ کاروں کی رائے مختلف ہے۔

وینا سیکری کہتی ہیں ’میں اس بیان سے بالکل متفق نہیں ہوں۔ بنگلہ دیش میں ہمارے ہائی کمشنرز نے تمام سیاسی جماعتوں سے بات کی ہے۔‘

ڈھاکہ اور دہلی کے درمیان دو طرفہ تعلقات 2001 سے 2006 تک بی این پی کی زیر قیادت مخلوط حکومت کے دوران خراب ہوئے۔

اس وقت دہلی نے ڈھاکہ پر انڈیا کے شمال مشرق سے باغیوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا تھا تاہم بی این پی اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

دوسری جانب بنگلہ دیش میں بہت سے لوگ انڈیا کے بی این پی سے رابطہ کرنے پر زور دیتے ہیں کیونکہ قوی امکان ہے کہ انتخابات جب بھی ہوں گے بی این پی کی جیت یقینی ہو گی۔

بی این پی کے سیکرٹری جنرل مرزا فخر الاسلام عالمگیر کہتے ہیں کہ ’پانچ اگست کو شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے کوئی انڈین اہلکار ہم سے نہیں ملا تاہم اس کی وجوہات میرے علم میں نہیں۔‘

اس کے برعکس چین کے سفیر اور یورپی ممالک کے سفیروں کی ڈھاکہ میں بی این پی سے باقاعدہ ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔

انتہا پسند دوبارہ قدم جمانے میں کامیاب ہوئے تو یہ دہلی کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو گا

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے وقت ملک میں امن و امان کی صورت خال خراب تھی اور اسی دوران مشتبہ انتہا پسندوں کی طرف سے اقلیتوں پر حملوں میں اضافہ ہوا۔

انڈیا پہلے ہی ہندوؤں پر حملوں کی اطلاعات پر متعدد بار تشویش کا اظہار کر چکا ہے۔گذشتہ چند ہفتوں میں مختلف مقامی مزاروں پر توڑ پھوڑ کے واقعات پیش آئے ہیں۔

بنگلہ دیش میں سنی فرقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت ہے اور سخت گیر لوگ مزاروں اور مقبروں کو اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں۔

سراج گنج ضلع میں علی خواجہ علی پگلا پیر کے مزار کے نگراں کی اہلیہ تمنا اختر نے بتایا کہ ’کچھ دن قبل لوگوں کا ایک جتھہ آیا اور میرے سسر کی قبر پر توڑ پھوڑ کی اور ہمیں دھمکایا کہ کسی اسی تقریب کا انعقاد نہ کیا جائے جو اسلام کے خلاف ہو۔‘

بنگلہ دیش کی وزارت مذہبی امور کے مشیر اے ایف ایم خالد حسین نے کہا کہ مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر انتہا پسند مسلمان بنگلہ دیش میں دوبارہ قدم جمانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ دہلی کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو گا۔

گذشتہ چند ہفتوں میں ایک سزا یافتہ عسکریت پسند کو رہا کیا گیا ہے۔ اس سے قبل نو مشتبہ بنیاد پرست گذشتہ ماہ جیل سے فرار ہوئے تھے جن میں سے چار کو بعد میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

کالعدم تنظیم انصار اللہ بنگلہ ٹیم کے سربراہ جاسم الدین رحمانی کو گذشتہ ماہ ضمانت پر جیل سے رہا کیا گیا تھا۔

شیخ حسینہ کی حکومت نے 2016 میں اس گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔

2015 میں انھیں ایک مبینہ بلاگر کے قتل کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ وہ دیگر زیر التوا مقدمات کی وجہ سے جیل کی مدت پوری ہونے کے بعد بھی سلاخوں کے پیچھے رہے۔

سابق سفارت کار ریوا گنگولی داس نے ان اقدامات کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ مہینوں میں کئی عسکریت پسندوں کو رہا کیا گیا ہےاور ان میں سے بعض کے بارے میں انڈیا باخبر ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.