اسلام آباد میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں یتیم بچوں کی غیر سرکاری تنظیم ’پاکستان سویٹ ہوم‘ کی جانب سے بچوں کو ایوارڈز سے نوازنے کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کیا گیا۔ تقریب میں جب یتیم لڑکیاں اسٹیج پر اپنے ایوارڈز لینے کے لیے آئیں تو ایک غیر متوقع منظر دیکھنے کو ملا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے لڑکیوں کو ایوارڈ دینے سے انکار کرتے ہوئے اسٹیج فوراً چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ لڑکیاں ان کے لیے نامحرم ہیں، اس لیے وہ انہیں شیلڈ پیش نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اس فیصلے نے تقریب میں موجود لوگوں کو حیران کر دیا، تاہم ان کے اس اقدام نے کچھ حلقوں میں حمایت بھی حاصل کی۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ڈاکٹر ذاکر نائیک 30 ستمبر کو پاکستان کے ایک ماہ کے دورے پر آئے تھے، جہاں وہ مختلف تقریبات اور موضوعات پر اسلامی نقطۂ نظر سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ روایتی اسلامی تعلیمات کی پیروی کے تحت لیا گیا تھا، جس پر مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ لوگوں نے ان کے اس اصولی موقف کی تعریف کی جبکہ دوسروں نے اسے تنقیدی نگاہ سے دیکھا۔
تقریب کے منتظمین اور مہمانوں کے لیے یہ لمحہ چونکا دینے والا تھا، لیکن یہ واقعہ ایک اہم مذہبی اور ثقافتی بحث کا آغاز کر گیا ہے کہ ایسے مواقع پر مذہبی رہنماؤں کے فیصلے کس حد تک معاشرتی رسم و رواج کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔
یہ واقعہ نہ صرف تقریب کے شرکاء کے لیے حیران کن تھا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی تیزی سے موضوعِ بحث بن گیا، جہاں مختلف آراء کا تبادلہ ہوا۔