’روحانی معالج نے کہا میرا بیٹا تین دن تک ایک حادثے میں مر جائے گا‘: معمر خواتین جعلسازوں کے نشانے پر

دنیا بھر میں چینی برادریاں جعلسازوں کے نشانے پر ہیں۔ جیسے معمر خواتین کو اکثر یہ کہہ کر ان کے قیمتی اثاثوں سے محروم کر دیا جاتا ہے کہ ان کے پیاروں کی جان خطرے میں ہے۔

دنیا بھر میں چینی برادریاں جعلسازوں کے نشانے پر ہیں۔ جیسے معمر خواتین کو اکثر یہ کہہ کر ان کے قیمتی اثاثوں سے محروم کر دیا جاتا ہے کہ ان کے پیاروں کی جان خطرے میں ہے۔

برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کی پولیس ایسے مقدمات کی تفتیش کر رہی ہے۔

یہ جرم کسی ڈرامے جیسا ہے۔ متاثرین کو کوئی شک نہیں ہوتا جبکہ تین خواتین پر مشتمل گینگ چینی زبان میں ایک لکھی لکھائی سکرپٹ کے ذریعے متاثرین کو خوفزدہ کر دیتا ہے۔

لندن کی رہائشی معمر خاتون مُنگنی جب یوگا کرنے کے لیے جا رہی تھیں تو مغربی لندن میں ان کے پاس ایک فریاد کرنے والی عورت آئی۔ انھوں نے منگنی کو روایتی چینی زبان میں پوچھا کہ کیا وہ ایک روایتی چینی روحانی معالج کے بارے میں جانتی ہیں کیونکہ ان کے شوہر بیمار ہیں۔

جلد ہی ان کے پاس ایک اور اجنبی عورت آئی اور اس نے کہا کہ وہ اس روحانی معالج کو جانتی ہیں اور یہ کہ وہ انھیں وہاں لے کر جا سکتی ہیں۔

مُنگنی بھی اس بہکاوے میں آ گئیں اور اس پریشان حال عورت کی مدد کے لیے کمر کس لی۔ اس گلی کے ایک خاموش کونے پر ایک تیسری عورت بھی انھیں ملی۔

اس عورت نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اس روحانی معالج کی رشتہ دار ہیں اور یوں انھوں نے ان خواتین کو اس معالج کے گھر لے جانے کی حامی بھر لی۔

جب مُنگنی اس روحانی معالج سے ملیں تو انھیں 15 منٹ کی گفتگو کے بعد اپنے بارے میں افسوسناک خبر سننے کو ملی۔ اس چینی معالج نے اپنی روحانی طاقت سے یہ دریافت کیا کہ دراصل منگنی خود بھی ایک مشکل کا شکار ہیں۔

اس معالج کو معجزانہ طور پر منگنی کو درپیش شادی سے متعلقہ امور کے بارے میں سب خبر تھی۔ اور چینی روحانی معالج کو منگنی کی دائیں ٹانگ میں درد کا بھی علم تھا۔ اب یہ ایسی باتیں تھیں جو منگنی نے معالج کے ساتھ شیئر نہیں کی تھیں۔

China
BBC

مگر اس کے بعد جو معالج نے انکشاف کیا اس سے منگنی مزید حیرت زدہ رہ گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’آپ کا بیٹا اگلے تین دن میں ایک حادثے میں مر جائے گا۔‘

اس عورت نے روحانی معالج کے سامنے فریاد کی کہ وہ ایسا کوئی دم کر دیں کہ جس سے ان کا جوان بیٹا اس حادثے سے محفوظ رہ سکے۔

ان خواتین نے منگنی کو بتایا کہ آپ کو ایک مٹھی بھر چاول لانے ہوں گے اور جتنا ممکن ہو سکے اپنے بیگ کو سونے اور پیسوں سے بھر دیں۔ وہ ان سب قیمتی اشیا پر دم کر دیں گے۔

مُنگنی نے کہا کہ انھیں یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ دم کرنے کے بعد ان کی یہ قیمتی اشیا انھیں لوٹا دی جائیں گی۔ ان میں سے ایک عورت جیولری اکٹھی کرنے کے لیے منگنی کے گھر دوڑ کر گئیں۔ اس کے بعد وہ بینک سے چار ہزار پاؤنڈ نکلوانے گئیں۔ تمام قیمتی اشیا ایک پلاسٹک بیگ میں رکھ دی گئیں۔

منگنی کو یہ لگ رہا ہے کہ ’یہی وہ لمحہ تھا کہ جب بیگ بدل لیے گئے۔ پلک جھپکتے میں یہ سب کچھ ہوا۔ ان کے ہاتھ اس قدر پھرتیلے تھے کہ میں کچھ دیکھ ہی نہیں پائی۔‘

جب منگنی گھر پہنچیں تو وہ اپنے کالے بیگ میں ایک اینٹ، کیک کا ایک ٹکڑا اور پانی کی دو بوتلیں دیکھ کر دھنگ رہ گئیں۔ وہ کہتی ہیں: ’جب میں کچھ ہوش میں آئی تو تب میں نے اپنے بیٹے کو یہ بتایا کہ مجھے لگتا ہے کہ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ اور مجھے جال میں پھنسایا گیا ہے۔‘

جو اشیا چرائی گئیں ان میں سے کچھ ایسی چیزیں تھیں جو اس خاندان میں نسل در نسل چلی آ رہی تھیں اور وہ انھیں ان کی ماں کی طرف سے ملی تھیں۔

منگنی کے ساتھ جو ہوا یہ ایک کتابی مثال ہے کہ کیسے روحانیت کے نام پر جعلسازی ہو رہی ہے۔ بی بی سی نے اس طرح کے دھوکے کا شکار ہونے والے متعدد افراد سے بات کی ہے جنھوں نے اسی طرح کی کہانیاں سنائی ہیں۔

اس طرح کے افسانوی روحانی معالجین کا بہت سے مقدمات میں نام بھی ایک ہی تھا: مسٹر کُوہ۔

تمام متاثرین کو چند گھنٹوں کے اندر لوٹا گیا۔ منگنی کو صرف تین گھنٹوں میں ان کی تمام قیمتی اشیا سے محروم کر دیا گیا۔

عنقی شن نارتھمبریا یونیورسٹی میں قانون پڑھاتی ہیں۔ وہ چین میں پولیس افسر بھی رہ چکی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ تبرک کے نام پر ہونے والی دھوکہ دہی دراصل سٹریٹ کرائم کی ہی ایک مثال ہے جس میں چوری کے لیے روحانی عقائد کا استحصال کیا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’چین کے لوگ کچھ قیمتی زیورات خاص طور پر سونے، چاندی، جیڈ یعنی ’مالا‘ سے بنی ہوئی چیزیں اپنے پاس رکھتے ہیں، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بلاؤں کی ٹالتی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’مثاثرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان اشیا میں برکت ہوتی ہے اور یہ ہر طرح کے تحفظ کی ضامن بن سکتی ہیں۔‘

جعلسازی
BBC

تُویت وین ہُواین نے اس طرح کی دھوکہ دہی سے محفوظ رہنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک آگاہی مہم شروع کی۔ انھوں نے یہ مہم اس وقت شروع کرنے کا فیصلہ کیا جب ان کی ماں سے مئی میں ایسے ہی دھوکہ دہی سے لاکھو پاؤنڈ لوٹے گئے۔

ان کی ماں مشرقی لندن میں اپٹن کے مقام پر خریداری کر رہی تھیں جب اسی طرح تین خواتین ان کے قریب آئیں اور بتایا کہ ان کے بیٹے کو بد روحیں ستا رہی ہیں۔

گذشتہ برس امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے اپنے عوام کو اس طرح کے روحانی استحصال والے واقعات سے محفوظ رہنے کے لیے خبردار کیا ہے۔

برطانیہ می منگنی اور تُویت کی ماں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے دھوکہ دہی کے واقعات کا مقدمہ درج کروایا۔ پولیس نے انکشاف کیا کہ وہ پہلے سے ہی لندن کے اسلنگٹن کے علاقے میں اس طرح کے مقدمات کی تفتیش کر رہی ہے۔

تُویت کو اس طرح کے واقعات لیوشم، رومفورڈ، لیورپول اور مانچسٹر کے علاقوں سے بھی سننے کو ملے۔ انھوں نے اس علاقے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر کے یہ جاننے کی کوشش کی آخر ان کی ماں کے ساتھ یہ دھوکہ دہی کی گئی۔

تویت کہتی ہیں کہ ان کی ماں ان خواتین کی ہر بات کو ایسے مان رہی تھیں کہ جیسے وہ انسان نہیں بلکہ ’زومبی‘ ہوں۔

تویت کی ماں اپنے ساتھ پیش آئے اس واقعے کو اب بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ کیسے جرائم پیشہ افراد نے روحانی اعتقاد کی بنیا پر انھیں اپنی چال میں پھنسایا کیونکہ وہ نہ تو بہت ضدی قسم کی توہم پرست ہیں اور نہ زیادہ روحانی شخصیت کی مالک ہیں۔

تویت کے خیال میں شاید اس سب میں کچھ اور بھی شامل ہو سکتا ہے۔ وہ اس پر تحقیق کر رہی ہیں کہ کہیں اس طرح کی دھوکہ دہی میں منشیات تو استعمال نہیں کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی ماں کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا۔

اس واقعے میں وہ اپنے گھر کے کونے کونے سے قیمتی اشیا نکال کر ان کے حوالے کر رہی تھیں۔

’شیطان کی سانس‘
BBC
’شیطان کی سانس‘ نامی دوا ایک پھول سے حاصل کی جاتی ہے

ان کے خیال کے مطابق یہ ممکن ہے کہ ’شیطان کی سانس‘ نامی یہ ایک ڈرگ ہو سکتی ہے۔

سکوپولامین، جسے عام طور پر ’شیطان کی سانس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، موشن سکنس کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ایک خاص حد تک اگر اس کی مقدار کسی کو کھلائی جائے تو اس سے وہ سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

ممکنہ طور پر یہ دوا سڑکوں پر ان متاثرین کو دی جاتی ہے اور انھیں یہ خبر بھی نہیں ہوتی کہ انھیں نشہ آور چیز کھلا دی گئی ہے۔

تویت کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ دوا ان کی ماں یا دیگر متاثرین میں سے کسی کو دی گئی ہو۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ یہ ان چند ادویات میں سے ایک ہے جس سے انسان ہوش کھو بیٹھتا ہے۔ اس دوا کو ایکواڈور، فرانس اور ویتنام میں ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کولمبیا میں تو قتل اور جنسی تشدد کے لیے بھی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ابھی یہ تو معلوم نہیں ہے کہ برطانیہ میں بھی اس طرح کے سکیم میں اس دوا کا استعمال کیا گیا ہے یا نہیں۔ اگر ایسا کیا بھی گیا تو اس بات کو ثابت کرنا ایک مشکل امر ہوگا۔

یہ ڈرگ جسم میں بہت جلدی سے متحرک ہوتا ہے۔ جب تویت نے اگلے روز اپنی ماں کو طبی معائنے کے لیے لے جانے کی کوشش کی تو اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

لیسا ملز ایک خیراتی ادارے ’وکٹمز سپورٹ‘ میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے سکیم کے بہت موثر ہونے کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہو سکتی ہیں اور یہ اس طرح ترتیب دیا جاتا ہے کہ متاثرین کو جلد سے جلد ان کی قیمتی اشیا سے محروم کرنا ہوتا ہے۔

’آپ کی ملاقات ایسے لوگوں سے ہوتی ہے جو آپ کی طرح کے ہوتے ہیں۔ وہ خواتین ہیں، ہم عمر ہیں، وہی زبان بولتی ہیں۔‘

اگرچہ اس وقت دھوکہ دہی کرنے والے فرار ہو چکے ہیں لیکن کچھ متاثرین کے اہل خانہ انھیں تلاش کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

منگنی کا کہنا ہے کہ میں نے پولیس کو بتایا کہ میں ان مجرموں کو پکڑنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہوں۔‘ انھیں جو چیز سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دھوکہ دینے والے چینی تھے۔ ’وہ اپنے ہی لوگوں سے دھوکہ کر رہے ہیں۔‘

آسٹن لینڈیز نے کولمبیا سے اس خبر کے لیے اضافی رپورٹنگ کی ہے


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.