یحییٰ سنوار کی موت حماس کے لیے بڑا دھچکا لیکن ’جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی‘

بہت سے اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ نیتن یاہو غزہ میں جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں تاکہ انھیں سکیورٹی کی ناکامیوں میں اپنی ذمہ داری کے لیے جوابدہ نہ ہونا پڑے جس کی وجہ سے سنوار اور ان کے ساتھیوں کو اسرائیل میں داخل ہونے کا موقع ملا۔
یحییٰ سنوار
Getty Images

غزہ میں یحییٰ سنوار کی ہلاکت حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

اُن کی موت حماس کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔ سنوار نے حماس کو ایک جنگی قوت میں تبدیل کیا اور اُن ہی کی بدولت حماس نے اسرائیل کی ریاست کو اُس کی تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی سے ہمکنار کیا تھا، یعنی 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے چونکا دینے والے حملوں کی صورت میں۔

سنوار اسرائیلی سپیشل فورسز کی جانب سے کیے گئے ایک سوچے سمجھے آپریشن میں ہلاک نہیں ہوئے بلکہ جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اسرائیلی فورسز سے اچانک تصادم کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔

جائے وقوعہ پر بنائی گئی ایک تصویر میں جنگی لباس میں ملبوس سنوار کو ایک تباہ حال عمارت کے ملبے میں مردہ حالت میں دکھایا گیا۔

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اپنے فوجیوں کی تعریف کی اور واضح کیا کہ سنوار کی ہلاکت کتنی ہی بڑی فتح ہو مگر ’یہ جنگ کا خاتمہ نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آج ہم نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ہمیں نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ آج ہم نے ایک بار پھر دنیا کو برائی پر اچھائی کی جیت دکھا دی۔‘

’جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ مشکل ہے اور اس کی ہمیں بہت بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔‘

نیتن یاہو کے مطابق ’بڑے چیلنجز ابھی بھی ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں برداشت، اتحاد، ہمت اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔ ہم مل کر لڑیں گے، اور خدا کی مدد سے مل کر جیتیں گے۔‘

نیتن یاہو اور غزہ میں جنگ کی حمایت کرنے والے اسرائیلیوں کو اِس فتح کی ضرورت تھی۔

وزیر اعظم نیتن یاہو نے بارہا جنگ سے متعلق اپنے مقاصد ظاہر کیے ہیں: یعنی حماس کو بطور عسکری اور سیاسی قوت تباہ کرنا اور اسرائیلی یرغمالیوں کی گھر واپسی۔

یحییٰ سنوار
Getty Images

بظاہر اس جنگ میں اب تک یہ دونوں مقاصد حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔ غزہ جنگ کے ایک سال میں کم از کم 42 ہزار فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ غزہ کا اکثریتی علاقہ تباہ و برباد اور ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔

ابھی بھی کئی اسرائیلی یرغمالی آزاد نہیں ہو سکے ہیں۔ حماس کی طرف سے لڑائی جاری ہے اور وہ بعض اوقات اپنی کارروائیوں میں اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔

سنوار کی ہلاکت وہ فتح ہے جو اسرائیل چاہتا تھا تاہم نیتن یاہو یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ جنگ کے دیگر اہداف حاصل ہو چکے ہیں تاہم اُن کے مطابق جنگ ابھی بھی جاری رہے گی۔

یحییٰ سنوار غزہ کی پٹی کے علاقے خان یونس میں 1962 میں پیدا ہوئے۔ مشرق وسطیٰ کی 1967 کی جنگ کے دوران اسرائیل نے مصر سے اس علاقے کا قبضہ حاصل کیا تو اُس وقت سنوار کی عمر محض پانچ برس تھی۔

سنہ 1948 کی جنگ میں اُن کا خاندان اُن سات لاکھ فلسطینیوں میں سے تھا جنھیں اسرائیلی فورسز نے گھروں سے بے دخل کیا یا نقل مکانی پر مجبور کیا۔

اُن کے خاندان کا تعلق عسقلان سے تھا جو غزہ کی پٹی میں شمالی سرحد کے قریب واقع علاقہ ہے۔

نوجوانی میں انھیں چار فلسطینی مخبروں کے قتل کے الزام میں اسرائیل میں سزا ہوئی تھی۔

جیل میں 22 سال قید کے دوران انھوں نے عبرانی زبان سیکھی، اپنے دشمن کا بغور مطالعہ کیا اور یہ سوچنے لگے کہ انھوں نے اسرائیل سے لڑنا سیکھ لیا ہے۔

اسرائیل کے پاس ان کا ڈینٹل (دانتوں کا) ریکارڈ اور ڈی این اے کے نمونے تھے جس کی بدولت انھوں نے سنوار کی میت کی شناخت کی۔

سنوار اُن ایک ہزار سے زیادہ فلسطینیوں میں سے تھے جنھیں سنہ 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے دوران ایک اسرائیلی فوجی کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔

7 اکتوبر 2023 کو سنوار اور اُن کے جنگجوؤں نے اسرائیل پر حملے کیے جو اسرائیل کی بدترین ناکامی ثابت ہوئے۔ یہ صدمہ آج بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔

1200 اسرائیلیوں کے قتل، درجنوں کا یرغمال بنائے جانا اور اس کے بعد ہونے والے جشن نے کئی اسرائیلیوں کے لیے ہولوکاسٹ کی یاد تازہ کر دی تھی۔

حماس کے رہنما
Getty Images

سنوار کی خود بحیثت قیدی کے تبادلے نے انھیں یرغمالیوں کی اہمیت کے بارے میں قائل کیا ہو گا۔

باقی 101 یرغمالی جن کے بارے میں اسرائیل کا خیال ہے کہ اُن میں سے آدھے پہلے ہی ہلاک ہو چکے ہیں، اُن کےاہلخانہ تل ابیب کے اُس چوک میں جمع ہوئے جہاں وہ ایک سال سے جمع ہو رہے ہیں اور اسرائیلی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے لوگوں کو وطن واپس لانے کے لیے ایک نیا مذاکراتی دور شروع کرے۔

مغوی متان زنگوکیر کی والدہ آئنو زنگاوکر نے وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ ’نیتن یاہو، یرغمالیوں کو دفن نہ کریں۔ اب ثالثوں اور عوام کے پاس جائیں اور ایک نیا اسرائیلی اقدام پیش کریں۔‘

’میرے متان اور سرنگوں میں موجود باقی یرغمالیوں کے لیے۔۔۔ وقت ختم ہو چکا۔ آپ کے پاس فتح کے مناظر ہیں۔ اب ایک معاہدہ کر لیں۔‘

اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر نیتن یاہو اس موقع کو استعمال نہیں کرتے اور جنگ کے خاتمے کی قیمت پر بھی ایک نیا اقدام نہیں اٹھاتے تو اُس کا مطلب ہے کہ انھوں نے جنگ کو طول دینے اور اپنی حکمرانی کو مضبوط بنانے کی کوشش میں یرغمالیوں کو تنہا کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

’ہم اس وقت تک ہمت نہیں ہاریں گے جب تک سب واپس نہیں آ جاتے۔‘

بہت سے اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ نیتن یاہو غزہ میں جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں تاکہ انھیں سکیورٹی کی ناکامیوں میں اپنی ذمہ داری کے لیے جوابدہ نہ ہونا پڑے جس کی وجہ سے سنوار اور ان کے ساتھیوں کو اسرائیل میں داخل ہونے کا موقع ملا اور بدعنوانی کے سنگین الزامات پر اُن کے خلاف مقدمہ غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔

انھوں نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ غزہ میں حماس پر ’مکمل فتح‘ ہی اسرائیلی سلامتی بحال کرے گی۔

دیگر خبر رساں اداروں کی طرح اسرائیل بی بی سی کو بھی غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ وہ فوج کے ساتھ نگرانی میں غزہ کا دورہ کریں۔

سنوار کی جائے پیدائش خان یونس کے کھنڈرات میں مقامی قابل اعتماد فری لانسرز کی جانب سے بی بی سی کے لیے انٹرویو کیے گئے جن میں فلسطینیوں کا کہنا تھا کہ جنگ جاری رہے گی۔

رمضان فارس کا کہنا تھا ’یہ جنگ سنوار پر منحصر نہیں تھی، یا ہنیہ اور مشال پر۔ نہ یہ کسی رہنما یا سرکاری اہلکار تک محدود ہے۔‘

’جیسا کہ ہم سب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ فلسطینی عوام کے خلاف قتلِ عام کی جنگ ہے۔ یہ مسئلہ سنوار یا کسی اور سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔‘

عدنان عاشور نامی شخص کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ غمزدہ ہیں اور کچھ سنوار سے لاتعلق ہیں۔

’وہ صرف ہمارے پیچھے نہیں پڑے ہیں۔ وہ پورا مشرق وسطیٰ چاہتے ہیں۔ وہ لبنان، شام اور یمن میں لڑ رہے ہیں۔ یہ ہمارے اور یہودیوں کے درمیان 1919 سے 100 سال سے جاری جنگ ہے۔‘

اُن سے پوچھا گیا تھا کہ کیا سنوار کی موت حماس کو متاثر کرے گی؟

تو اُن کا کہنا تھا کہ ’مجھے امید ہے کہ نہیں، میں اس کی وضاحت کروں کہ حماس صرف سنوار نہیں۔۔۔ یہ ایک قوم کا مقصد ہے۔‘

غزہ میں جنگ جاری ہے۔ اس دوران تازہ کارروائی میں شمالی غزہ پر حملے میں 25 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے ایک کمانڈ سینٹر کو نشانہ بنایا۔ مقامی ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انھوں نے جن زخمیوں کا علاج کیا ان میں عام شہری بھی شامل ہیں۔

سنہ 1990 کی دہائی سے حماس کا ہر رہنما اسرائیل کے ہاتھوں مارا گیا لیکن ہمیشہ ان کا ایک جانشین موجود ہوتا ہے۔

ایسے میں جب اسرائیل سنوار کے قتل کا جشن منا رہا ہے تو حماس کے پاس اب بھی یرغمالی موجود ہیں اور وہ اب بھی لڑ رہا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.