ایران، شمالی کوریا اور چین یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کے اسلحہ خانے کو گولہ بارود اور کاماکازی ڈرونز جیسے ہتھیاروں سے لیس کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔
یوکرین کے خلاف جنگ میں روس نہ صرف سالانہ لاکھوں گولے اگلے محاذوں پر بھیج رہا ہے بلکہ عام شہری اہداف کو بھی فضائی حملوں میں تواتر سے نشانہ بنا رہا ہے۔
عام طور پر کہا یہی جاتا ہے کہ یہ گولا بارود روس کو اس کے غیرملکی اتحادی سپلائی کر رہے ہیں۔
ایک طرف مغربی ممالک روس پر پابندیاں عائد کر کے اس کے اسلحہ بنانے کی صلاحیتوں کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب چین، ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک اسے مبینی طور پر اسلحہ سپلائی کر رہے ہیں۔
ایرانی ڈرون اور میزائل
ایران پر حال ہی میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے روس کو مزید 200 مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائل فراہم کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ فتح 360 نامی میزائل 75 میل تک مار کرسکتا ہے اور اس میں 150 کلو دھماکہ خیز مواد لے جانے کی گنجائش ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ روسی افواج کے درجنوں اہلکاروں کو ان میزائلوں کو فائر کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق یہ میزائل اس موسمِ خزاں میں یوکرین کے خلاف تعینات کر دیے جائیں گے۔
فتح 360 کی بدولت روس اپنی سرحدوں سے قریب یوکرینی شہروں اور پاور پلانٹس کو اپنے حملے کا نشانہ بنا سکے گا، جس کے بعد وہ اس کے دور تک مار کرنے والے میزائل صرف اور صرف وسطی یوکرین میں استعمال ہوں گے۔
کنگز کالج سے وابستہ ڈاکٹر مرینا مرون کہتی ہیں کہ ’فتح 360 میزائل قریبی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے اچھا ہتھیار ہے۔ روس کے پاس اس قسم کا اپنا کوئی میزائل نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ روس شاید ایران کو ان میزائلوں کے بدلے اپنی عسکری ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے روس کو میزائل فراہم کرنے پر ایران پر تازہ پابندیاں عائد کی ہیں۔
ان پابندیوں کے تحت ایران کی ہوائی پروازیں برطانیہ اور یورپ میں داخل نہیں ہوپائیں گی۔ اس کے علاوہ روس اور ایران کے درمیان معاہدے میں جو شخصیات ملوث ہیں ان کے اثاثے منجمند کر دیے گئے ہیں۔
ایران متعدد مرتبہ روس کو فتح 360 فراہم کرنے کی اطلاعات کی تردید کر چکا ہے۔
یوکرینی حکومت اور مغربی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران 2022 سے روس کو شاہد 136 ڈرونز بھی فراہم کر رہا ہے۔
یہ ڈرون دھماکہ خیز مواد بھی لے جاسکتا ہے اور تب تک اپنے ہدف کے اوپر گردش کرتا رہتا ہے جب تک اسے پھٹنے کا سگنل نہیں ملتا۔
روسی فوج اکثر ان ڈرونز کو جتھوں کی شکل میں استعمال کرتی ہے تاکہ یوکرینی دفاعی نظام کو مصروف رکھ سکے اور روس یوکرین پر اپنے کروز اور بیلسٹک میزائل فائر کر سکے۔
ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ انھوں نے جنگ سے قبل ’چھوٹی تعداد‘ میں روس کو یہ ڈرون مہیا کیے تھے۔
تاہم امریکی اور یورپی یونین نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران تواتر سے روس کو یہ ڈرون فراہم کر رہا ہے اور یورپی یونین نے اس معاہدے میں شامل لوگوں اور کمپنیوں پر پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔
شمالی کوریا کا گولا بارود اور میزائل
امریکی انٹیلیجنس ایجنسی برائے دفاع نے مئی 2024 میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ شمالی کوریا نے روس کو 30 لاکھ توپ کے گولے فراہم کیے ہیں۔
توپیں وہ واحد ہتھیار ہیں جو اگلے محاذوں پر روس اور یوکرین دونوں کی افواج ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہی ہیں۔
یہ ہتھیار دشمن فوج کو آگے بڑھنے سے روکنے میں کارگر ثابت ہوتا ہے۔
برطانیہ میں واقع تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹٹیوٹ کا کہنا ہے کہ یوکرین کے مقابلے میں روسی فوج کے پاس یہ توپ کے گولے وافر مقدار میں موجود ہیں۔
برطانوی تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ اسسی سبب 2023 کی موسمِ سرما سے لے کر اب تک روس مشرقی یوکرین میں زمین کے بڑے حصوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
رواں برس جنوری میں یوکرین انٹیلیجنس افسران نے کہا تھا کہ انھیں شمالی کوریا کے تیار کردہ مختصر فاصلے تک مار کرنے والے دو میزائلوں کا ملبہ ملا ہے جنھیں خارکیف شہر پر فائر کیا گیا تھا۔
یوکرینی حکام کا کہنا تھا کہ ان میں سے ایک میزائل کے این 23 تھا۔
یہ مختصر فاصلے پر مار کرنے والا ایک بیلسٹک میزائل ہے کہ جو کہ 400 سے 690 کلومیٹر تک کے فاصلے پر اپنے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور اس میں 500 کلوگرام دھماکہ خیز مواد لے جانے کی صلاحیت ہے۔
خیال رہے اقوام متحدہ نے سنہ 2006سے شمالی کوریا پر تجارتی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
یوکرینی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے روس کو 50 میزائل مہیا کیے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ نے فروری 2024 میں دعویٰ کیا تھا کہ یوکرین پر کیے گئے نو حملوں میں شمالی کوریا کے تیار کردہ میزائل استعمال ہوئے ہیں۔
امریکی انٹیلیجنس ایجنسی برائے دفاع کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا نے اسلحہ کی فروخت کے حوالے سے روس کے ساتھ 2022 کے موسمِ بہار میں مذاکرات شروع کیے تھے اور 2023 کے موسمِ بہار میں پہلی مرتبہ شمالی کوریا کے تیار کردہ میزائل روس بھیجے گئے تھے۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ روس نے جنوری 2024 میں ان میزائلوں کا استعمال یوکرین کے خلاف کرنا شروع کیا۔
ڈاکٹر مرینا مرون کہتی ہیں کہ شمالی کوریا کے کے این 23 میزائل مختصر فاصلے تک مارنے کرنے والے اسکندر جیسے روسی میزائلوں سے زیادہ سستے ہیں۔
کے این 23 جیسے میزائلوں کا تعاقب کرنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ سپرسونک رفتار کے ساتھ اپنے ہدف کی طرف بڑھتے ہیں۔ تاہم یوکرینی انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کے تیار کردہ متعدد میزائل الیکٹرانک خرابیوں کے باعث اپنے ہدف تک پہنچنے میں ناکام ہوئے ہیں۔
شمالی کوریا نے روس کو اسلحہ فراہم کرنے کی تردید کی ہے اور روس نے کسی بھی قسم کے شمالی کورین ہتھیار موصول کرنے کی بھی تردید کی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یوکرینی انٹیلی جنس افسران نے ملک میں روسی فوجی اہلکاروں کےساتھ شمالی کورین فوجیوں کو بھی دیکھا ہے۔
یوکرینی اخبارات کے مطابق 3 اکتوبر 2024 کو روسی فوج کی تربیت گاہ پر ہونے والے ایک حملے میں چھ شمالی کورین افسران ہلاک اور تین زخمی ہوئے تھے۔
اس سے قبل 2023 میں بھی اسی اطلاعات سامنے آئی تھیں لیکن اس وقت روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ان خبروں کو ’مکمل بکواس‘ بکواس قرار دیا تھا۔
چین اور عسکری پُرزے
نیٹو ممالک کے رہنماؤں نے چین پر الزام لگایا ہے کہ وہ ’بڑے پیمانے پر (روس کے) ڈیفنس انڈسٹریل بیس کو سپورٹ‘ فراہم کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین روس کو ’دُہرے استعمال‘ والی کمپیوٹر چپس فراہم کر رہا ہے جن کا استعمال شہری اشیا بنانے کے ساتھ ساتھ ہتھیار بنانے میں بھی ہوتا ہے۔
امریکی تھنک ٹینک سی ای آئی پی کا کہنا ہے کہ ہر مہینے چین 30 کروڑ ڈالر مالیت کی مصنوعات روس بھیج رہا ہے جس کا استعمال ڈرونز، میزائلوں اور ٹینک بنانے کے لیے ہوتا ہے۔
تھنک ٹینک کا دعویٰ ہے کہ روس کو ملنے والے مشینی اوزار میں سے 70 فیصد چین فراہم کر رہا ہے اور اس کی جانب سے 90 فیصد چپس اور سیمی کنڈکٹرز بھی روس کو مہیا کیے جا رہے ہیں۔
امریکی تھنک ٹینک کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین جنگ سے قبل روس یہ ساز و سامان جرمنی اور ہالینڈ حاصل کر رہا تھا۔
چین نے ہتھیاروں کی تیاری میں روس کی مدد کرنے کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یوکرین جنگ میں ایک غیرجانبدار فریق ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس نے گرپیا تھری نامی ڈرون بنانے کے لیے چین میں ایک فیکٹری لگائی ہے۔
تاہم چینی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے کسی منصوبے یا فیکٹری سے آگاہ نہیں ہیں اور ڈرونز کی برآمد پر ان کا مکمل کنٹرول ہے۔