قصہ ایک پیسہ انعام اور نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کی جھنگ سے محبت کا

فزکس میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے ڈاکٹر عبدالسلام دنیا بھر میں جہاں بھی گئے اپنا روایتی لباس، جھنگی زبان اور جھنگ سے محبت ترک نہیں کی۔ ہم نے جھنگ میں ان کے سکول اور کالج اور آبائی گھر کا رخ کیا تاکہ یہ جانیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کے اس شہر میں روز و شب کیسے تھے۔

کیمروں کی چمکتی روشنیوں میں، مضبوط جسم لیے، منھ پر داڑھی سجائے، سر پر طُرے والی پگڑی، سفید شلوار قمیض اور سیاہ شیروانی اور پاؤں میں سنہری کُھسا پہنے، سویڈن کے شہر سٹاک ہوم کی اُس تقریب میں وہ سب سے منفرد لگ رہے تھے۔

ایسی تقریب میں جہاں مرد عموماً رسمی سوٹ اور سفید ٹائی پہنتے تھے، زرخیز مرکزی پنجاب کے چناب دریا کے مشرق میں صدیوں سے بسے شہر جھنگ کا یہ روایتی لباس زیبِ تن کیے یہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر محمد عبدالسلام تھے۔

انھوں نے امریکی سائنس دانوں شیلڈن گلاشَو اور سٹیون وائن برگ کے ساتھ 1979 میں فزکس کا نوبیل انعام پایا تھا۔

گورڈن فریزر اپنی کتاب ’کاسمک اینگر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’عام طور پر وہ جہاں بھی ہوتے، جو بھی موسم ہوتا، تھری پیس سوٹ پہنتے، لیکن سٹاک ہوم میں پگڑی اور روایتی پہناوا پہننا ان کی زندگی کی کامیابی کی بڑی جَست (چھلانگ) کا اظہار تھا۔‘

فطرت کی چار بنیادی قوتوں ثقلی قوت، مضبوط اور کمزور نیوکلیئر قوتیں اور برقی مقناطیسی قوت میں سے دو بنیادی قوتوں، کمزور نیوکلیئر قوتوں اور برقی مقناطیسی قوتوں، کے اتحاد کا نظریہ ان کو نوبیل انعام ملنے کی وجہ بنا تھا۔ لیکن فریزرکے مطابق ’ستم ظریفی ہے کہ جب عبدالسلام کو جھنگ کے سکول میں برقی مقناطیسی قوتوں کے بارے میں پڑھایا گیا تھا تب تک شہر میں تب تک بجلی نہیں آئی تھی۔‘

بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر: سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں

’پڑھا تو دن میں جاتا تھا اور رات میں لال ٹین یا دیے کی روشنی میں۔ استاد نے بتایا تھا بجلی دیکھنی ہو تو ٹرین سے سفر کر کے کئی سو میل دور لاہور جا کر دیکھ لیں۔ کون جاتا! اور تب تک کمزور نیوکلیئر قوتوں کا تو لاہور میں بھی کسی کو علم نہیں تھا۔‘

جھنگ شہر میں یہ سکول سرکاری تو تھا لیکن میونسپل بورڈ یا بلدیہ کے تحت ہونے کی وجہ سے مختصراً ایم بی مڈل سکول کہلاتا تھا۔

سکول کی پرانی عمارت کبھی ہاتھیوں کا مسکن تھی۔ فیل خانے کو بدل کر بنائے گئے اس سکول کا ایک کلاس روم عبدالسلام کا ہے جہاں ان کی تصویر بھی آویزاں ہے۔

اسی سکول کے ہیڈ ماسٹر کے دفتر میں موجود داخل خارج سرٹِفِکیٹ کے مطابق جھنگ شہر میں رہنے والے، بھٹی ذات کے، محمد حسین کے 29 جنوری 1926 کو پیدا ہونے والے بیٹے عبدالسلام تین اپریل 1934 کو یہاں پانچویں جماعت میں داخل ہوئے اور 31 مارچ 1938 کو آٹھویں جماعت پاس کرنے پر یہ سکول چھوڑا۔

انگریزی میگزین ہیرلڈ کے اگست 1984 کے شمارے میں شائع اپنے انٹرویو میں عبدالسلام نے بتایا: ’مجھے آٹھویں جماعت کے ایک استاد مولوی عبدالطیف یاد ہیں۔ جب میں نے بہت تھوڑے وقت میں ایک سوال حل کیا تو انھوں نے مجھے ایک پیسہ انعام میں دیا اور نمناک آنکھوں کے ساتھ فرمایا کہ ’اگر میرے بس میں ہوتا تو میں تمھیں اور بھی دیتا۔‘

گورنمنٹ کالج جھنگ کے شعبۂ طبیعات کے اسسٹنٹ پروفیسر عبدالمالک بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسلام کو ریاضی سے خاص شغف تھا اور اس مضمون میں ریکارڈ نمبر حاصل کرتے رہے۔

’جب نوبیل انعام جیتنے کے بعد جھنگ آئے تو ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس انعام کو کیسا سمجھتے ہیں تو سلام نے کہا کہ وہ ایک پیسہ ان کے لیے نوبیل انعام سے زیادہ قیمتی ہے۔‘

سلام اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ’اسی طرح انگریزی کے استاد شیخ اعجاز احمد نے مجھ پر سختی کر کے، غلط ہجوں کے ساتھ بڑے بڑے الفاظ لکھنے کی میری عادت چھڑوائی۔‘

عبدالسلام کی سوانح عمری میں، لاہور میں 1933 میں پنجاب یونیورسٹی سے ریاضی میں ایم اے کرنے والے، جگجیت سنگھ نے لکھا ہے کہ طلبا سے 1972 میں خطاب کرتے ہوئے عبد السلام نے بتایا کہ شیخ اعجاز صاحب نے فارسی کا ایک شعر سناتے ہوئے، ایسا کرنے سے گریز کا کہا:

ترسم نہ رسی بکعبہ اے اعرابی

کہ ایں رہ تو میروی بترکستان است

(اے دیہاتی مجھے ڈر ہے کہ تو کعبہ نہ پہنچ سکے گا، اس لیے کہ جس راہ پر تو چل رہا ہے یہ تو ترکستان جاتی ہے)

اس سکول کی دیواروں پر جا بجا اب عبدالسلام کی تصویریں ہیں اور سکول کے صدر دفتر میں داخلی دروازے کے عین سامنے کونے میں نوبیل انعام کی نقل شیشے کے ایک ڈبے میں بند طلبا کے لیے مثال ہے اور سکول کے لیے فخر کی ایک وجہ۔

سکول سے کچھ دور، اب یادگار قرار پائے تانگوں کے اڈے سے دائیں اور پھر بائیں مڑیں تو جھنگ ہی کا علاقہ آدھی وال وہ جگہ ہے جہاں عبدالسلام نے نویں جماعت میں داخلہ لیا۔

اب تو یہاں جھنگ سے سرگودھا جاتی سڑک کے نقطۂ آغاز پرقائم سرکاری درس گاہ جس میں ڈاکٹر عبدالسلام بلاک بھی ہے، پوسٹ گریجویٹ کا درجہ پا چکی ہے۔ تب یہ پنجاب یونیورسٹی سے الحاق شدہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے لیے تھی۔

جنوری 1986 میں اردو کے ماہانہ رسالے ’تہذیب الاخلاق‘ میں شائع ایک مضمون (جس کا ترجمہ زکریا ورک نے کیا تھا) میں سلام نے بیان کیا کہ ’میرا داخلہ 1938 میں جھنگ کالج میں 12 سال کی عمر میں ہوا تھا۔ میں نے وہاں چار سال گزارے۔ ان دنوں یہ انٹرمیڈیٹ کالج تھا، نویں، دسویں، گیارھویں اور بارھویں جماعتیں وہاں پڑھائی جاتی تھیں۔ کالج میں زیادہ تر طلبا ہندو تھے۔

’استاد کا پیار اور مناسب توجہ طالب علم کو بنا یا توڑ سکتی ہے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے کچھ غیر معمولی سکھانے اور پیار کرنے والے اساتذہملے۔‘

سلام کہتے ہیں کہ ان کے تعلیمی کریئر کی بنیاد اسی کالج میں رکھی گئی۔ یہیں سے وہ میٹرک میںصوبے بھر میں اول آئے تھے۔

جگجیت سنگھ نے سلام کے حوالے سے لکھا ہے کپ ’دن کے پچھلے پہر میں سائیکل پر مگھیانہ میں والد کے دفتر سے جھنگ شہر میں اپنے گھر کی جانب چل پڑا۔ وہاں میرے صوبے بھر میں اول آنے کی خبر مجھ سے پہلے پہنچ چکی تھی۔ مجھے بلند دروازہ میں اپنے گھر پہنچنے کے لیے جھنگ شہر کے پولیس گیٹ علاقے سے گزرنا تھا۔ مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ وہ ہندو دکاندار جو عام طور پر اس وقت گرمی کے باعث گھروں کو چلے جاتے تھے اپنی دکانوں کے باہر میرے استقبال کو کھڑے تھے۔‘

یہ خبر دیوراج کی ادارت میں جھنگ کے ہفت روزہ اخبار ’جھنگ سیال‘ میں 28 جون 1940 کو اس شہ سرخی کے ساتھ پہلے صفحے کے اوپری حصے میں چھپی: ’میٹریکولیشن میں پنجاب یونیورسٹی کا ریکارڈ توڑنے والا مسٹر عبد السلام‘۔

جگجیت سنگھ کے مطابق انٹرمیڈیٹ میں بھی پنجاب یونیورسٹی میں اول آنے کے بعد عبدالسلام نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لے لیا۔

’کالج میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ شطرنج کھیلنے لگے۔ کسی نے ان کے والد سے اس کی شکایت کر دی تو والد نے فوراً خط لکھ کر یہ عمل روکنے کو کہا۔‘

’انھیں اردو شاعری سے شغف تھا۔ خاص طور پر غزلیں پسند تھیں۔ عبدالسلام کو غالب کی شاعری سے اس قدر محبت تھی کہ اپنے طالب علمی کے دور میں اس پر ایک مضمون بھی لکھا جو اردو مجلہ ’ادبی دنیا‘ میں چھپا۔‘

’لیکن یہ سرگرمیاں عبدالسلام کے بی اے اور ایم اے کے امتحان میں اول آنے میں رکاوٹ نہیں بنیں، جس پر انھیں بیرون ملک پڑھنے کے لیے حکومت پنجاب کا وظیفہ ملا۔‘

عبدالسلام
BBC

پنجاب کے وزیر مالیات سر چھوٹو رام، جو خود بھی ایک غریب دیہاتی کے بیٹے تھے، نے عالمی جنگ کے لیے اکٹھی کی گئی رقم کو ذہین طلبا کے سکالرشپ کے لیے مختص کر دیا اور عبدالسلام نے اپنی قابلیت کی بنا پر اسے حاصل کیا۔

عبدالسلام نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’میں بہت خوش قسمت تھا کہ مجھے کیمبرج جانے کے لیے سکالرشپ مل گئی۔ جنگ کی وجہ سے مقابلے کے امتحانات روک دیے گئے تھے اور پنجاب کے وزیراعظم (تب یہ عہدہ یہی کہلاتا تھا) کی طرف سے جنگ کے دوران میں استعمال کرنے کے لیے چندہ جمع کیا گیا تھا۔ اس میں سے کچھ رقمغیر استعمال شدہ رہ گئی تھی جس سے بیرون ملک تعلیم کے لیے پانچ وظائف رکھے گئے۔

’یہ 1946 کی بات ہے اور میں ان کشتیوں میں سے ایک میں جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جو ہندوستان کی آزادی سے پہلے واپس جاتے برطانوی خاندانوں سے بھری ہوئی تھیں۔ اگر اس سال نہ جاتا تو میں کیمبرج نہ جا پاتا۔ اگلے سال ہندوستان کی تقسیم ہو گئی اور وظائف ختم ہو گئے۔‘

جگجیت سنگھ لکھتے ہیں کہ کیمبرج جانے کے لیے سلام نے ایک سٹیم جہاز پر بکنگ کروائی اور چند دن پہلے بمبئی چلے گئے کہ جب جگہ ملی سوار ہو جائیں گے۔ وہ وہاں کولابا میں ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے کہ رات کو دستک ہوئی۔ وہ اٹھ تو گئے لیکن دروازہ نہیں کھولا۔

’کون ہے؟‘ انھوں نے پوچھا۔

’ملٹری پولیس‘ جواب آیا۔

عبدالسلام
BBC
نوبیل انعام وصول کرنے کی تقریب میں ڈاکٹر عبدالسلام نے سر پر سفید پگڑی، شیروانی اور پاؤں میں کھسہ پہنا

’وہ بستر سے نکلے، دروازے پر ایک برطانوی سارجنٹ تھا وردی میں۔ معاملہ پوچھا تو بتایا گیا کہ دفتر پہنچ کر پتا چلے گا۔

’دفتر پہنچ کر علم ہوا کہ ان پر شک تھا کہ وہ برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے بحریہ کے اہلکاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ تو خوش قسمتی تھی کہ سفری دستاویزات دیکھ کر انھیں اگلے روز جہاز میں سوار ہونے دیا گیا۔ ورنہ پولیس روایتی عمل کا مظاہرہ کرتی تو ایسا نہ ہو پاتا۔‘

’برطانیہ کے شہر لیورپول اترے تو اکتوبر کی ٹھنڈ سے کانپنے لگے کیوں کہ اس سے نمٹنے کو لباس ناکافی تھا۔ تب ہندوستان کی وفاقی عدالت کے ایک جج اور پاکستان بننے کے بعد وزیر قانون بننے والے سر ظفراللہ خان نے ان کی مدد کی جو خوش قسمتی سے اسی جہاز سے برطانیہ گئے تھے۔ انھوں نے نہ صرف اپنا ایک بھاری بھر کم اوورکوٹ سلام کو دیا بلکہ کسی پورٹر کی عدم موجودگی میں ان کا سامان اٹھانے میں بھی مدد کی۔‘

ڈاکٹر عبدالسلام کی بعد کی کامیابیوں اور تلخیوں سے گریز کرتے ہوئے چلیں تو نوبیل انعام ملنے کے بعد ان کے جھنگ آنے کا منظر سامنے آتا ہے۔

اپنی یادداشتوں میں ڈاکٹر عبدالسلام کے بھائی چودھری عبدالحمید لکھتے ہیں کہ نوبیل انعام جیتنے کے بعد ڈاکٹر صاحب 24 دسمبر 1979 کو جھنگ گئے۔ اپنے سکول گئے، کالج گئے۔عمائدین سمیت پورے شہر نے ان کا استقبال کیا۔ اپنے سکول میں اپنے والد محمد حسین کے نام پر سائنس بلاک کی تعمیر کا ذمہ لیا۔

عبدالحمید اپنی ایک کتاب میں بتاتے ہیں کہ تقسیم کے بعد جھنگ شہر اور مگھیانہ کے ہندوؤں کو نئی دہلی اور اس کے مضافات میں آباد کیا گیا تھا۔

’نوبیل انعام حاصل کرنے کے بعد بھائی جان دہلی گئے تو وہاں ابا جان کے دوستوں کے علاوہ بھائی جان کے دوستوں اور کلاس فیلوز نے ان کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ اس دعوت میں مردوں اور بچوں کی بھاری تعداد نے حصہ لیا تھا۔‘

’اتفاق سے سید ذوالفقارعلی بخاری، سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ، جن کا تعلق شاہ جیونا، (جھنگ) سے ہے اس روز وہیں تھے۔ بخاری صاحب نے بتایا کہ ’وہ ڈاکٹر صاحب کو دیکھ کر بہت خوش تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔خواتین اپنے چھوٹے بچوں کو ڈاکٹر صاحب کے پاس لے جاتیں اور ان کے سروں پر ہاتھ پھیراتی تھیں۔‘

بقول بخاری صاحب کے وہ بڑا ہی عجیب منظر تھا۔ وہ لوگ اتنے خوش تھے کہ ایک جھنگ سے تعلق رکھنے والے نے سائنس کی دنیا کا سب سے بڑا انعام لیا ہے۔ ان لوگوں کے سر فخر سے بلند تھے۔‘

صحافی کرشن کمار کٹیال، یعنی کے کے کٹیال، کا خاندان تقسیم کے وقت جھنگ کے بھبھرانا محلے سے دلی گیا تھا۔ سنہ 2016 میں ان کی موت پر انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں، میں نے لکھا تھا کہ کٹیال کے مطابق ان کے دل میں جھنگ کے ڈاکٹر عبدالسلام کے لیے بہت عزت تھی۔‘

اپنی موت سے پہلے ایک ملاقات میں کٹیالنے مجھے بتایا تھا کہ نوبیل انعام ملنے کے فوراً بعد عبدالسلام انڈیا میں اپنے پروفیسر ہنس راج بھاٹلا سے ملنے گئے جنھوں نے انھیں 1940 کی دہائی کے اوائل میں فزکس کا پہلا سبق دیا تھا۔

’گورنمنٹ انٹرمیڈیٹ کالج، جھنگ میں سلاممیرے ہم عصر تھے۔ تین دہائیوں سے زیادہ بعد ان سے ملاقات ایک زبردست جذباتی تجربہ تھا۔

’میں نے ان کے لیے ایک عشائیہ کا اہتمام کیا، مہمان زیادہ تر جھنگ سے تھے، جو اب انڈیا میں آباد ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر عبدالسلام کی انڈیا اور پاکستان کے درمیان امن اور ہم آہنگی کی وکالت سے متاثر نہیں ہوا اور پھٹ پڑا: ’آئیں ہم جنگ کر کے یہ مسئلہ ہی ختم کر دیں۔‘ اس پر سلام نے تبصرہ کیا: ’ہمارا دوست ٹھیکے دار لگتا ہے۔‘

ڈاکٹر محمد عبدالصبور ڈاکٹر سلام کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عبد القادر بھٹی کے بیٹے ہیں۔ ڈاکٹر عبد القادر خود بھی وفات پا چکے اور ایک جڑواں بھائی عبدالرشید کی وفات برطانیہ میں گیارہ نومبر کو ہوئی۔ ڈاکٹر صبور پچھلی تین دہائیوں سے زائد عرصے سے سماج سدھار، انسانی حقوق اور ماحولیاتپر کام کرتے ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔

ڈاکٹر صبور کا کہنا تھا کہ جب وہ ایک خاص مقام پر پہنچ گئے تو پچاس اور ساٹھ کی دہائی کے اپنے پرانے اساتذہ کو ڈھونڈا، ان سے رابطے میں رہے اور ان سے سلام کرنے ضرور جاتے تھے، کوئی سہولت بہم پہنچانے کی ضرورت ہوتی تو ضرور پہنچاتے۔

وہ بتاتے ہیں: ’جب نوبیل انعام لے کر ڈاکٹر سلام آئے تو سب بڑوں سے ملنے کے بعد ہم بچوں کو اکٹھا کیا، ہم پندرہ یا بیس تھے۔ بٹھایا اور پھر ہمیں بتایا کہ کس طرح انھوں نے نوبیل انعام جیتا۔ ہم سب کو انھوں نے انعام دیکھنے کو دیا اور اس کا پس منظر بتایا۔ اور ہم سے کہا کہ ہم بھی ایسے انعام کے لیے کوشش کریں۔

'ڈاکٹر صاحب کے سکھانے کا الگ انداز تھا۔ کسی بچے نے میتھ، سٹیٹس اور اکنامکس اپنے مضامین بتائے تو انھوں نے کہا کہ علم کی ایک حرمت ہوتی ہے، مضامین کی ایک حرمت ہوتی ہے، یہ نام پورے ادا کرو۔ انگریزی میں بات کرتے یا زیادہ تر جھنگی میں۔ جو بھی بے تکلف بات کرنا ہوتی، جھنگی میں کرتے۔

’انعام کے بعد کی ایک دہائی قریباً پچاس طلبا کو وظیفہ دیا جاتا رہا۔ درجنوں لوگ تھے جن کی مالی مدد کرتے رہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے دادا کے سات بیٹے تھے اور دو بیٹیاں، ڈاکٹر عبدالسلام ان میں سب سے بڑے تھے۔ ہمارے دادا کے دو مکان تھے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر عبدالسلام نے نوبیل انعام جیتنے کے بعد میوزیم بنانے کے لیے حکومت کو دے دیا تھا۔

’دوسرا مکان ایک کنال رقبے پر تھا اور دادا نے سنہ 1935 میں تعمیر کرایا تھا۔ اس مکان میں تین بڑے کمرے، برآمدہ، بیٹھک، گیراج اور ایک بڑا صحن تھا۔ ایک کمرہ ڈاکٹرسلام صاحب کے لیےمختص تھا جس میں وہ پڑھائی کرتے اور سوتے تھے۔ بجلی نہیں تھی، لال ٹین کی روشنی میں پڑھتے۔

'جب کبھی پاکستان آتے تو ان کی خواہش ہوتی کہ جھنگ ضرورجائیں، عزیزوں ، رشتے داروں سے، ابا جان کے دوستوں سے ملیں۔‘ دنیا میں کہیں بھی جاتے، وہ جھنگ کو نہیں بھولتے تھے۔ اس کے احوال، اس کے مسائل ان کے ذہن میں رہتے تھے۔ جب بھی انھیں اعلیٰ حکام سے بات کا موقع ملتا، جھنگ کی ترقی ہی کی بات کرتے۔

’آبائی گھر جاتے ہوئے ان کی کوشش ہوتی کہ شہر سے آدھ میل دور اس گھر کو پیدل جائیں۔

’رستے میں وہ لوگوں سے ملتے ہوئے، حال احوال پوچھتے ہوئے جاتے۔ لوگ بھی ان سے عقیدت سے ملتے۔ ہر کوئی ان سے مصافحہ کرتا، سلام لیتا، گلے ملتا۔ ڈاکٹر صاحب ان سے جھنگی لہجے میں پوچھتے، خیر اے (ہے) ول او (خیریت سے ہیں) خیرصلا۔

’راستے میں ایک گندی نالی بھی گزرتی تھی۔ ہمارے تایا چودھری عبدالحمید اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ وہ دوستوں کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے کہتے کہ مجھے اس شہر کی گلیوں کی بو سے بھی پیار ہے۔ وہ جھنگ میں بسنے والے غریب عزیزوں اور دوستوں کو کبھی نہیں بھولے۔ ان کی مدد کرتے۔‘

ڈاکٹر عبدالسلام کے ایک کزن کے بیٹے محمد مظہر اقبال جھنگ میں رہتے ہیں۔ درزی ہیں۔ ان ہی نے جھنگ شہر کی گلیوں سے گزرتے دو کمروں پر مشتمل ڈاکٹر سلام کا پہلا گھر مجھدکھایا جو اب قومی یادگار ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ڈاکٹر سلام ہماری بڑی مدد کرتے تھے۔ان کے دوسرے گھر میں ہم بغیر کرائے کے رہتے تھے۔ پھر ہم نے دو سال پہلے یہ گھر خریدا ہے۔‘

مظہر اقبال کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر عبدالسلام اکثر فجر سے پہلے یا بعد میں آتے۔ جب انھیں فالج ہوا اور انڈیا دوا لینے جاتے تو جھنگ ضرور آتے۔ بیٹھتے، ناشتا کرتے، گپ شپ لگاتے۔ میرے والد کی وفات کا علم ہوا تو بھی آئے۔ مجھے دو دفعہ پیار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایک پیار آپ کے والد کی طرف سے ہے اور دوسرا میری طرف سے۔ انھوں نے کہا کہ وہ گھر کے اندر جانا چاہتے ہیں مگر پاؤں نہیں اٹھا سکتے۔ پھر ہم انھیں اٹھا کر گھر کے اندر لے کر گئے۔‘

اڑسٹھ سالہ محمد نذیر بھی یہیں پلے بڑھے۔ ڈاکٹر سلام کے قومی یادگار قرار دیے گئے گھر کے سامنے والے مکان میں رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا جب وہ نوبیل انعام لے کر یہاں آئے تو ہم ان کے اسی گھر میں بیٹھے رہے۔ محلے کے سارے لوگ یہاں تھے۔

’میرے والد بتاتے ہیں کہ بچے کھیل رہے ہوتے مگر ڈاکٹر سلام کی توجہ پڑھائی کی جانب ہوتی۔ انھوں نے یہاں انھیں دیے کی روشنی میں پڑھتے دیکھا۔ یہاں قریب کھیت تھے۔ دن میں وہ وہاں چلے جاتے اور کسی جگہ بیٹھ کر پڑھنے لگتے۔‘

’جب بھی ڈاکٹر سلام جھنگ آتے سب محلے داروں سے ملتے۔ کسی کی کوئی مشکل ہوتی تو اسے دور کرنے کی کوشش کرتے۔‘

ڈاکٹر صبور ملتان میں رہتے ہیں۔ یہیں ڈاکٹر سلام کے ایک بھائی اور بہن اور بہنوئی رہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کبھی مصروفیت کی وجہ سے ڈاکٹر سلامجھنگ نہ جا پاتے اور کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ صبح کی پرواز سے ملتان آتے اور شام کو واپس چلے جاتے، تو سلام دعا کے بعد پہلی بات یہ ہوتی کہ ’جھنگ دا حال دیو‘ یعنی جھنگ کا احوال بتائیں۔ کسی عالمی کانفرنس میں یا کہیں اور کوئی پاکستانی ملتا تو سب سےپہلی بات یہی پوچھتے کہ ’جھنگ دی دسو، جھنگ دا کیہ حال اے؟‘ یعنی جھنگ کا بتائیں، کیا حال احوال ہے؟‘

’انھیں جھنگ سے بے حد محبت تھی۔ یوں کہہ لیں کہ وہ جھنگ سے نہیں تھے بلکہ جھنگ ان میں تھا۔‘

اکیس نومبر 1996کو ڈاکٹر عبد السلام کالندن میں انتقال ہوا۔ربوہ ( چناب نگر) میں دفنہوئے۔تب یہ جھنگ کا حصہ تھا، اب ضلع چنیوٹ میں ہے۔گویا انھوں نے جھنگ ہی کی خاک اوڑھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.