’کاش میں وہ غلطی نہ کرتا‘: پاکستان میں پولیو کے بڑھتے کیسز کا افغانستان سے کیا تعلق ہے؟

اس وقت دنیا کے صرف دو ہی ممالک، پاکستان اور افغانستان، میں پولیو کے کیسز موجود ہیں۔ رواں سال پاکستان میں 39 پولیو کیسز سامنے آ چکے ہیں جبکہ صوبہ بلوچستان 20 کیسز کے ساتھ سرِفہرست ہے۔ پاکستان میں پولیو کے کیس اچانک کیوں بڑھے ہیں اور خاص کر بلوچستان میں زیادہ پولیو کیسز کی کیا کوئی خاص وجہ ہے؟
پاکستان
Getty Images

’کاش میں وہ غلطی نہ کرتا۔۔۔‘

کوئٹہ کے جلال الدین کے چہرے پر یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے تاسف نمایاں تھا۔ وہ اپنے 23 ماہ کے بیٹے جواد احمد کے بارے میں بات کر رہے تھے جو پولیو وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔

جلال الدین بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ شہر کے صالح آباد نامی علاقے کے رہائشی ہیں۔ جلال الدین کے چھ بچے ہیں جن میں سے پانچ کو تو انھوں نے بروقت پولیو کے قطرے پلوائے لیکن جواد احمد کو پیدائش کے بعد آٹھ ماہ تک انسداد پولیو ٹیموں سے چھپائے رکھا۔ اور یہی وہ غلطی تھی جس پر آج انھیں انتہائی پچھتاوا ہے۔

جلال الدین سے جب بی بی سینے سوال کیا کہ انھوں نے جواد کو پولیو ٹیم سے چھپا کر کیوں رکھا؟ تو انھوں نے عجیب منتق پیش کی ’وہ ہمیں سب سے زیادہ پیارا تھا، اس لیے ہم نے اُسے پولیو کے قطرے نہ پلانے کا فیصلہ کیا اور 8 ماہ تک پولیو کی ٹیموں سے چھپایا۔‘

جب جواد کی عمر آٹھ ماہ ہوئی تو انھیں پہلی مرتبہ پولیو کے قطرے پلوائے گئے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ چند ہفتوں کے بعد جب جواد بیمار ہوئے تو ڈاکٹر نے معائنے کے بعد اس شبے کا اظہار کیا کہ ان کو پولیو وائرس تھا۔

اِس وقت دنیا کے صرف دو ہی ممالک، پاکستان اور افغانستان، میں پولیو کے کیسز موجود ہیں۔ سنہ 2023 میں ان دونوں ممالک سے مجموعی طور چھ کیسز سامنے آئے تھے تاہم رواں سال پاکستان میں 39 جبکہ افغانستان میں 22 کیس سامنے آ چکے ہیں۔

پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام کے مطابق رواں سال پاکستان سے سامنے آنے والی کیسز میں سب سے زیادہ یعنی 20 کیسز صوبہ بلوچستان میں سامنے آئے ہیں۔ بلوچستان میں پولیو وائرس سے متاثرہ بچوں میں سے تین کی موت بھی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ 12 کیس سندھ، پانچ خیبرپختونخوا جبکہ پنجاب اور اسلام آباد سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔

بلوچستان سمیت پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے میں ایک بڑی رکاوٹ والدین کی جانب سے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلوانا ہے۔ دوسری جانب ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے ٹیکنیکل فوکل پرسن ڈاکٹر نجیب اللہ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سرحد پار افغانستان میں غیر موثر پولیو مہم اور دونوں ممالک سے لوگوں کی آمد و رفت بھی ایک وجہ ہے، جو پاکستان میں پولیو کے مکمل خاتمے کے راستے میں رکاوٹ ہے۔

پولیو وائرس کیا ہے اور کیسے پھیلتا ہے؟ پاکستان میں پولیو کے کیس اچانک کیوں بڑھے اور افغانستان سے اس معاملے کا کیا تعلق ہے؟ اور خاص کر بلوچستان میں زیادہ پولیو کیسز کی کوئی خاص وجہ ہے؟ بی بی سی نے پولیو آگاہی کے عالمی دن کے موقع پر ان تمام سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اہم سوال یہ بھی سامنے آیا کہ بلوچستان میں بچیوں کے مقابلے میں بچوں میں پولیو کے کیس زیادہ کیوں سامنے آتے ہیں؟

’بیٹا صبح اٹھا تو ایک ٹانگ کام نہیں کر رہی تھی‘

پولیو
BBC

کوئٹہ کے ڈھائی سالہ جواد پولیو کی بیماری سے حال ہی میں متاثر ہوئے ہیں۔ گذشتہ سال نومبر میں اچانک انھیں بخار اور چھاتی میں تکلیف کی شکایت ہوئی۔

جواد کے والد جلیل احمد بتاتے ہیں کہ ’ایک دن میرا بیٹا صبح اٹھا تو ہم نے دیکھا کہ اس کی ایک ٹانگ ٹھیک سے کام نہیں کر رہی تھی، وہ کھڑا نہیں ہو پا رہا تھا۔‘

جلیل اپنے بیٹے کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے جس نے انھیں بتایا کہ جواد پولیو کا شکار ہو چکا ہے۔ جلیل کہتے ہیں کہ ’میں اسے دوسرے ڈاکٹروں کے پاس بھی لے کر گیا لیکن انھوں نے کہا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔‘ واضح رہے کہ ویکسین کی مدد سے پولیو سے بچاو تو ممکن ہے لیکن اس بیماری کے لاحق ہو جانے کے بعد اس کا کوئی علاج اب تک موجود نہیں۔

جلیل اب وہ اکثر اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر پریشان رہتے ہیں۔ ’اس کی ٹانگ خراب ہو چکی ہے اور وہ ٹھیک سے چل نہیں سکتا۔‘

’والدین بچوں کو چھپاتے ہیں‘

پولیو کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے کارکنوں نے بی بی سی کو بتایا کہ مختلف علاقوں میں والدین بچوں کو پولیو کی ٹیموں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

کوئٹہ میں صالح آباد یونین کونسل کے کمیونیکیشن بلاک آفیسر جلیل احمد نے بتایا کہ بعض والدین میں یہ رحجان پایا جاتا ہے کہ وہ پیدائش کے بعد 40 یوم تک بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانے کے ساتھ ساتھ انھیں دیگر حفاظتی ٹیکے لگوانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔

انسداد پولیو مہم سے منسلک ایک عالمی ادارے کے سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ جب پولیو کی ٹیمیں گھر گھر جاتی ہیں تو بعض والدین کسی بھی وجہ سے صاف انکار تو نہیں کرتے لیکن وہ پولیو کی ٹیموں کے کارکنوں کو بتاتے ہیں کہ وہ بچے کے ہاتھ پر نشان لگائیں لیکن اسے قطرے نہ پلائیں۔

بلوچستان میں حکام کے مطابق ایسے پانچ سو سے زائد کیسوں کا پتہ لگایا گیا ہے جن میں والدین کے کہنے پر پولیو ورکرز نے قطرے پلائے بغیر بچوں کے ہاتھ پر نشان لگائے۔

ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے کوآرڈینیٹر انعام الحق کا کہنا ہے کہ جو بھی ورکرز جعلی نشان لگانے میں ملوث پائے گئے ان سب کو فارغ کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

دوسری جانب انسداد پولیو مہم میں شامل ایک خاتون کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’بچیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو چھپانے کا رحجان زیادہ ہے۔‘ ان کا یہ دعویٰ حقائق سے ثابت ہوتا ہے کیوں کہ بلوچستان میں اب تک رپورٹ ہونے والے 20 کیسوں میں چار کم عمر بچیوں کے علاوہ باقی سب کیس کم عمر لڑکوں کے ہیں۔

اس کی وجہ کیا ہے؟

ایک بین الاقوامی ادارے سے منسلک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کی وجہ سیوریج کا ناقص نظام اور معاشرتی رویے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیو وائرس ماحول میں ہوتا ہے اور سیوریج کے ناقص نظام کی وجہ سے گندا پانی گلی کوچوں میں بہتا ہے جہاں بچے کھیلتے ہیں اور پولیو سے متاثر ہوتے ہیں۔ کیوںکہ پاکستان جیسے معاشرے میں بچیوں سے زیادہ لڑکے عام طور پر گلیوں میں باآسانی کھیلتے نظر آتے ہیں، اسی لیے متاثر ہونے والوں میں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے۔‘

پولیو
Getty Images

غذائیت اور دیگر حفاظتی ٹیکوں کی کمی

پاکستان میں غذائیت کی کمی، جس کی شرح بلوچستان میں باقی صوبوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے، بھی ایک اور وجہ ہے جس کے باعث حکام کے مطابق پاکستان میں پولیو مہم موثر ثابت نہیں ہو رہی۔

بین الاقوامی ادارے کے سینیئر اہلکار نے بتایا کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں پستہ قد اور لاغر بچوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’پولیو ویکسین کی فراہمی ہونے کے باوجود صوبے میں دوسرے حفاظتی ٹیکوں کی کمی ہے اور 67 فیصد بچوں کو دوسری بیماریوں سے بچانے والے حفاظتی ٹیکے نہیں لگتے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر بچوں کی قوت مدافعت کم ہو گی اور ساتھ وہ غذائیت کی کمی کا شکار ہوں گے اور انھیں دیگر حفاظتی ٹیکے نہیں لگے تو ایسے میں وہ آسانی کے ساتھ پولیو کے ساتھ ساتھ دیگر بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘

جب بی بی سی نے محکمہ صحت کے ایک سینیئر اہلکار سے پولیو کے کیسوں میں اضافے کے حوالے سے بات کی تو انھوں نے آن ریکارڈ بات کرنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے ایمرجنسی آپریشن سینٹر بنایا گیا ہے ۔

تاہم انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بلوچستان میں بچوں میں غذائی قلت حقیقت میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔

پاکستان میں پولیو کیسز کا افغانستان سے کیا تعلق ہے؟

واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سات اضلاع کی سرحد افغانستان کے ساتھ متصل ہے جن میں ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، قلعہ عبداللہ، چمن، نوشکی اور چاغی شامل ہیں۔ ان اضلاع میں سے چمن، قلعہ عبداللہ، پشین اور نوشکی کی سرحدیں افغانستان کے شہر قندھار سے لگتی ہیں۔

ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے کوآرڈینیٹر انعام الحق نے بی بی سی کو بتایا کہ بلوچستان میں 28 ماہ بعد پہلی مرتبہ وائرس قندھار سے چمن آیا۔ واضح رہے کہ چمن سے قندھار اور بلوچستان کے درمیان لوگوں کی سب سے زیادہ آمدورفت ہوتی ہے۔

پولیو
Getty Images

بلوچستان میں اب تک پولیو کے 20 کیسز میں سے 13 کیسز چمن، قلعہ عبداللہ، پشین اور کوئٹہ سے رپورٹ ہوئے جن کو ’کوئٹہ بلاک‘ کا نام دے کر ہائی رسک علاقوں میں شامل کیا گیا ہے۔ ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان کے ٹیکنیکل فوکل پرسن ڈاکٹر نجیب اللہ نے بتایا کہ وائی بی اے نامی ایک ہی وائرس اس وقت افغانستان اور پاکستان میں گردش کر رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اب تک افغانستان سے رپورٹ ہونے والے 23 کیسز میں سے 18کے لگ بھگ قندھار سے سامنے آئے ہیں۔‘ ڈاکٹر نجیب اللہ نے کہا کہ اگر ایک جگہ وائرس ہو گا تو وہ دوسری جگہ ضرور جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اور افغانستان کے درمیان طویل سرحد ہے جہاں غیر روایتی راستوں سے بھی لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے۔ لوگوں کا دونوں طرف آنا جانا ہے اس لیے جو وائرس اس وقت یہاں ہے وہ پہلے افغانستان میں تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے افغانستان میں پولیو کے خلاف مہممئوثر نہیں کیونکہ وہاں گھر گھر جانے کی بجائے مسجدوں یا ایسے ہی مخصوص مقامات پر بچوں کو لا کر قطرے پلائے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چھ ماہ قبل قندھار کو چھوڑ کر افغانستان کے دوسرے علاقوں میں پاکستان کی طرح گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا لیکن دو ڈھائی مہینے پہلے اسے بند کرکے دوبارہ مخصوص مقامات تک محدود کیا گیا۔‘

افغانستان میں پانچ سال کے وقفے کے بعد جون 2024 میں گھر گھر پولیو ویکیسن کے قطرے بچوں کو پلانے کی مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ تاہم ستمبر میں ویکسین پروگرام کو طالبان حکام نے منسوخ کر دیا۔ بی بی سی کی جانب سے طالبان کی وزارت صحت سے سوال کیا گیا تاہم ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔

پولیو کیا ہے اور یہ بیماری کیسے پھیلتی ہے؟

پولیو کی بیماری ایک وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جو متاثرہ شخص کے پاخانے کی مدد سے پھیلتا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ مریض کے کھانسنے یا چھینکنے سے بھی پولیو وائرس کے قطرے پھیل سکتے ہیں تاہم اس طرح کا پھیلاو کم ہوتا ہے۔

یہ وائرس پانچ سال سے کم عمر بچوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 200 میں سے ایک متاثرہ بچہ ہمیشہ کے لیے جسمانی معذوری کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ متاثرہ بچوں میں سے پانچ سے دس فیصد کی موت بھی ہو سکتی ہے کیوں کہ ان کے سانس لینے والے پٹھے ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

عالمی انسداد پولیو پروگرام کی مدد سے پولیو وائرس کی تین میں سے دو اقسام کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا تاہم یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ جب تک ایک بھی بچہ پولیو وائرس کا شکار رہے گا، پوری دنیا میں بچوں کو خطرہ لاحق رہے گا۔

پولیو وائرس کے پھیلاؤ کی ایک وجہ اسے روکنے والی ویکسین بھی بن سکتی ہے کیوں کہ اس ویکسین میں اسی وائرس کی ایک کمزور قسم موجود ہوتی ہے جو باآسانی پیٹ میں زندہ رہ کر پاخانے کے ساتھ جسم سے نکل جاتی ہے اور پھر سیوریج یعنی گٹر کے پانی کے ساتھ ایسے بچوں کو متاثر کر سکتی ہے جن کو ویکسین نہیں لگی ہوئی۔

ویکسین مہم خطرات کا شکار

پاکستان
BBC
پولیو ورکر گلناز کو اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ پولیو ورکرز کو نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے

پاکستان اور افغانستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم خوف، شکوک اور غلط معلومات کی وجہ سے بھی خطرات کا شکار ہے۔

پاکستان میں انسداد پولیو مہم کے مطابق رواں سال پولیو مہم میں شامل 22 افراد ہلاک ہوئے۔ دوسری جانب افغانستان میں فروری 2004 میں آٹھ پولیو ورکرز کو ایک ہی دن چار مختلف حملوں میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ایسے میں گلناز شیزاری اور عامر علی جیسے کارکنوں کی وجہ سے ہی یہ مہم جاری ہے۔ گلناز پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 2011 سے پولیو مہم کا حصہ ہیں۔ ان کے خاندان کے چار افراد پولیو مہم میں کام کرتے تھے جن میں سے دو ہلاک ہو چکے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے اپنی بھابھی اور بھتیجی کو سٹریچر پر دیکھا ہے۔ ان کا بہت خون بہا۔ وہ موقع پر ہی مر گئے تھے۔‘

گلناز کو اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ پولیو ورکرز کو نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ تاہم خطرات کے باوجود وہ اس مہم کا حصہ ہیں۔

عامر علی خود چار سال کی عمر میں پولیو سے متاثر ہوئے تھے اور ان کی ایک ٹانگ مفلوج ہو گئی تھی۔ وہ سوات سے کراچی منتقل ہوئے جہاں اب وہ پولیو کارکن کے طور پر کام کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’میرے آٹھ آپریشن ہوئے لیکن علاج تھا ہی نہیں۔ مجھے ایسے ہی جینا پڑا۔‘ عامر کھیل نہیں سکتے تھے اور سفر کرنا بھی مشکل تھا۔

پھر ایک دن انھوں نے ایک پولیو ورکر کو دیکھا اور سوچ لیا کہ وہ اس مہم کا حصہ بنیں گے۔ ’میرا مقصد پولیو کا مکمل خاتمہ ہے۔ میں لوگوں کو بتاتا ہوں کہ اگر انھوں نے بچوں کو ویکسین نہ پلائی تو ان کو میری طرح جینا پڑے گا۔‘

پاکستان
BBC
عامر علی خود چار سال کی عمر میں پولیو سے متاثر ہوئے تھے

پولیو سے پاک دنیا؟

رواں سال پولیو کے نئے کیسز میں اضافے کے باوجود عالمی ادارہ صحت کو امید ہے کہ 2025 یعنی آئندہ سال کے اختتام تک دنیا سے پولیو کی بیماری کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔

یاد رہے کہ 1988 میں جب 125 ممالک میں تقریبا ساڑے تین لاکھ افراد پولیس وائرس سے متاثر ہوئے تھے تو ایک عالمی سطح پر پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔

عالمی انسداد پولیو مہم کا کہنا ہے کہگذشتہ دس سال میں پولیو کے قطروں کی دس ارب خوراکیں تقریبا تین ارب بچوں کو دی جا چکی ہیں۔

پولیو کے کیسوں میں خطرناک اضافے کے باوجود عالمی ادارہ صحت زیادہ پریشان نہیں ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی پولیو مہم کے ڈاکٹر حامد جعفری کہتے ہیں کہ ’پولیو وائرس کچھ عرصے بعد بڑھتا ہے اور اس سال ہم وہی دیکھ رہے ہیں۔‘

پاکستان اور افغانستان میں پولیو کا خاتمہ کرنے کے لیے پانچ سال سے کم عمر ہر بچے کو پولیو ویکسین کے دو قطرے وقفے وقفے سے پلانا ضروری ہیں۔ حامد جعفری کا کہنا ہے کہ ’مقامی ٹیمیں موٹرسائیکلوں پر دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں اور ایسے لوگوں تک بھی پہنچتے ہیں جو ایک جگہ پر زیادہ دیر نہیں رہتے، یعنی خانہ بدوش۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن وائرس کی بنیادی دو ہی قسمیں اس وقت گردش کر رہی ہیں، جبکہ 2020 میں یہ 12 مختلف قسم کے وائرس تھے۔‘

اب عالمی ادارہ صحت پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کے بارے میں بھی حکمت عملی بنا رہا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی مدد سے ویکسین کے خلاف پھیلنے والی غلط معلومات کا تدارک کرنے کے لیے مقامی سطح پر بااثر اور مشہور شخصیات کی مدد لی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر حامد جعفری کہتے ہیں کہ ’پاکستان اور افغانستان کی سیاسی قیادت 2025 میں پولیو کا مکمل خاتمہ کرنے کا عزم رکھتی ہے اور تسلسل کے ساتھ سرحد کے دونوں اطراف تمام بچوں تک رسائی سے ہم پولیو کو تاریخ بنا سکتے ہیں۔‘

اگر یہ مہم واقعی کامیاب ہو گئی تو چیچک کے بعد پولیو دوسری بیماری ہو گی جسے انسانی محنت سے مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.