’پوری زندگی میں اتنا خون نہیں دیکھا‘: ڈاکوؤں اور جنگجوؤں کی موجودگی میں شراب کی سمگلنگ کا خطرناک راستہ

صومالیہ میں قدم قدم پر خطرہ ہی خطرہ ہے مگر اس کے باوجود غربت لوگوں کو سمگلنگ کے راستے پر جانے پر مجبور کر رہی ہے۔
صومالیہ
Somalia Police
پولیس کے ہاتھوں پکڑی جانے والی شراب کی کھیپ

شراب کے سمگلر گلڈ ڈیریے بہت تھک چکے تھے۔ وہ ایتھوپیا کی سرحد تک ممنوعہ مشروب چھوڑ کر واپس آئے تھے اور یہ ان کا بطور سمگلر پہلا دورہ تھا۔

صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں برسوں سے لڑائی جاری ہے اور اسی شہر کے ایک پُرانے بنگلے میں 29 سالہ ڈیریے ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ موغادیشو وہ شہر ہے جسے ایک دور میں بحیرہ ہند کا موتی بھی کہا جاتا تھا۔

ان کے جوتوں پر نارنجی رنگ کی دھول موجود ہے جسے دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی ابھی کسی لمبے اور تھکا دینے والے سفر سے لوٹے ہیں۔

ڈیریے کی آنکھوں کے گرد موجود گہرے سیاہ حلقے نیند کی کمی اور پُر خطر راستوں کے طویل سفر کے دوران مسلح افراد کے ساتھ ہر چوکی پر ہونے والی بحث کی داستان سُنا رہے ہیں۔

اس سب کے دوران انھیں یہ بھی یاد ہے کہ کیسے ان کے ایک ساتھی سمگلر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس ملک میں ہر کوئی اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے اور بس کسی بھی طرح یہاں سے کہیں دور بھاگ جانے کے لیے کسی راستے کی تلاش میں ہے۔ میں بھی ایتھوپیا کی سرحد سے موغادیشو تک یہی کر رہا ہوں۔‘

انھوں نے بی بی سی کو مزید بتایا کہ سمگلنگ ایک خطرناک کام تو ہے مگر خراب معاشی حالات اور ایسے میں خاندان والوں کی کفالت کا بس یہی ایک واحد ذریعہ اور راستہ بچا تھا۔

صومالیہ میں شراب کا استعمال اور تقسیم غیر قانونی ہے۔ ملک میں شریعت یعنی اسلامی قانون نافذ ہے جس کے مطابق شراب نوشی یا اس کا کاروبار حرام ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی ملک کے بہت سے حصوں میں نوجوانوں میں شراب کی مانگ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

موغادیشو رکشوں سے بھر چکا تھا اور اسی سبب بس ڈرائیوروں کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا۔

ڈیریے کے پڑوسی ابشیر کو معلوم تھا کہ وہ بطور بس اور ٹیکسی ڈرائیور مشکل معاشی حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور پھر انھوں نے ڈیریے کو شراب کی سمگلنگ، جرائم اور خطرے سے بھری اس دُنیا سے متعارف کروا دیا۔

ڈیریے اور ابشیر بچپن کے دوست ہیں جنھوں نے 2009 میں موغادیشو میں بغاوت کے عروج کے دوران ایک ہی کیمپ میں ایک ساتھ پناہ لی تھی۔ ڈیریے کے لیے ابشیر ایک ایسے انسان تھے جس پر وہ آنکھیں بند کر کے بھروسہ کر سکتے تھے۔

ڈیریے کہتے ہیں کہ ’میں نے ابشیر کی ہدایت پر موغادیشو میں مخصوص پوائنٹس پر شراب کے ڈبے اٹھانا شروع کیے، شہر بھر میں گھومتا رہا اور پھر انھیں مقررہ مقامات پر ڈیلیور کرنے لگا۔‘

ڈیریے کے لیے یہ کام تھا تو نیا مگر وہ بہت آسانی سے تمام باریکیاں سمجھنے لگے تھے، وہ ایتھوپیا اور صومالیہ کے درمیان غیر محفوظ راستوں سے اب واقف ہو چُکے تھے۔

انھیں معلوم ہے کہ وہ قانون کو توڑ رہے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ جس غربت اور مسائل کا انھیں سامنا ہے اُس سب کے سامنے یہ سمگلنگ ’کُچھ بھی نہیں ہے۔‘

سمگلنگ کا سفر صومالیہ کے سرحدی قصبوں ابودواک، بلانبلے، فیرفیر اور گلڈوگوب سے شروع ہوتا ہے۔

ڈیریے کا کہنا ہے کہ ’شراب زیادہ تر ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا سے ملتی ہے اور اوگاڈن کے علاقے میں واقع جیگ جیگا شہر تک پہنچتی ہے۔‘

اوگاڈن، جیسے سرکاری طور پر ایتھوپیا کہا جاتا ہے، اور صومالیہ کے درمیان 1600 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ دونوں ممالک کے لوگ نسلی، ثقافتی، لسانی اور مذہبی تعلقات رکھتے ہیں۔

ایک بار شراب ٹرک پر لوڈ ہونے کے بعد اسے صومالیہ کی سرحد کے قریب منتقل کیا جاتا ہے اور پھر وہاں سے سرحد پار صومالیہ میں سمگل کیا جاتا ہے۔

سرحدی قصبہ گلڈوگوب تجارت اور سفر کا ایک اہم مرکز ہے لیکن ایتھوپیا سے سمگل کی جانے والی شراب کی وجہ سے یہ راستہ اب خطرناک ہو گیا ہے۔

قبائلی عمائدین نے شراب کی سمگلنگ کے حوالے سے بڑھتے ہوئے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

قصبے کی مقامی قبائلی کونسل کے چیئرمین شیخ عبداللہ محمد علی کہتے ہیں کہ ’شراب بہت سی برائیوں کا سبب بنتی جا رہی ہے جیسا کہ آئے روز فائرنگ کے واقعات اور ان میں ہونے والی ہلاکتیں۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’(اسے) متعدد مواقع پر ضبط تو کیا جاتا ہے مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا کیونکہ یہ بہت آسانی سے دوبارہ دستیاب ہوتی ہے۔ ہمارے اسے تلف کر دینے کے باوجود اس کی سمگلنگ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ یہ کہیں نہ کہیں سے دوبارہ دستیاب ہو جاتی ہے۔‘

’ہمارا شہر تو بس ہمیشہ ہی اس خطرے کا شکار رہے گا۔‘

لیکن سمگلروں کا واحد مقصد شراب کو دارالحکومت تک پہنچانا ہے۔

ڈیریےکا کہنا ہے کہ ’میں ایک ٹرک چلاتا ہوں جو سبزیاں، آلو اور دیگر غذائی مصنوعات لے جاتا ہے۔ لیکن اس سب سے بھرے ٹرک کے مقابلے میں مُجھے زیادہ مالی فائدہ شراب کی سمگلنگ سے ہوتا ہے۔‘

کبھی سمگلر اسے لینے کے لئے ایتھوپیا میں داخل ہوتے ہیں اور کبھی وہ اسے سرحد پر وصول کرتے ہیں۔ لیکن جو بھی طریقہ اختیار کیا جائے، سب سے اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسے کتنے محفوظ انداز میں چھپا رکھا ہے کیونکہ پکڑے جانے کے خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لوڈر کا کام سب سے اہم ہے، گاڑی چلانے سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اسے ہمارے ٹرک میں شراب چھپانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ان اشیا کے بیچوں بیچ جو ہم نے لے کر جانی ہیں۔‘

ڈیریے کا کہنا ہے کہ ’میں شراب کے جس ڈبے کو منتقل کرتا ہوں اس میں 12 بوتلیں ہوتی ہیں۔ میں عام طور پر ہر سفر میں 50 سے 70 ڈبے تک کہیں بھی منتقل کرتا ہوں۔ عام طور پر میرے ٹرک پر آدھا وزن تو شراب کا ہوتا ہے۔‘

جنوب وسطی صومالیہ کا ایک بڑا حصہ مسلح گروہوں کے کنٹرول میں ہے جہاں حکومت کی کوئی رٹ نہیں ہے۔ ان علاقوں میں مسلح گروہ، ڈاکو اور القاعدہ سے وابستہ الشباب گروپ کے جنگجو بلا روک ٹوک آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں۔

ڈیریے کہتے ہیں کہ ’آپ کبھی بھی اکیلے سفر نہیں کر سکتے، یہ بہت خطرناک ہے۔ موت ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتی ہے۔‘ لیکن یہ تشویش اس کاروبار کی راہ میں حائل نہیں ہوتی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر میں سڑک پر کسی حملے میں زخمی ہو جاتا ہوں تو ایک بیک اپ ڈرائیور ہونا چاہیے جو کہ سفر جاری رکھ سکے۔ ہر کوئی گاڑی چلانا جانتا ہے اور اسے سڑکوں سے بھی اچھی طرح واقف ہونا چاہیے۔‘

سمگلر ایسے راستوں پر گاڑی چلاتے ہیں جن کی کبھی مرمت نہیں کی جاتی یا پھر وہ راستے جن پر کیس کا دھیان نہیں جاتا۔ مگر ان راستوں پر جس بات کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے وہ گزشتہ جنگوں کے دوران بچھائی جانے والی بارودی سرنگیں اور اُن علاقوں میں موجود ہتھیار ہیں۔

ڈیریے کا کہنا ہے کہ ’میں موغادیشو پہنچنے کے لیے کم از کم آٹھ سے دس قصبوں سے گزرتا ہوں۔ لیکن ہم قصبوں کی گنتی نہیں کرتے، ہم تو بس چوکیوں کی گنتی کرتے ہیں اور ان کی نگرانی کون کرتا ہے ہماری توجہ بس اس پر ہوتی ہے۔‘

ان کا سامنا مختلف قبیلے کی ملیشیاؤں سے ہوتا ہے جن کی وفاداریاں مختلف ہوتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر ہم کسی قبیلے کی ملیشیا کے ہتھے چڑھ جائیں اورہم میں سے کوئی شخص اگر اُسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہو تو ایسے میں ہمارے زندہ رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم تینوں (ڈیریے اور ان دو ساتھی) مختلف قبیلوں سے ہیں۔‘

صومالیہ
Mohamed Gabobe
سمگلر یہ جانتے ہیں کہ یہ کتنا خطرناک کام ہے مگر غربت کی وجہ سے وہ اسے جاری رکھے ہوئے ہیں

ڈیریے انتہائی تکلیف کے ساتھ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’مجھے کئی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔‘

’میرے ساتھ کام کرنے والے ساتھیوں میں سے ایک نسبتاً نیا ہے۔ اس نے میرے آخری مددگار کی جگہ لے لی ہے جو دو سال پہلے مارا گیا تھا۔‘

ڈیریے چھ گھنٹے سے دم گھٹنے والی گرمی میں گاڑی چلا رہے تھے، اس لیے انھوں نے سونے کا فیصلہ کیا اور گاڑی چلانے کی ذمہ داری اپنے ساتھی کو دے دی۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’جب میں پیچھے سو رہا تھا تو میرے کانوں میں اچانک سے فائرنگ کی پڑی اور میں ہڑبڑا کر جاگ گیا۔ ہم مسلح افراد کے گھیرے میں تھے اور مسافر والی سیٹ پر بیٹھا میرا لوڈر چیخ رہا تھا اور اُس کے ساتھ ڈرائیور والی سیٹ پر ہمارا ڈرائیور ہلاک ہو چُکا تھا۔‘

ہنگامہ تھمنے کے بعد لوڈر اور ڈیریے نے اپنے مردہ ساتھی کو اگلی سیٹ سے اٹھایا اور اسے ٹرک کے پچھلے حصے میں منتقل کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی زندگی میں اتنا خون کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے سٹیئرنگ وہیل سے اسے صاف کرنا پڑا اور اس سب کے باوجود ہم نے اپنا سفر جاری رکھا، میں گاڑی چلاتا رہا۔ اتنے سالوں کے دوران جو میں نے اُس دن دیکھا میں اُس کے لیے کبھی بھی تیار نہیں تھا۔‘

جیسے ہی ڈیریے اور ان کا ساتھی مسلح افراد کے گھیرے سے دور نکلے انھوں نے گاڑی ایک جانب روک کر اپنے ہلاک ہو جانے والے ڈرائیور کی لاش کو وہیں سڑک کے کنارے چھوڑ دیا۔

ڈیریے کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس اس کے جسم کو ڈھانپنے کے لیے چادر بھی نہیں تھی، اس لیے میں نے اپنی لمبی آستین والی قمیض اتاری اور اس سے اُسے ڈھانپ دیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن میں جانتا تھا کہ میں ٹرک میں لاش کے ساتھ شراب سمگل نہیں کر سکتا۔ ہمارے سامنے کچھ سرکاری چوکیاں تھیں اور میں اب اس سب کے بعد اپنے آپ کو خطرے میں نہیں ڈال سکتا تھا۔‘

اس واقعے کو دو سال گُزر چُکے ہیں مگر لاش کو سڑک کے کنارے چھوڑنے کا جرم اب بھی انھیں پریشان کرتا ہے۔

ان کا ڈرائیور اپنے پیچھے ایک خاندان چھوڑ گیا تھا اور ڈیریے یہ نہیں جانتے تھے کہ اُن کے اہلخانہ کس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ڈیریے کی طرح شراب کے دیگر سمگلر بھی ان ہی خطرات کا سامنا کرتے ہیں تاکہ اس مشروب کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے۔

41 سالہ داہر بارے کی جسامت دُبلی پتلی ہے اور ان کے چہرے پر نمایاں نشانات خود ہی ایک کہانی بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں بہت سے مسائل اور خطرات کا سامنا ہے لیکن صومالیہ کے خراب حالات کے باوجود ہم گاڑی چلانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘

بارے 2015 سے ایتھوپیا سے شراب کی سمگلنگ کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ برسوں کی غربت اور ملازمتوں کے مواقعوں کی کمی نے انھیں خطرناک تجارت کی طرف دھکیل دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں شہر کے مرکز میں واقع ایک ہوٹل میں سکیورٹی گارڈ تھا۔ میرے پاس اے کے 47 تھی اور مجھے داخلی دروازے پر لوگوں کی تلاشی لینے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

انھیں انتہائی کم تنخواہ میں رات بھر خطرے کا سامنا کرنا مناسب نہیں لگتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ممکنہ کار بم دھماکے کے سامنے کھڑے ہونا یا ایک سو ڈالر کے لیے اپنی جان کو داؤ پر لگانے کے بارے میں اب جب میں سوچتا ہوں تو مجھے یہ سب پاگل پن لگتا ہے۔‘

ان کے مطابق ان کے ایک ساتھی نے ان کی ملاقات سرحدی علاقے میں کاروبار کرنے والے ایک فرد سے کروائی اور ’تب سے میں ان سڑکوں پر کر رہا ہوں۔‘

’2015 میں مجھے سرحد تک کا ایک چکر لگانے کے صرف 150 ڈالر ملتے تھے جو کہ اب بڑھ کر 350 ڈالر فی چکر تک پہنچ چکے ہیں۔ ان دنوں یہ کام کہیں زیادہ خطرناک تھا کیونکہ الشباب کا زیادہ علاقوں پر کنٹرول تھا لہذا آپ کو ان کے ساتھ مقابلوں کا خطرہ ہوتا تھا۔‘

’یہاں تک کہ ڈاکو اور ملیشیا بھی اس وقت زیادہ خطرناک تھے۔‘

’اگر آپ کے دانت سرخ یا بھورے رنگ کے ہوتے تو ملیشیا یہ سمجھتی کہ آپ کھاٹ چباتے اور سگریٹ پیتے ہیں، یعنی آپ کے پاس پیسے ہیں اس لیے وہ آپ کو اغوا کر لیں گے اور تاوان مانگیں گے۔‘

بارے کہتے ہیں کہ ’ڈرائیوروں کی حیثیت سے ہم بہت کچھ برداشت کر چکے ہیں اور یہ خطرہ اب بھی موجود ہے۔‘

اگر وہ الشباب کے جنگجوؤں کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں تو یہ سب سے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ مسلح گروہ ممنوعہ اشیا خاص طور پر شراب کو بالکل برداشت نہیں کرتا۔

صومالیہ
Mohamed Gabobe

دوسرے مسلح افراد کو زیادہ آسانی سے پیسے یا شراب کے ساتھ رشوت دی جاسکتی ہے۔

ایتھوپیا کی سرحد سے موغادیشو پہنچنے میں اوسطاً سات سے نو دن لگتے ہیں۔ اس کے بعد سمگلر پہلے سے طے شدہ ڈراپ آف پوائنٹ پر پہنچ جاتے ہیں۔

ڈیریے کہتے ہیں کہ ’جب ہم وہاں پہنچیں گے تو ایک گروپ آئے گا اور معمول کی کھانے پینے کی اشیا کو ایک الگ ٹرک میں اتار لے گا اور پھر وہاں سے چلا جائے گا۔ اس کے بعد ایک بار جب یہ کام مکمل ہو جاتا ہے تو ایک اور شخص آتا ہے اور وہ شراب کے ڈبے لے جاتا ہے۔‘

’ایک بار جب یہ شراب میرے قبضے سے نکل جائے گی تو یہ مزید ہاتھوں سے گزرے گی اور آخر کار شہر کے مقامی ڈیلرز تک پہنچ جائے گی۔‘

ڈیریے اکثر سمگلنگ کے دھندے میں اپنی آمد کے بارے میں سوچتے ہیں اور یہ بھی کہ مستقبل میں کیا کیا ہوسکتا ہے۔

’میرے پڑوسی ابشیر، جنھوں نے شروع میں مجھے شراب کی سمگلنگ میں پھنسایا تھا، تین سال پہلے خود یہ کام کرنا چھوڑ چکے ہیں۔‘

ابشیر نے اپنے بھتیجے کو سمگلنگ کے کام میں متعارف کروایا لیکن وہ اپنے تیسرے سفر پر ہی ڈاکوؤں کے حملے میں مارا گیا۔

’اس کے بعد ابشیر نے سمگلنگ چھوڑ دی اور دیندار ہو گیا۔ میں اسے اب شاذ و نادر ہی دیکھتا ہوں۔‘

خطرات کے باوجود بھی ڈیریے کہتے ہیں کہ وہ شراب کی سمگلنگ جاری رکھیں گے۔

’موت ایک ایسی چیز ہے جو پہلے سے طے شدہ ہے، میں خوف کو زندگی گزارنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دے سکتا۔ یقیناً کبھی کبھی میں اس سب سے دور ہو جانا چاہتا ہوں اور نئے سرے سے زندگی شروع کرنا چاہتا ہوں۔

’لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔ غربت ایسا کرنے ہی نہیں دے گی۔‘

اس کہانی میں شامل تمام افراد کے نام فرضی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.