سیلیکون ویلی میں ایسے آئیڈیا کو بہت پسند کیا جاتا ہے جو مارکیٹ میں ’ہلچل‘ مچا دے۔ ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس اب اپنے روایتی کردار سے آگے بڑھ کر تعلیم، مالیات، خلائی سفر، سیاحت وغیرہ جیسے شعبوں میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔
کیا پانچ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب سے قبل سیاسی درجہ حرارت میں ہونے والے اضافے کو دیکھ کر آپ کو بھی یہی لگتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہو سکتی ہے؟
اگر آپ کو ایسا محسوس ہو رہا ہے تو یقین کیجیے کہ آپ اکیلے نہیں کیونکہ امریکہ کے ٹیک انٹرپرینیورز کو ایسا ہی لگتا ہے تاہم انھیں اس سوچ سے خوف نہیں بلکہ اس آئیڈیا سے پیار ہے۔ (’ٹیک انٹرپرینیورز‘ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ٹیکنالوجی اور کاروباری طریقوں کو مسائل کی نشاندہی کرنے اور کاروباری مواقع پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔)
ذرا اس بات کا تصور کریں کہ آپ کو یہ تعین کرنے کا اختیار دے دیا جائے کہ آپ کس ملک کے شہری بننا پسند کریں گے، بالکل ویسے ہی جیسے آپ کے پاس اپنے دیگر چھوٹے بڑے فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے۔
بالاجی سری نواسن کا مستقبل قریب کے لیے یہی وژن ہے۔ بالاجی کرپٹو کی دنیا کے سُپرسٹار ہیں۔
بالاجی ایک سیریل ٹیک انٹرپرینیور اور وینچر کیپٹلسٹ (یعنی ایسے فرد جو کسی نئے کاروبار یا آئیڈیا میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرتے ہیں) کا ماننا ہے کہ وہ تمام تر کام جو حکومتیں کرتی ہیں ٹیکنالوجی وہی کام زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہے۔
کچھ ہفتے قبل میں نے ایمسٹرڈیم کے مضافات میں واقع ایک کانفرنس ہال میں بالاجی کو اس سے متعلق اپنے خیالات پیش کرتے دیکھا تھا۔ ایک ڈھیلی ڈھالی ٹائی اور قدرے ڈھیلا سوٹ پہنے ہوئے وہ سٹیج پر آئے۔
سٹیج پر آتے ہی انھوں نے ہال میں موجود افراد سے پوچھا ’ہم گوگل جیسی نئی کمپنیاں بناتے ہیں، فیس بُک جیسے نئے پلیٹ فارم بناتے ہیں، ہم بٹ کوائن اور ایتھیریئم جیسی نئی ڈیجیٹل کرنسیاں متعارف کرواتے ہیں بالکل اِسی طرح کیا ہم نئے ملک بنا سکتے ہیں؟‘
یہ بات سامعین سے کرتے ہوئے وہ ’کرپٹو کے سُپرسٹار‘ سے زیادہ کسی بڑی کمپنی کے اکاؤنٹس مینیجر لگ رہے تھے لیکن اُن کے ڈھیلے ڈھالے کپڑوں پر نہ جائیں۔ بالاجی سیلیکون ویلی کی وینچر کیپیٹل کمپنی ’اینڈریسن ہورووٹز‘ کے سابق پارٹنر یا شراکت دار ہیں اور اُن کو امیر ترین لوگوں کی سپورٹ حاصل ہے۔
سیلیکون ویلی میں ایسے آئیڈیا کو بہت پسند کیا جاتا ہے جو مارکیٹ میں ’ہلچل‘ مچا دے۔ ٹیکنالوجی سٹارٹ اپس اب اپنے روایتی کردار سے آگے بڑھ کر تعلیم، مالیات، خلائی سفر، سیاحت وغیرہ جیسے شعبوں میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔
اُس کانفرنس میں بالاجی نے مزید کہا کہ ’ہزاروں مختلف سٹارٹ اپس کا تصور کریں جو روایتی حکومتی شعبوں کی جگہ لے لیں۔ ابتدا میں یہ سٹارٹ اپس اُن شعبوں کے شانہ بشانہ کام کریں گے اور صارفین کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں گی اور آہستہ آہستہ یہ سٹارٹ اپس اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ یہ حکومتی شعبوں کے نئے متبادل بن جائیں گے۔‘
بالاجی کا کہنا تھا کہ اگر سٹارٹ اپس ایسے مختلف اداروں کی جگہ لے سکتے ہیں تو وہ ممالک کی جگہ بھی لے سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنے اس آئیڈیا کو ’نیٹ ورک سٹیٹس‘ کا نام دیا یعنی سٹارٹ اپ پر مبنی قومیں۔
ایک نیٹ ورک سٹی کچھ اس طرح کام کرے گی کہ یہاں کمیونٹیز ہوں گی جو ابتدائی طور پر تو صرف انٹرنیٹ پر ہی معرض وجود میں آئیں گی، آگے چل کر یہ کمیونیٹیز اپنے مشترکہ مفادات یا اقدار کے گرد پھلے پھولیں گی اور پھر یہی کمیونیٹیز زمین خریدیں گی اور اس طرح آہستہ آہستہ یہ اصل ’ملک‘ کی شکل اختیار کر لیں گی، ایسے ملک جن کے اپنے قانون بھی ہوں گے اور ایسے ممالک موجودہ قومی ریاستوں کے ساتھ ساتھ موجود ہوں گے۔
اور پھر بالآخر یہ نئی قائم ہونے والی ’نیٹ ورک سٹیٹس‘ اصل ممالک کی جگہ لے لیں گی۔
یہاں آپ کو اپنی قومیت کا انتخاب کرنے کی آزادی ہو گی بالکل ویسے ہی جیسے آپ اِس بات کا انتخاب کرتے ہیں کہ آپ کو اپنے گھر میں کس کمپنی کا انٹرنیٹ لگوانا ہے۔ اس طرح آپ ایک ایسے چھوٹے سے ملک کے شہری بن جائیں گے جسے ایک سائبر کمپنی چلا رہی ہو گی۔
تاہم یہ کوئی نیا آئیڈیا نہیں۔ نجی کمپنیاں پہلے بھی ممالک کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت کرتی رہی ہیں۔ ’بنانا ریپبلک‘ کی اصطلاح بھی اسی طرح وجود میں آئی کہ جب 1930 کی دہائی کے اوائل سے امریکہ کی ایک کمپنی ’یونائیٹڈ فروٹ‘ وسطیٰ امریکہ کے ملک گوئٹےمالا پر راج کر رہی تھی۔
گوئٹےمالا کی زیادہ تر زمین اِسی نجی کمپنی کے قبضے میں تھی۔ کمپنی چلانے کے علاوہ ’یونائیٹڈ فروٹ‘ کی انتظامیہ گوئٹے مالا میں ریلوے، ڈاک اور ٹیلی گراف کی سہولت بھی فراہم کر رہی تھی۔
تاہم جب گوئٹےمالا کی حکومت نے ’یونائیٹڈ فروٹ‘ کو ملک پر حاوی ہونے سے روکنے کی کوشش کی تو امریکی خفیہ ایجنسی ’سی آئی اے‘ نے مداخلت کی۔ ’یونائیٹد فروٹ‘ کی مدد کرنے کے لیے سی آئی اے نے مبینہ طور پر گوئٹے مالا میں حکومت کے خلاف بغاوت کو ہوا دینے کی کوششیں کیں۔
لیکن لگتا ہے کہ ’نیٹ ورک سٹیٹس موومنٹ‘ کے عزائم اِس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ’نیٹ ورک سٹیٹ‘ کے آئیڈیا کے پیروکار صرف یہ نہیں چاہتے کہ انھیں ایسی حکومتیں ملیں جو انھیں ملک کے معاملات چلانے دیں بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومتیں پوری طرح ختم ہو جائیں اور نیٹ ورک سٹیٹ خود ایک منفرد حکومت میں تبدیل ہو جائے اور اصل حکومتوں کی جگہ لے لے۔
’دی کمنگ سٹارم‘
جیسے جیسے امریکہ کا صدارتی انتخاب قریب آ رہا ہے، میں امریکہ میں رائج سازشی نظریات کی بھول بھلیوں میں مزید گھستا چلا جا رہا ہوں۔
جہاں دنیا بھر کے لبرلز ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور امریکی صدر ممکنہ واپسی کے بارے میں فکر مند ہیں، وہیں لاکھوں امریکیوں کو یقین ہے کہ اُن کے ملک میں جمہوریت کو پہلے ہی ’ڈیپ سٹیٹ‘ نے ہائی جیک کر لیا ہے۔
’ڈیپ سٹیٹ‘ ایک امریکی سیاسی سازشی نظریہ ہے جس کے مطابق ملک کو ایک خفیہ گروہ چلا رہا ہے جس میں وفاقی حکومت کے اراکین اور دیگر اعلیٰ سطح کے مالیاتی اور صنعتی اداروں کے رہنما شامل ہیں جو حکومت کے فیصلوں اور دیگر معاملات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ بی بی سی کے لیے آنے والی سیریز ’دی کمنگ سٹارم‘ میں گیبریل گیٹ ہاؤس اس موضوع پر تحقیق کریں گے۔
تاہم ایسے لوگ بھی ہیں جو ’نیٹ ورک سٹیٹ‘ کے آئیڈیا کو ایک نوآبادیاتی منصوبے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اُن کی رائے میں نیٹ ورک سٹیٹ میں منتخب لیڈروں کی جگہ کارپوریٹ آمر لے لیں گے جو اپنے شیئر ہولڈرز کے مفادات کے لیے کام کر رہے ہوں گے۔
لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نیٹ ورک سٹیٹ ایسی ریاست ہو گی جو موجودہ مغربی جمہوریت کے ضابطوں کو ختم کر دے گی۔
ایمسٹرڈیم میں منعقد ہوئی کانفرنس میں کچھ ٹیک انٹرپرینیورز نے ان ہی نیٹ ورک سٹیٹ کی ’سٹارٹ اپ سوسائٹیز‘ کی نمائش کی تھی۔ اس سوسائٹی میں ایک کمرہ تھا۔ اس میں جدید دور کا گاؤں تھا جسے ’نیٹ ورک شہر‘ کی طرح پیش کیا گیا تھا اور جس کی شاخیں امریکہ، پرتگال اور دیگر ممالک میں موجود تھیں۔
بالاجی کا نیٹ ورک سٹیٹ کا تصور ’چارٹر سٹیز‘ پر مشتمل ہے جس میں شہری علاقوں میں خصوصی زونز شامل ہوں گے۔ چارٹر سٹی فری پورٹ کی طرح ہو گی جہاں ملک کی باقی بندرگاہوں یا ایئرپورٹکے برعکس مختلف کسٹم قوانین لاگو ہوتے ہیں۔
نائیجیریا اور زمبیا سمیت دنیا بھر میں ایسے کئی منصوبے زیر تعمیر ہیں۔
لاس ویگاس میں ایک حالیہ ریلی میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ اگر نومبر میں وہ دوبارہ منتخب ہوگئے تو وہ امریکی ریاست نیواڈا میں اسی طرح کی ’انتہائی کم ٹیکس اور کم ریگولیشن والے خصوصی زونز قائم کریں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ خصوصی زونز صنعتوں کو اپنی طرف راغب کریں گے، یہاں سستی رہائش ہو گی اور ملازمت کے مواقع ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ منصوبہ ’امریکی خواب‘ اور اس کے ’فرنٹیئر سپرٹ‘ یعنی پُرامید، خود انحصاری اور انفرادیت کی عکاسی کرے گا۔
تاہم وسطی امریکہ کے ملک ہنڈورس کا شہر ’پروسپیرا‘ اس نیٹ ورک سٹیٹ سے کچھ مختلف ہے۔ یہ شہر ہنڈورس کے ساحل سے دور ایک جزیرے پر واقع ہے۔ پروسپیرا کو ایک ’نجی شہر‘ کے طور پر جانا جاتا ہے جہاں کاروباری افراد کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں انسانی عمر کو طویل کرنے کے لیے سائنسی تجربے کیے جاتے ہیں جن پر قوانین کی کوئی روک ٹوک نہیں۔
پروسپیرا کو امریکی ریاست ڈیلاویئر میں واقع ایک منافع بخش کمپنی چلا رہی ہے۔ خاص اسی مقصد کے لیے ہنڈورس کی پچھلی حکومت نے اس شہر کو ایک خصوصی درجہ دیا تاکہ یہاں پر باقی ملک سے مختلف قوانین لاگو ہو سکیں۔
لیکن ہنڈورس کے موجودہ صدر زیوماری کاسترو اس پروسپیرا کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس شہر کو حاصل خاص مراعات بھی ختم کرنا شروع کر دی گئی ہیں۔ اس پس منظر میں پروسپیرا کی جانب سے ہونڈورس کی حکومت کے خلاف 10.8 ارب ڈالر کا مقدمہ دائر ہو چکا ہے۔
کرپٹو کرنسی کی فری مارکیٹ قائم کرنے کا منصوبہ
دن بھر طویل ایمسٹرڈیم کی اس کانفرنس میں کئی انٹرپرینیورز نے اپنے آئیدیاز پیش کیے۔ اس دوران سرمئی رنگ کی ہوڈی میں ایک نوجوان دھیمی چال کے ساتھ سٹیج پر آیا۔ اس کا نام ڈرائیڈن براؤن تھا۔
ڈرائیڈن نے کہا کہ وہ بحیرہ روم کے ساحل پر ایک نئی طرز کی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ یہ کسی ریاستی بیوروکرسی نظام کے تحت نہیں بلکہ ’بلاک چین ٹیکنالوجی‘ کے تحت کام کرے گی۔ اس ریاست کے بنیادی اصولوں میں ’جوش و توانائی‘ اور ’دلیری‘ کی خصوصیات ہوں گی۔ انھوں نے اس ریاست کو ’پریکسس‘ کا نام دیا جو کہ قدیم یونانی لفظ ’عمل‘ سے ماخذ ہے۔ اس نئی قوم کے شہری یہاں سنہ 2026 میں منتقل ہو سکیں گے۔
لیکن اُن کے اس منصوبے کی تفصیلات تھوڑی دھندلی تھیں۔ لوگ شہر میں کہاں منتقل ہوں گے؟ یہاں انفراسٹرکچر کون بنائے گا؟ شہر کا نظام کس کے ذمے ہو گا؟ ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے اپنی پریزنٹیشن میں ایک سلائیڈ نکالی جس سے پتہ چلا کہ ’پریکسس‘ نامی اس ریاست کو اربوں ڈالر کے فنڈز تک رسائی حاصل ہو گی۔
تاہم ’پریکسس‘ کمیونٹی فی الحال صرف انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اس کی شہریت حاصل کرنے کے لیے آپ ایک ویب سائٹ پر جا سکتے ہیں جہاں اس مقصد کے لیے درخواست جمع کروائی جا سکتی ہے لیکن انٹرنیٹ پر موجود اس کمیونٹی میں موجود لوگ فی الحال کون ہیں اور کہاں ہیں، یہ واضح نہیں تھا۔
پھر ڈرائیڈن نے اپنے ریموٹ کے ساتھ سکرین پر ایک اور سلائیڈ دکھائی۔ سلائیڈ میں ایک میم شامل تھی جس میں ایک اداس نظر آنے والا مینڈک تھا جو سنہ 2016 میں انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست لوگوں کا میس کوٹ بن گیا تھا۔ اس مینڈک کو ’پے پے دی فراگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
’سٹارٹ اپ قوموں‘ کی اس مخصوص دنیا میں ’پریکسس‘ اپنی دلیری کے لیے مشہور ہے۔ اس آن لائن کمیونٹی کے شہری یادگار محفلیں سجاتے ہیں۔ نیو یارک کے علاقے مین ہیٹن کے شاندار اور بڑے بڑے اپارٹمنٹس میں موم بتیاں سجا کر لوگ جمع ہوتے ہیں۔ شرکا میں شرمیلے کمپیوٹر کوڈرز اور ہپسٹر ماڈل شامل ہوتی ہیں۔ ان میں ’ڈارک اینلائٹنمنٹ‘ موومنٹ سے منسلک جمہوریت اور مساوات مخالف لوگ بھی شامل ہوتے تھے۔
حاضرین کو ’این ڈی اے‘ پر دستخط کرنے ہوتے ہیں تاکہ کمیونٹی کی کوئی بات باہر نہ جا سکے۔ صحافیوں کا عام طور پر یہاں آنے نہیں دیا جاتا۔
ان لوگوں میں کرٹس یوون نامی بلاگر بھی شامل ہیں جو ایک ایسے مستقبل کی حمایت کرتے ہیں جس میں کارپورشنز کی ’بادشاہی‘ ہو گی اور مکمل آمریت کا دور ہو گا۔ کرٹس کے خیالات کو بعض اوقات فاشسٹ قرار دیا جاتا ہے جس کی وہ تردید کرتے ہیں۔
جب ڈرائیڈن براؤن نے اپنی پریزینٹیشن مکمل کر لی تو میں ان سے بات کرنے کے لیے گیا۔ ملاقات کے وقت ایسا لگا کہ وہ مجھے شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ ان کا رویہ سرد تھا لیکن انھوں نے مجھے پھر بھی اپنا فون نمبر دے دیا۔ میں نے انھیں کئی بار میسج کیا تاکہ ہم کچھ بات کر سکیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
لیکن پھر تقریباً چھ ماہ بعد میں نے ایکس پر ایک دلچسپ پوسٹ دیکھی۔ پوسٹ میں لکھا تھا ’پریکسس میگزین کا لانچ، کل رات، اپنے پسندیدہ صفحات کی فوٹو کاپی کروا لیں۔‘
پوسٹ میں نہ کوئی وقت دیا گیا نہ ہی کوئی مقام بتایا گیا۔ اس میں صرف ایک لِنک دیا گیا تھا جہاں سے آپ اس لانچ میں شرکت کرنے کے لیے اپنی درخواست دائر کر سکتے تھے۔
میں نے بھی یہاں جانے کی درخواست دی لیکن کوئی جواب نہ آیا۔
دوسرے دن میں نے ڈرائیڈن کو پھر سے میسج کیا۔ میری توقع کے خلاف ان کا فوراً جواب آ گیا۔ ’ایلا فنٹ۔ صبح 10 بجے۔‘
پتہ چلا ’ایلا فنٹ‘ مین ہٹن کے ایک نائٹ کلب کا نام تھا۔ ماضی میں یہ کلب ’کلب82 ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا جہاں ہم جنس پرست لوگں کی شاندار پارٹی ہوتی تھیں۔ 1950 کی دہائی میں مصنفین اور فنکار یہاں کاک ٹیل پینے اور تہہ خانے میں ڈریگ شو دیکھنے جاتے تھے۔ ٹکسیڈو میں ملبوس خواتیں یہاں مہمانوں کو مشروبات پیش کرتی تھی تاہم اب اس کلب میں ان لوگوں کا اجتماع ہوتا تھا جو ایک نیا ملک بنانا چاہتے ہیں اور پتہ نہیں کس طرح مجھے اس پارٹی میں جانے کا دعوت نامہ مل گیا تھا۔
لیکن میں اُس وقت ایلا فنٹ سے لگ بھگ دو ہزار میل دور امریکی ریاست یوٹا میں موجود تھا۔ اگر مجھے اس پارٹی میں وقت سے شرکت کرنی ہوتی تو مجھے فوراً فلائیٹ پکڑنی پڑتی۔
ویسے اس پارٹی میں سب سے پہلے آنے والوں میں، میں بھی شامل تھا۔ اس وقت جگہ تقریباً خالی تھی۔ پریکسس کے کچھ لوگ بار کاؤنٹر پر اپنے نئے میگزین کی کاپیاں رکھ رہے تھے۔
میں نے میگزین کے کچھ صفحے پلٹے۔ بھاری اور مہنگا کاغذ استعمال کیا ہوا تھا۔ اس میں کئی اشتہارات شائع ہوئے تھے جن میں دودھ، پرفیوم اور بندوقوں کی تشہیر کی گئی تھی۔ ایسی کئی دیگر اشیا کے اشتہارات بھی تھے۔
’پے پے دی فراگ‘ کی طرح دودھ بھی ایک انٹرنیٹ میم ہے۔ انتہائی دائیں بازو گروہ میں دودھ کی بوتل سفید فام لوگوں کی نسل پرستی کی طرف اشارہ سمجھا جاتا ہے۔
میگزین نے قارئین پر زور دیا کہ ’صفحات کی فوٹو کاپی کریں اور انھیں اپنے شہر کے ارد گرد چسپاں کریں‘ تاکہ اُن کا پیغام دوسروں تک پہنچ سکے۔ اسی مقصد کے لیے شراب خانے میں ایک فوٹو کاپی مشین رکھ دی گئی تھی۔
پھر میں نے دیکھا کہ بار میں نوجوانوں کا ایک گروہ چلتا ہوا آیا۔ ان میں سے کچھ نے کاؤ بوائے والی ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ ان کا نام ’زیک‘ ہے۔
زیک نے کہا کہ ’میں ایک طرح سے امریکہ کے وائلڈ ویسٹ علاقے کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ ہم ’فرنٹیئر‘ (امریکہ کے گاؤں) میں ہیں۔‘
بہت سے لوگوں کو کرپٹو کرنسی ایک سکیم یا جعل سازی لگتی ہے۔ ان کے نزدیک یہ انتہائی غیر مستحکم انٹرنیٹ والا پیسہ ہے جس کی قیمت راتوں رات ختم ہو سکتی ہے۔
لیکن ’نیٹ ورک سٹیٹ‘ کی دنیا میں موجود افراد کرپٹو سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اسے موجودہ پیسے اور کرنسی کے مستقبل کے طور پر دیکھتے ہیں جسے حکومتیں کنٹرول نہیں کر سکتیں۔
اگلا شخص جس سے میری بات ہوئی انھوں نے اپنا تعارف ’ازی‘ کے نام سے کروایا۔ میں نے ان سے ان کا خاندانی نام پوچھا، جس کا انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور کہا ’مینڈیاز‘۔ یہ ایک مشہور نظم کی طرف اشارہ تھا جس کا نام ہے ’اوزیمینڈیاس، بادشاہوں کا بادشاہ۔‘
گمنام کرپٹو کی دنیا میں اخلاقیات ایک اہم حصہ ہیں۔ مجھے احساس ہوا کہ اس پارٹی میں کوئی بھی مجھے اپنا اصلی نام نہیں بتا رہا۔
ازی منڈیاس کا تعلق اصل میں بنگلہ دیش سے تھا لیکن وہ نیو یارک کے کوئنز نامی علاقے میں پلے بڑھے تھے۔ وہ ایک ٹیک سٹارٹ اپ کے بانی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح پرنٹنگ پریس نے 500 سال پہلے یورپ میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے میں کردار ادا کیا تھا آج نئی ٹیکنالوجی جیسے کرپٹو، بلاک چین، مصنوعی ذہانت جمہوری قومی ریاست کے خاتمے کا باعث بنے گی۔
انھوں نے کہا کہ ’ظاہر ہے جمہوریت عظیم ہے لیکن بہترین حکمران ایک اخلاقی آمر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ (اُسے) فلسفی بادشاہ کہتے ہیں۔‘
کیا ’کارپوریٹ بادشاہ‘ کا عروج آ رہا ہے؟
ازی نے کہا کہ انھیں لگ رہا ہے کہ ’اگلے نشاۃ ثانیہ کا دور آنے والے ہے‘ لیکن انھوں نے پیشگوئی کی کہ نشاۃ ثانیہ سے پہلے ’لوڈائیٹ‘ تحریک شروع ہو گی جو نئی ٹیکنالوجی کے خلاف ہو گی۔ اس دور میں لاکھوں ملازمتیں ختم کر دی جائیں گی اور عالمی معیشت پر اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔
تاہم ازی نے کہا کہ ’لوڈائیٹ‘ تحریک کے حمایتی ناکام ہو جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ نشاۃ ثانیہ کے دور میں آنے سے پہلے والا وقت انسانی سماجی ارتقا کا ’اگلا مرحلہ‘ ہو گا- یہ ’نیٹ ورک سٹیٹ‘ کا مرحلہ ہو گا جو پُرتشدد ہو گا اور ڈارون کے نظریات کو ہوا دے گا۔
لیکن ازی بالکل فکرمند نہیں تھے کیونکہ ان کے نزدیک جمہوریت کے زوال کے بعد نئے بادشاہ عروج پر آئیں گے جو کوآپریٹ حکمران ہوں گے اور اپنے نیٹ ورک کی سلطنت پر راج کریں گے۔
میں بار میں اِدھر اُدھر ٹہلا اور اپنے لیے ایک مشروب لی۔ وہاں میں نے دو نوجوان لڑکیوں سے بات چیت شروع کی۔ انھیں دیکھ کر ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ یہ کرپٹو والے گروہ سے منسلک ہوں گی۔
عذرا قریب میں ایک نائٹ کلب کی مینیجر تھیں۔ ان کی دوست ڈیلن ایک سٹوڈنٹ تھیں۔
ایسا لگ رہا تھا کہ انھیں اس پارٹی میں اس لیے بلایا گیا تاکہ محفل میں کچھ جان آ جائے ورنہ یہاں صرف کرپٹو کے دلدادہ اور کمپیوٹر کے شوقین مرد حضرات کا ہجوم ہوتا۔
لیکن یہ خواتین بھی ’نیٹ ورک سٹیٹ‘ کے بارے میں اپنی رائے رکھتی تھیں۔
ڈیلن نے پوچھا کہ ’اگر آپ کے پاس ہسپتال یا سکول میں بچوں کے لیے ملازمین نہیں ہوں گے تو آپ کیا کریں گے؟‘
’حکومت کے بغیر شہر کو قائم کرنا غیر حقیقی ہے۔‘
عذرا کے نزدیک نیٹ ورک سٹیٹ کا تصور ’ڈسٹوپیئن‘ ہے یعنی وہ معاشرہ جہاں ناانصافی اور تکلیف عام ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ ایک اصل ’کلٹ‘ کی میٹنگ کیسی ہوتی ہے۔‘
مجھے لگا کہ وہ مذاق میں یہ بات کر رہی تھیں۔
اسی وقت ڈرائیڈن براؤن پراکسی کے شریک بانی نمودار ہوئے۔ جب وہ سگریٹ کے لیے باہر گئے تو میں اُن کے پیچھے چل پڑا۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ پراکسیس میگزین اس نئی ثقافت کو ظاہر کرنے کا ایک طریقہ تھا جسے وہ تعمیر کرنے کی امید کر رہے تھے۔
میں اُن سے ’نیٹ ورک سٹیٹ‘ پراجیکٹ کے بارے میں کچھ اہم سوالات پوچھنا چاہ رہا تھا جیسا کہ اس نئی اور بہادر ریاست کے شہری کون ہوں گے؟ اس پر کون حکومت کرے گا؟ اور بالخصوص ڈیلن کا سوال کہ ہسپتالوں میں عملہ کہاں سے آئے گا؟
مگر اس گفتگو کے دوران یہاں موجود مہمانوں کی آمدورفت کے باعث تسلسل نہیں تھا۔ ڈرائیڈن براؤن نے اگلے دن مجھے ’پراکسیس ایمبیسی‘ آنے کی دعوت دی۔ ہم نے وہاں کھڑے ہو کر فیصلہ کیا کہ کل ملیں گے اور پھر ہم اندر چلے گئے۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں نے میگزین کی ایک کاپی پکڑی اور باہر نکل آیا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر میں نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ سفید فام بالادستی سے متعلق میمز اور بندوقوں کے اشتہارات کے ساتھ ساتھ وہاں ایک ’کیو آر کوڈ‘ بھی تھا، جس پر دراصل 20 منٹ کی مختصر فلم تھی جس کا موضوع جدید دور کے خالی پن اور بہادروں کی گمشدہ دنیا کا نوحہ تھا۔
اگلے روز میں ’پرایکسیس ایمبیسی‘ پہنچا جو براڈوے پر واقع ایک جگہ ہے۔ یہاں کتابوں کے ریکس میں نیپولین کی خودنوشت اور اس جیسی دوسری تحاریر کا ڈھیر موجود تھا۔ میں یہاں کچھ دیر موجود رہا مگر ڈرائیڈن براؤن اس دوران یہاں نہیں آئے۔
میں اس سوچ میں غرق یہاں سے نکلا کہ کل رات میں نے جو دیکھا تھا کیا وہ مستقبل کی ایک جھلک تھی جس میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کارپوریٹ معاشروں کے ہاتھوں ڈھیر ہو جائیں گے، ایک ایسی دنیا جہاں آپ یہ انتخاب کر پائیں گے کہ آپ کو سائبر سٹیٹلیٹ کا شہری بننا ہے، یا یہ محض ڈرائیڈن براؤن اور اُن کے دوستوں کی جانب سے کیا جانے والا مذاق ہے۔