کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر خودکش حملہ: ’1935 کے زلزلے کے بعد سب سے بڑی تباہی‘

اختیار حسین جائے وقوعہ سے چند قدم کے فاصلے پر تھے جب انھیں دھماکے کی زوردار آواز سنائی دی۔ جب وہ ہوش میں آئے تو ایک ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔
کوئٹہ ریلوے سٹیشن
Getty Images

’میرے سامنے ایک خاتون بینچ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ زوردار دھماکے سے وہ گیند کی طرح اُچھلیں اور نیچے گِرنے کے بعد پھر ہوش میں نہیں آئیں۔‘

سنیچر کو کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن پر دھماکے اور افراتفری کو یاد کرتے ہوئے ریلویز کے ملازم اختیار حسین نے بتایا کہ تباہی کا ایسا منظر انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

حکام کے مطابق اس ’خودکش حملے‘ میں 26 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں 12 سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔

اختیار حسین جائے وقوعہ سے چند قدم کے فاصلے پر تھے جب انھیں دھماکے کی زوردار آواز سنائی دی۔ جب وہ ہوش میں آئے تو ایک ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اس دھماکے میں معصوم شہریوں اور مسافروں کو نشانہ بنایا گیا۔

زخمیوں میں شامل مسافر محمد عمر نے بتایا کہ دھماکے کے بعد چاروں طرف خون ہی خون تھا اور لوگوں کے جسموں کے جلنے کی بو آ رہی تھی۔

محکمہ ریلویز کے سابق ملازم ارشد محمود کا کہنا ہے کہ ’کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن نے 1935کے زلزلے بعد اتنی بڑی تباہی نہیں دیکھی جتنی کہ سنیچر کو اس کے پلیٹ فارم پر ہونے والے دھماکے کی وجہ سے ہوئی۔‘

پولیس حکام کے مطابق دھماکے کا مقدمہ سی ٹی ڈی کے تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے اور مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن ہم بلوچستان کےعوام کو یقین دلاتے ہیں کہ حکومت اور سکیورٹی فورسز میں اس چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے جس میں یہ بات سامنے آئے گی کہ آیا کوئی سکیورٹی لیپس ہوا یا نہیں۔

کوئٹہ ریلوے سٹیشن
Getty Images

’جب تک میں ہوش میں تھا، ہر طرف خون ہی خون نظر آیا‘

اختیار حسین محکمہ ریلویز میں ایس ٹی ہیں اور وہ اس وقت ٹراما سینٹر کوئٹہ میں زیر علاج ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے جسم میں سات سے آٹھ چھرّے لگے ہیں جن میں سے کچھ کو ڈاکٹروں نے نکالا ہے جبکہ بعض ابھی تک ان کے جسم کے اندر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سنیچر کی صبح وہ وردی پہن کر آٹھ بج کر 20 منٹ پر گھر سے نکلے اور جب ریلوے سٹیشن پہنچے تو جائے وقوعہ سے چند قدم کے فاصلے پر ’ایسا زوردار دھماکہ ہوا جو زندگی میں سنا نہ دیکھا۔‘

’یہ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ انگریز دور کی بنی چھت اُڑ گئی۔ ہر طرف موت کا سماں تھا۔ ایک دو منٹ بعد آنکھوں کے سامنے اندھیرا آگیا، سر چکرا گیا اور میں بے ہوش ہوگیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے سامنے ایک بے چاری خاتون بیٹھی تھیں جو دھماکے سے گیند کی طرح اُچھل کر ایسی گریں کہ پھر ہاتھ پیر نہ ہلا سکیں۔‘

محمد عمر جعفر ایکسپریس میں اپنے نانا، امی اور چھوٹے بھائی کے ہمراہ ڈیرہ اللہ یار کے قریب اپنے گاؤں جانے کے لیے پلیٹ فارم پر تھے کہ یہ دھماکہ ہوا۔

انھوں نے بتایا کہ ’دھماکے کے باعث میں گِر گیا۔ جب تک میں ہوش میں تھا تو مجھے ہرطرف خون ہی خون نظر آیا اور اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کے جسم جلنے کی بو آ رہی تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ساتھ جو سامان تھا، وہ سب تباہ ہوگیا حتیٰ کہ جسم کے کپڑے تک جل گئے۔‘

ایک اور شخص حافظ اللہ دتہ دو دیگر دوستوں کے ہمراہ سنیچر کو بہاولپور اپنے گھر جانا چاہتے تھے۔

وہ پلیٹ فارم پر پہنچے اور وہاں ٹرین کے پلیٹ فارم پر لگنے کے انتظار میں تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پہنچنے کے اندازاً 10 منٹ بعد دھماکہ ہوا اور ہم تینوں دوستوں سمیت بہت سے لوگ زمین پر گِر پڑے۔‘

ان کا کہنا تھا ’ہم بے ہوش ہوگئے تھے۔ ہم میں سے دو تو ہوش میں آگئے لیکن تیسرا دوست ابھی بھی آئی سی یو میں ہے۔‘

جعفرآباد سے تعلق رکھنے والے شیر جان اپنے خاندان کے دیگر زخمیوں سمیت ٹراما سینٹر میں موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے میں ان کی بیوی اور بچے نہ صرف زخمی ہوگئے بلکہ گھر کا سامان بھی جل گیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’طبی امداد تو ہے لیکن مالی امداد نہیں کیونکہ ہماری حالت اب ایسی ہوگئی ہے کہ ہمارے پاس اب چائے پینے تک پیسے بھی نہیں۔‘

کوئٹہ ریلوے سٹیشن
Getty Images

’1935 کے زلزلے کے بعد کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر دوسری بڑی تباہی‘

کوئٹہ میں یہ ریلوے سٹیشن قیامِ پاکستان سے قبل انگریزوں کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن 1935 کے تباہ کن زلزلے میں یہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔

1935 کے بعد اسے جس انداز میں تعمیر کیا گیا، وہ اپنے وقت کی خوبصورت اور مضبوط عمارتوں میں شامل تھا۔

سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں حالات کی خرابی کے بعد سے ریلوے سٹیشن اور یہاں سے جانے والی ٹرینوں کے اندر بھی دھماکے ہوتے رہے۔ لیکن ان میں سے کسی دھماکے میں ریلوے سٹیشن پر اتنی بڑی تباہی نہیں آئی۔

ارشد محمود طویل عرصے سے ریلوے سٹیشن کوئٹہ پر ملازم رہنے کے بعد ایک سال پہلے ریٹائر ہوگئے ہیں۔

ریلوے میں پریم یونین کے مختلف عہدوں پر فائز رہنے والے اس سابق ملازم نے بتایا کہ انھوں نے اپنے دورِ ملازمت میں بھی اتنی بڑی تباہی نہیں دیکھی جو کہ سنیچر کے دھماکے کی وجہ سے ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صوبے میں سکیورٹی کے حالات کی خرابی کے بعد ریلوے سٹیشن اور اس کے سامنے دھماکے ہوتے رہے لیکن اس کے پلیٹ فارم پر پہلے کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ پہلے ہونے والے دھماکوں کی تباہی کی شدت اور نقصان کبھی اتنا نہیں رہا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’1935کے زلزلے کے بعد جانی نقصان اور ریلوے کی عمارت کو پہنچنے والی نقصان کے حوالے سے یہ ریلوے سٹیشن کے قیام کے بعد دوسری بڑی تباہی ہے۔‘

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس حملے کے بعد ریلوے حکام نے ملک بھر کے اہم ریلوے سٹیشنز پر سکیورٹی ہائی الرٹ کرنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

کوئٹہ ریلوے سٹیشن
Getty Images

ہمیں کوئٹہ میں ریلوے سٹیشن پر ’خودکش حملے‘ کے بارے میں اب تک کیا معلوم ہے؟

محکمہ صحت حکومت بلوچستان کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر وسیم بیگ کے مطابق اس دھماکے میں اب تک 26 افراد ہلاک اور 62 زخمی ہوئے۔

ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سعد بن اسد نے بی بی سی کے نامہ نگار روحان احمد کو بتایا کہ دھماکے میں 12 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔

سکیورٹی اہلکاروں میں سے بعض کی نماز جنازہ گذشتہ شب کوئٹہ چھاؤنی میں ادا کی گئی جس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔

اس موقع پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔‘

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اس ’خودکش دھماکے‘ میں معصوم شہریوں اور مسافروں کو نشانہ بنایا گیا۔

اس حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے پیچھے تنظیم کی مجید بریگیڈ کا ہاتھ ہے۔

اس واقعے کی ابتدائی رپورٹ اتوار کو وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی کی زیر صدارت ایک اجلاس میں پیش کی گئی تاہم اب تک اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

ایک پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ واقعے کا مقدمہ ریلوے پولیس کوئٹہ کی مدعیت میں سی ٹی ڈی تھانہ کوئٹہ میں درج کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بارے میں مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور ’کرائم سین سے یہ خودکش حملہ لگتا ہے۔‘

ایک سرکاری اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابتدائی تحقیقات سے واضح ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔

کوئٹہ ریلوے سٹیشن
Getty Images

کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر سکیورٹی کی ذمہ داری ریلوے پولیس کی ہے جن کی تعداد کم ہے جبکہ ریلوے سٹیشن ایک طویل و عریض علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔

تاہم ریلوے سٹیشن پر ماضی میں ہونے والے دھماکوں کے باعث اس پر سکیورٹی کے انتظامات کو بہتر بنایا جاتا رہا ہے۔

گذشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران چمن پھاٹک کی طرف سے اس پر عام لوگوں کی آمدورفت کے لیے گیٹ بھی لگائے گئے لیکن اس کی مختلف علاقوں میں موجود دیواروں کو کوئی آسانی سے پھلانگ سکتا ہے۔

تو کیا ریلوے سٹیشن پر دھماکہ سکیورٹی میں کوتاہی کے سبب ہوا، یہ سوال گذشتہ شب میڈیا سے بات چیت کے موقع پر وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے سامنے رکھا گیا۔

ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا صرف ریلوے پولیس کے 18 اہلکاروں سے اس کی سکیورٹی ممکن ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نے اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا ہے اور اگر کوئی سکیورٹی لیپس تھا تو وہ سامنے آجائے گا۔‘

ادھر وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے بڑھنے کے عوامل اور ان کی روک تھام کے بارے میں غور ہو رہا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.