شمالی مشرقی شام میں فضائی حملوں میں انفراسٹرکچر کی تباہی سے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں تک پانی کی رسائی بند ہو گئی ہے۔
شمال مشرقی شام کے خشک سالی سے متاثرہ علاقے میں ترکی کی جانب سے کی جانے والی بمباری کے باعث دس لاکھ سے زیادہ افراد کے لیے بجلی اور پانی کی فراہمی بند ہو گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بمباری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
اکتوبر 2019 سے جنوری 2024 تک ترکی نے مشرقی اور شمالی شامی علاقوں میں کردوں کے ماتحت خودمختار علاقوں میں 100 سے زیادہ حملے کیے ہیں۔ بی بی سی کی جانب سے جمع کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق ترکی نے اِن علاقوں میںتیل و گیس کی تنصیبات اور بجلی گھروں کو نشانہ بنایا ہے۔
ان علاقوں میں پہلے ہی خانہ جنگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خشک سالی تھی تاہم ترکی کے حملوں نے اس صورتحال کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔
یہاں پانی کی قلت تو پہلے ہی سے تھی لیکن گذشتہ برس اکتوبر میں بجلی کے انفراسٹرکچر پر حملوں کے نتیجے میں ’الوک‘ نامی علاقے میں پانی کا مرکزی سپلائی سٹیشن مکمل طور پر ناکارہ ہو گیا تھا۔
بی بی سی کو مقامی صورتحال دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہاں لوگ پانی کے حصول کی جی توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
ان حملوں کے حوالے سے ترکی کا کہنا تھا کہ اُن کی جانب سے کرد علیحدگی پسند ’دہشتگردوں‘ کے آمدن کے ذرائع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ترکی کا مزید کہنا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ علاقے میں خشک سالی ہے اور پانی کی سپلائی کے ناقص انتظامات اور انفراسٹرکچر پر عدم توجہ کے سببحالات مزید بدتر ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب کرد گروہ (روجاوا) نے الزام عائد کیا ہے کہ ترکی اس علاقے کے لوگوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔
حسکہ صوبے کے دس لاکھ سے زیادہ لوگ پہلے آلوک سے پانی کی سپلائی پر گزر بسر کرتے تھے لیکن اب ان کا انحصار 20 کلومیٹر دور موجود پمپ سے آنے والے پانی پر ہے۔
ہر روز واٹر ٹینکر کے ذریعے پانی ترجیحی بنیادوں پر سکولوں، یتیم خانوں، ہسپتالوں اور ضرورت مند افراد تک پہنچایا جاتا ہے۔
لیکن پانی کی یہ رسائی ہر کسی کے لیے کافی نہیں ہے۔
حسکہ میں بی بی سی کی ٹیم نے دیکھا کہ لوگ ٹینکرز کا انتظار کر رہے تھے اور ڈرائیوروں کی منتیں کر رہے تھے کہ انھیں پانی فراہم کیا جائے۔
احمد الحمد واٹر ٹینکر کے ڈرائیور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں پانی سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔‘
’لوگوں کو مزید پانی کی ضرورت ہے۔ انھیں آپ سے صرف ایک چیز چاہیے اور وہ ہے پانی۔‘
کچھ لوگ پانی کے لیے لڑائی بھی کرتے ہیں۔ ایک عورت نے ٹینکر ڈرائیور کو دھمکی دی کہ ’اگر تم نے مجھے پانی نہ دیا تو میں ٹینکر کا ٹائر پنکچر کر دوں گی۔‘
شہر کے واٹر بورڈ کے کورآڈینیٹر یحییٰ احمد کا کہنا ہے کہ ’میں آپ کو واضح طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ شمال مشرقی شام انسانی المیے سے دوچار ہے۔‘
اس خطے کے باشندے نہ صرف شامی خانہ جنگی کا شکار ہوئے ہیں بلکہ وہ ترکی اور کردوں کی فوج کے حملوں کا بھیشکار بنے ہیں۔
سنہ 2018 میں امریکہ کی مدد سے ایک کُرد اتحاد بنایا گیا اور اسے ’آنیس‘ کا نام دیا گیا۔ اسی اتحاد نے اسے خطے میں نام نہاد دولت اسلامیہ سے لڑائی کی اور انھیں یہاں سے فرار ہونے پر مجبور کیا۔
اتحادی افواج اب بھی وہاں موجود ہیں تاکہ دولت اسلامیہ کو دوبارہ ابھرنے سے روکا جا سکے۔
آنیس کے اتحادکے زیرِ اثر علاقے کو بین الاقوامی برادری نے خودمختار ریاست تسلیم نہیں کیا ہے اور ترک صدر رجب طیب اردوغان اپنے ملک کی سرحد پر موجود اس علاقے کو ایک ’دہشت گرد ریاست‘ کہتے ہیں۔
ترک حکومت نے کُرد مسلح گروہ کو کُردستان ورکر پارٹی (پی کے کے) کا حصہ ہی قرار دیا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو ترکی میں کرد خودمختاری کے لیے دہائیوں سے لڑ رہا ہے۔
کردستان ورکر پارٹی کو ترکی، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
اکتوبر 2023 اور جنوری 2024 کے درمیان آنیس کے تین علاقوں آمودا، کامیشلی اور داربسییا اور خطے کے مرکزی پاور سٹیشن سوادیہ کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
بی بی سی نے سیٹلائیٹ سے لی گئی تصاویر، عینی شاہدین کی بنائی گئی ویڈیوز، نیوز رپورٹس جائزہ لیا اور جائے وقوعہ کا دورہ کر کے تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات کی تصدیق کی ہے۔
جنوی 2024 سے پہلے اور بعد میں سیٹلائیٹ سے رات کے وقت لی گئی تصاویر کے ذریعے پتا چلتا ہے کہ ان حملوں کے سبب بجلی کی فراہمی بہت بڑے علاقے میں منقطع ہو گئی تھی۔
رانجے شرستا ناسا سے منسلک سائنسدان ہیں جنھوں نے ان تصاویر کا جائزہ لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 18 جنوری کو اس خطے میں بجلی کی بڑے پیمانے پر معطلی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ترک افواج نے سوادیہ، امودا اور کامشلی میں حملے کیے۔ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی داربسیہ میں حملوں کے پیچھے بھی ہے۔
ترکی کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے پی کے کے، پیپلز پروٹیکشن یونٹس اور کردش ڈیموکریٹک یونین پارٹی کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
پیپلز پروٹیکشن یونٹٹس امریکہ کی حمایت یافتہ شامی ڈیموکریٹ فورسز میں سب سے بڑا مسلح گروہ ہے۔ یہ کردش ڈیموکریٹک یونین پارٹی کا ملٹری ونگ ہے۔
ترکی نے بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’سویلینز یا سویلن انفراسٹرکچر کبھی بھی ہمارے نشانے پر نہیں رہے ہیں۔‘
مگر گذشتہ برس اکتوبر میں ملک کے وزیر خارجہ ہاکان فدا نے کہا تھا کہ شام اور عراق میںپی کے کے اور وائے پی جے سے منسلک تمام انفراسٹرکچر اور توانائی کی سہولیات کو ان کی سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس یونٹس کا ’ہدف‘ تھے۔
اس جنگ کے نتائج کو موسمیاتی تبدیلی سے بھی جوڑا جا رہا ہے۔
سنہ 2020 سے شمال مشرقی شام اور عراق کو شدید اور غیر معمولی خشک سالی نے اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے۔
موسم سے متعلق یورپیین کلائمیٹ ڈیٹا کے مطابق گذشتہ 70 سال میںان علاقوں میں درجہ حرارت دو ڈگری بڑھا ہے۔
ایک وقت تھا جب دریائے خابور حسکہ میں پانی کی فراہمی کا ذریعہ تھا، لیکن اب اس کی سطح بہت کم ہو گئی ہے اس لیے لوگ آلوک واٹر سٹیشن سے پانی لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
مگر سنہ 2019 میں ترکی نے راس العین کے علاقے کا کنٹرول حاصل کیا جہاں آلوک بھی واقع ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ ایک ’سیف زون‘ بنانا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے وہ ملک کو دہشت گردوں کے حملوں سے بچا سکے۔
اس کے دو سال کے بعد سے اقوام متحدہ نے آلوک سے شمال مشرقی شام میں مسلسل بنیادوں پر پانی کی سپلائی بند ہونے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ علاقے میں کم ازکم 19 مرتبہ پانی کی سپلائی میں خلل آیا۔
فروری 2024 میں اقوام متحدہ کے ایک آزاد کمیشن نے رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ اکتوبر 2023 میں بجلی کی تنصیبات پر حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے شہریوں تک پانی کی رسائی ختم ہو گئی تھی۔
بی بی سی نے اس حوالے سے جو نتائج اخذ کیے ہیں انھیں بین الاقوامی وکلا کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا ہے۔
ڈاٹے سٹریٹ چیمبر سے منسلک بیرسٹر عارف ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’ترکی کی جانب سے توانائی کے انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے کا سویلین آبادی پر تباہ کن اثر پڑا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بین الاقوامی قانون کی شدید خلاف ورزی قرار دی جا سکتی ہے۔‘
پیٹرک کروکر بین الاقوامی جرائم سے متعلق قانون کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ اطلاعات کہ اس ضمن میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوئی ہے وہ اتنی سخت نوعیت کی ہیں کہ ان کی تحقیقات ہونی چاہییں۔‘
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کا مکمل طور پر احترام کرتی ہے۔
ترک حکومت کا مزید کہنا ہے کہ فروری 2024 میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں عائد کیے گئے ’بے بنیاد الزامات‘ کےکوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں۔
ترکی کا دعویٰ ہے کہ اس خطے میں پانی کی کمی کی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور طویل عرصے تک انفراسٹرکچر کو نظر انداز کیا جانا ہے۔
حسکہ کے مکینوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ انھیں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔
اسامہ گاڈو علاقے کے واٹر بورڈ میں پانی کی جانچ کرنے سے منسلک ٹیم کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہم میں سے بہت سوں نے اس جنگ میں زندگی کی بازی ہار دی۔ لیکن ہمیں بچانے کے لیے کوئی بھی نہیں آیا۔ ہم تو بس پانی ہی مانگ رہے ہیں۔‘
اضافی رپورٹنگ: احمد نور اور اروان ریوالٹ