پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے اپر چترال کے سنگم پر پہاڑوں کے درمیان خوبصورت گاؤں گرین لشٹ کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث بہت نقصان پہنچا ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی، بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے آئندہ برسوں میں مقامی سطح پر مذید تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
10ویں جماعت کی طالبہ عائزہ علی کو آج بھی وہ دن یاد ہے جب ان کے والد نے سب کو نیند سے یہ کہتے ہوئے اٹھایا تھا کہ ’اُٹھو! سیلاب آ گیا ہے۔۔۔‘
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے اپر چترال سے تعلق رکھنے والی عائزہ کے والد مقامی کاشتکار تھے جن کے اپنے باغات، کھیت اور جنگلات تھے۔
یہ خاندان دریائے چترال کے سنگم پر پہاڑوں کے درمیان خوبصورت گاؤں گرین لشٹ میں اپنے دو منزلہ گھر میں خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ قریب پہاڑوں کی چوٹیوں پر جمی سفید برف اور اردگرد گلیشیئرز کے نظارے اس گاؤں کو اور بھی حسین بنا دیتے تھے۔
لیکن پھر اچانک موسم میں ایسی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں جس سے وہی خوبصورت گلیشیئرز پگھلنے لگے، دریاؤں میں پانی کی سطح بلند ہونے لگی۔ کہیں دریا پھیلنا شروع ہوئے تو کہیں پانی نے اپنا رُخ ہی تبدیل کر لیا۔
رواں سال آنے والے اس سیلاب کو یاد کرتے ہوئے عائزہ بتاتی ہیں کہ ’ہم ہڑبڑا کر اُٹھے۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاتھ جو سامان آیا وہ اٹھایا اور گھر سے نکل کر ماموں کے گھر چلے گئے۔‘
پھر آٹھ افراد پر مشتمل محمد علی کا خاندان اپنا گھر چھوڑ کر ایک چھوٹے سے دو کمروں کے کوارٹر میں منتقل ہوگیا۔ عائزہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے ایسے رہنا بہت مشکل ہے اور ’مجھے تو اپنا گھر بہت یاد آتا ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’ابو پر قرضہ ہے، اس لیے ہمیں پرائیویٹ سکول سے نکال کر سرکاری سکول میں داخل کر دیا ہے۔‘
محمد علی اور ان کے خاندان کے لیے یہ چھوٹا سا گاؤں کسی جنت سے کم نہیں تھا۔ تاہم اس سیلاب کے بعد وہ مقروض ہوچکے ہیں اور اب اپنے بیٹوں سمیت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
ایک مالک مکان جو پہلے بے گھر ہوا اور پھر مقروض
محمد علی کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹی کی شادی ہو چکی ہے جبکہ باقی اہل خانہ ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔
ان دنوں ان کی زندگی کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں ہے۔ اس گاؤں میں صرف محمد علی ہی نہیں بلکہ 16 سے زیادہ ایسے خاندان ہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک تو خوشحال تھے لیکن پھر ان کی زندگی راتوں رات بدل گئی۔
اس گاؤں میں دریا نے کچھ عرصہ پہلے زمین کو کاٹنا شروع کر دیا تھا۔ یہ سلسلہ 2010 سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔
محمد علی نے بتایا کہ 2015 میں ان کے گاؤں کے سامنے دریا کی دوسری جانب ایک چھوٹے سے دیہات میں دریا کے مسلسل کٹاؤ سے سارے مکان پانی میں بہہ گئے تھے۔ ’لیکن پھر اس سے اگلے سال کچھ نہیں ہوا۔ ہم سمجھے کہ بس اب ٹھیک ہو گیا ہے۔‘
لیکن ایک خوف ضرور تھا کہ کہیں یہ دریا ان کی طرف نہ آ جائے۔ 2020 تک دریا کا کٹاؤ جاری رہا اور پھر اچانک ایک رات وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ دریا کا رُخ ان کے گاؤں کی طرف ہو گیا۔ بپھرا ہوا دریا اپنے ساتھ کچھ بہا کر ساتھ لے گیا۔
محمد علی نے بتایا کہ اس کے بعد نہ تو ان کے باغات رہے، نہ مویشی اور نہ ہی ان کے کھیت اور جنگل بچے۔ بلکہ سب کچھ ایک چٹیل میدان بن چکا تھا۔
محمد علی نے بتایا کہ ان کے باغوں میں سیب، انار اور ناشپاتی ہوتے تھے جبکہ کھیت میں گندم، مکئی اور چاول کاشت ہوتے تھے۔
خوبصورت وادی جو کھنڈر بنی
اپر چترال کی ویلج کونسل ریشون کے ایک چھوٹے دیہات گرین لشٹ میں سڑک کنارے ایک مکان کو تالا لگا ہوا تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ مکان کوئی تین مرتبہ پانی کے کٹاؤ سے گر چکا ہے اور مالک مکان نے تین مرتبہ دریا سے تھوڑا ہٹ کر کمرے بنائے۔
’لیکن وہ پھر گِر جاتے ہیں۔ اس لیے اب وہ یہ مکان چھوڑ کر یہاں سے نقل مکانی کر گئے ہیں۔ چابی قریبی دکاندار کو دی ہے کہ وہ رکھوالی کر سکے۔‘
مکان کے اندر لکڑی اور کمروں کا ملبہ پڑا تھا اور اکثر کمروں میں دراڑیں بھی واضح نظر آ رہی تھیں۔
مکان سے باہر نکلے تو بتایا گیا کہ یہاں دکانیں تھیں لیکن اب صرف ان کی کچھ باقیات ہیں۔ یہاں ایک پیٹرول پمپ بھی تھا لیکن اس کے آٰثار بھی مٹ چکے تھے۔
اس گاؤں میں حیران کن طور پر جہاں مکان یا کھیت تھے، ان کے ساتھ گہری کھائی اور نیچے دریا بہہ رہا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مکان کے کمرے اس کھائی میں گر رہے ہیں۔ لوگ اس کے قریب جانے سے بھی کترا رہے تھے۔
شہادت بی بی ایک بیوہ ہیں جن کا مکان چند سال قبل پانی میں بہہ گیا تھا۔ اب وہ اپنی بہو اور بیٹی کے ساتھ ایک خیمے میں رہتی ہیں۔
وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ان کی زندگی بہت مشکل ہے۔ ’رہنے کے لیے گھر نہیں اور کھانے پینے کے لیے سخت جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔‘ شہادت بی بی کے دو بیٹے ہیں اور اب وہ اس کوشش میں ہیں کہ اپنے مکان پر ایک چھت ڈال دیں۔
نوجوان محی الدین دریا میں گھر بہہ جانے کے بعد علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان کی آبائی زمین بھی نہیں رہی۔ شاید اسی لیے چترال میں زمین کی کٹائی کو ’زمین کی موت‘ بھی سمجھا جاتا ہے۔
گرین لشٹ کے اس علاقے میں اب مقامی لوگ اپنے ہی دیہات میں بے گھر ہیں۔ کسی کے پاس کچا مکان ہے تو کوئی خیموں میں رہ رہا ہے اور کوئی یہاں سے نقل مکانی کر گیا ہے۔
’بڑے گلیشیئر پگھلنے لگے تو پورے چترال کو خطرہ ہو گا‘
پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے بُری طرح متاثر ہو رہا ہے اور ایسے میں پاکستان کے بالائی پہاڑی علاقوں میں گاؤں کے گاؤں تباہ ہو رہے ہیں۔
چترال اور دیگر بالائی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے دریاؤں میں کہیں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے تو کہیں دریا وسعت اختیار کرتے جا رہے۔ اور کہیں یہ دریا اپنا رُخ تبدیل کر رہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی پر کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ شاہد اقبال کے مطابق 2010 سے اب تک اپر چترال کی ویلج کونسل ریشون میں 111 مکان مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ اگر ستمبر 2019 سے اب تک کا جائزہ لیں تو اس دوران 47 مکان تباہ ہوئے ہیں۔
چترال میں سائل اینڈ واٹر کنزرویشن کے محکمے کے انچارج مجیب الرحمان نے بتایا کہ گلیشیئرز کے پگھلنے سے دریا میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے اور اب بھی ایسے گلیشیئرز ہیں جن میں دراڑیں پائی جاتی ہیں۔ ’اگر اگلے سال گرمیوں میں درجہ حرارت میں اسی طرح اضافہ ہوتا گیا تو اس سے تباہی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ چند برسوں سے دریا کے کٹاؤ سے 50 کے لگ بھگ دیہات تباہ ہوئے ہیں جبکہ 100 ایسے دیہات ہیں جنھیں جزوی نقصان پہنچا ہے۔
دنیا میں انٹارکٹکا کے بعد سب سے زیادہ گلیشیئرز پاکستان میں پائے جاتے ہیں اور ان میں 550 بڑے گلیشیئرز چترال میں ہیں جو اس علاقے کا 13 فیصد بنتا ہے۔
عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے شعبہ ماحولیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شمس علی بیگ کے مطابق چترال کا ایک تہائی حصہ ان گلیشیئرز اور اس سے جڑے دریاؤں پر ہے اور اگر حالات ایسے ہی رہے اور درجہ حرارت میں اضافہ اور موسمی تبدیلی جاری رہی تو آئندہ برسوں میں یہ ایک تہائی حصہ اپنی اس موجودہ حالت میں برقرار نہیں رہ سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خطے میں بڑی تعداد میں گلیشیئرز ہیں اور اب تک چھوٹے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں۔ ’کہیں یہ حالت بڑے گلیشیئرز پر آئی تو مکمل چترال کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘
حکومت کی جانب سے اس بارے میں اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب بھی متعدد ایسے دیہات ہیں جنھیں اس دریا اور اس کی کٹائی سے مسلسل خطرہ لاحق ہے۔
اپر چترال میں ویلج کونسل ریشون کے دورے کے دوران گرین لشت دیہات کی تباہی کے اٰثرات واضح نظر آتے ہیں جہاں مکانات، دکانوں، باغات اور فصلوں کے علاوہ دیگر املاک تباہ ہو چکے ہیں۔
گرین لشت کے مقام پر پانی دو بار پوری سڑک بہا لے گیا جس وجہ سے بونی اور مستوج کی طرف جانے کے لیے متبادل راستہ بنایا گیا۔
مقامی ویلج کونسل کے چیئر مین اشفاق احمد افضل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سڑک کنارے یہاں مکان تھے، دکانیں تھیں اور جس سڑک پر ہم جا رہے ہیں یہاں مکان تھے، یہ تو اب متبادل راستہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے یہاں حفاظتی دیوار بنائی گئی تھی جس کا بڑا حصہ اب گر گیا ہے۔ ان کے بقول وہ اس بارے میں حکام سے رابطے کر رہے ہیں لیکن اب تک کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ ریشون میں لوگ ان حالات کی وجہ سے احتجاج بھی کر رہے ہیں۔
مقامی رہائشی منصور کا کہنا تھا کہ عام طور پر سرکاری کام معیاری نہیں ہوتا جس کی وجہ سے یہ تباہی ہو جاتی ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کنکریٹ کی دیوار بنائی جائے اور چترال میں موسم کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے، اس کے لیے بہترین وقت ستمبر سے دسمبر تک ہوتا ہے۔
’لیکن یہاں جب تک بجٹ میں مختص رقم جاری ہوتی ہے تب تک موسم تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔‘
حکومت کیا کر رہی ہے؟
اگرچہ لوئر چترال سے اپر چترال کی جانب جائیں تو دریا کے کنارے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد منہدم یا تباہ شدہ مکانات کے باقیات نظر آتے ہیں۔ یہ آثار دروش اور ایون کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی دیکھے جاتے ہیں۔
چترال کے مقامی صحافی سیف الرحمان عزیز کا کہنا ہے کہ اپر چترال میں مستوج کے ساتھ برپ کا علاقہ انتہائی متاثر ہوا ہے جہاں بڑی تعداد میں مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔
اس بارے میں چترال میں خیبر پختونخوا کے سائل اینڈ واٹر کنزرویشن کے محکمے میں انچارج مجیب الرحمان نے بتایا کہ مختلف مقامات پر دریا کے کٹاؤ سے بچاؤ اور متاثرین کی مدد کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں لیکن یہاں بنیادی مسئلہ موسمی رجحانات میں تبدیلی کا بھی ہے، جیسے رواں سال جنوری اور فروری میں برف نہیں پڑی لیکن اپریل میں برفباری ہوئی ہے۔
ان کے بقول تعمیراتی حفاظتی کام موسم کی وجہ سے بھی نہیں ہو پاتے اور کچھ مسائل بجٹ کی منظوری کے بعد فنڈز ریلیز ہونے میں تاخیر سے بھی ہوتے ہیں۔
ویلج کونسل ریشون کے چیئر مین اشفاق احمد افضل نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے 60 ملین روپے جاری کیے گئے تھے جس سے یہاں گرین لشٹ اور قریبی دیہاتوں میں کام ہوا ہے جس میں ایک جگہ 400 فٹ کنکریٹ کی دیوار بنائی گئی ہے اور ایک جگہ 700 فٹ لمبی حفاظتی دیوار بنائی گئی ہے۔
’لیکن یہ دیواریں زیادہ مضبوط نہیں تھیں، اس وجہ سے ان سے فائدہ نہیں ہو سکا۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے برعکس آغا خان ایجنسی نے ایک دیوار بنائی ہے جو کافی بہتر ہے۔
اس بارے میں حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس بڑا علاقہ ہوتا ہے اور زیادہ جگہوں پر کام کرنا ہوتا ہے لیکن سیلاب اور پانی کے ریلوں کے علاوہ گلاف سے آنے والے پانی کی نوعیت اور دریا کے کنارے زمین کی خاصیت مختلف ہوتی ہے۔
وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے ماحولیات کے بارے میں مشیر پیر مصور سے رابطے کی بارہا کوشش کی گئی لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
جب صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے محکمہ ماحولیات کے حکام سے فراہم کردہ معلومات فراہم کیں۔
ان میں کہا گیا ہے کہ گلیشیئرز سے آنے والے پانی سے بچاؤ کے لیے حفاظتی دیواریں باقاعدہ انجینیئرنگ کے طریقہ کار کے مطابق تعمیر کی جاتی ہیں تاکہ یہ دیواریں گلوف کا مقابلہ کر سکیں اور اس کے لیے مقامی آبادی کی تجاویز کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ دیواریں قدرتی آفات کا مکمل مقابلہ نہیں کر سکتیں لیکن یہ خطرات کو کم کر سکتی ہیں اور بڑی حد تک تحفظ فراہم کرنے میں مدد گار ہوتی ہیں۔
ان کے مطابق اب تک ان دیواروں کی تعمیر میں کسی قسم کے سٹرکچر کی ناکامی کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہیں۔
عالمی سطح پر پیدا ہونی والی آلودگی اور کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کلیمیٹ چینج کے مضر اثرات اور تباہی میں پاکستان پہلے پانچ ممالک میں شامل ہے ۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے تباہی کے واضح اثرات نظر آ رہے ہیں لیکن عالمی سطح پر اس کے تدارک کے لیے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔