دوسری جنگ عظیم کے بعد سکاٹ لینڈ کے مفلوک الحال شہر گلاسگو کو صحت عامہ جو مسئلہ درپیش تھا اسے بڑے پیمانے پر ایک بحران قرار دیا گيا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سکاٹ لینڈ کے مفلوک الحال شہر گلاسگو کو صحت عامہ جو مسئلہ درپیش تھا اسے بڑے پیمانے پر ایک بحران قرار دیا گيا تھا۔
سنہ 1957 میں اس شہر میں تپ دق (ٹی بی) سے مرنے والوں کی شرح اموات یورپ میں سب سے زیادہ تھی۔ صحت کے حکام نے جانچ کی ایک پرجوش 'ایکس رے ناؤ' مہم شروع کی جس میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی سکریننگ کی گئی اور اس کے تحت پانچ ہفتوں میں 700,000 سے زیادہ افراد کو دیکھا گیا۔
12,000 رضاکاروں کی فوج نے گلاسگو کی تقریباً تین چوتھائی آبادی کو طبی معائنہ کروانے کے لیے متحرک کیا، صحت کے حکام نے ایکسرے کروانے والوں کے لیے مفت انعامی قرعہ اندازی کی پیشکش کی۔
اس میں ٹی وی، چھٹیاں گزارنے اور کاریں جیتنے کے لیے قرعہ اندازی شامل تھی لیکن اس میں سگریٹ، چکن اور چاکلیٹ جیسے غیر روایتی انعامات بھی شامل تھے۔
سنہ 1957 کے پروگرام کی شاندار کامیابی کا مطلب یہ تھا کہ ٹی بی میں مبتلا 2,369 افراد کی تشخیص کی گئی اور ان کا علاج کیا گیا لیکن گلاسگو یونیورسٹی کی زیر قیادت ایک نئی تحقیق نے اس مہم کے وسیع تر فوائد بتائے ہیں۔
محققین نے پایا کہ جہان سکریننگ پروگرام نے شہر میں ٹی بی کو بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روکا وہیں اگلے پانچ سالوں میں ایک اندازے کے مطابق 4,599 کیسز کو روکا گیا، جس سے بے شمار جانیں بچ گئیں۔
گلاسگو یونیورسٹی میں عالمی صحت عامہ کے پروفیسر پیٹر میکفرسن نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ 1957 سے سیکھے جانے والے اسباق آج بھی ٹی بی کے خاتمے کی کوششوں میں مدد کر سکتے ہیں کیونکہ یہ بیماری اب بھی دنیا بھر میں ایک سال میں 12 لاکھ سے زیادہ افراد کی جانیں لے رہی ہے۔
انھوں نے کہا: 'اس قدر بڑے پیمانے پر جانچ کا بہت بڑا اثر ہوا، اس نے جہاں ٹی بی کے شکار لوگوں شناخت کی شرح کو دوگنا کر دیا وہیں اس نے واقعاتاً کیسز میں تیزی سے کمی کی۔
’پروگرام کی سطح اور پیمانے کے لحاظ سے دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’تاریخی طور پر جو کچھ کیا گیا ہے اس سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقی عوامی کوشش تھی۔ لوگ اپنے پڑوسیوں کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے کیونکہ اس وقت شاید ہر کوئی (اپنے پڑوس میں) کسی ایسے شخص کو جانتا تھا جو ٹی بی سے متاثر تھا۔‘
گلاسگو میں تیز رفتار جانچ یا سکریننگ کے پروگرام میں مجموعی طور پر 37 موبائل ایکس رے یونٹس اور ریڈیوگرافرز شامل تھے جو برطانیہ بھر کے شہروں سے وہاں پہنچے تھے۔
اس پروگرام کے اشتہار کے لیے لاؤڈ سپیکر وین کے ساتھ ایک روشن ٹرام کار شہر میں چکر لگاتی نظر آتی تھی، ہوائی جہاز کے بینر سے تشہیر اور فٹ بال میچوں میں نشر ہونے والے دو خصوصی مہم کے گیت بھی شامل تھے۔
جس کسی نے سینے کا ایکسرے کروایا انھیں ایک بیج ملا اور جن لوگوں کو کسی رینڈم سروے میں بیچز پہنے ہوئے دیکھا گيا انھیں چاکلیٹ، چکن اور سگریٹ جیسے چھوٹے موٹے تحائف دیے گئے۔
شرکا کے لیے انعامی قرعہ اندازی بھی کی گئی جس میں فریج، ٹی وی، واشنگ مشین، چھٹیاں گزارنے، فرنیچر اور ایک کار بھی شامل تھی۔
پروفیسر میکفرسن نے کہا کہ کچھ سگریٹ جیسے کچھ انعامات ایسے ہیں ’جن کی ہم آج کل سفارش نہیں کریں گے‘ لیکن انھوں نے مزید کہا کہ مطالعے پر کام کرنے والے محققین پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے رضاکارانہ کوششوں کے پیمانے سے متاثر ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ ’12,000 رضاکار قابل ذکر تھے، گلاسگو کے لوگ واقعی گھر گھر جا کر لوگوں کو آگے آنے کی ترغیب دینے کے لیے اکٹھے ہوئے۔‘
ٹی بی بنیادی طور پر غربت سے منسلک بیماری ہے۔
’جنگ کے بعد گلاسگو میں ٹی بی کی یورپ میں سب سے زیادہ شرح تھی اور اس کی وجہ زیادہ بھیڑ اور غیر معیاری رہائش اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ناقص غذائیت اور فضائی آلودگی تھی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آج کل ٹی بی کے انفیکشن کے مراکز افریقہ، ایشیا اور جنوبی امریکہ ہیں جبکہ ہمارے پاس ٹی بی کی جانچ کے لیے رہنما اصول موجود ہیں لیکن ہم واقعی اس سے نابلد ہیں کہ اس میں کیا چیز کام کرتی ہے۔ ایسے میں گلاسگو کے تاریخی شواہد ان مقامات کی واقعی مدد کر سکتے ہیں۔‘
ٹی بی کی علامات کیا ہیں؟
ٹی بی ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے جو متاثرہ شخص کی کھانسی یا چھینک سے پھوٹنے والی چھوٹی چھوٹی بوندوں سے پھیلتا ہے۔
اگرچہ ٹی بی کا علاج اینٹی بائیوٹکس سے کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا تخمینہ ہے کہ گذشتہ سال دنیا بھر میں تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ افراد ٹی بی سے بیمار ہوئے جن میں سے دس لاکھ سے زیادہ کی موت ہو گئی۔
ٹی بی کی عام علامات میں مندرجہ ذیل علامات شامل ہیں:
- تین ہفتوں سے زیادہ دنوں تک رہنے والی مستقل کھانسی۔
- وزن میں کمی
- رات کو پسینہ آنا
- زیادہ درجہ حرارت یا بخار
سکاٹ لینڈ میں بڑھتے ہوئے کیسز
پبلک ہیلتھ سکاٹ لینڈ کے اعداد و شمار نے گذشتہ ماہ انکشاف کیا کہ سکاٹ لینڈ میں ٹی بی کے کیسز کی تعداد میں صرف سنہ 2023 میں 40 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 2017 کے بعد سب سے زیادہ تعداد تک پہنچ گئی ہے۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2022 میں 201 کے مقابلے میں گذشتہ سال اس بیماری کے 283 کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔
پبلک ہیلتھ سکاٹ لینڈ نے کہا کہ بیرون ملک پیدا ہونے والے لوگوں میں اس بیماری کے واقعات برطانیہ میں پیدا ہونے والے لوگوں کے مقابلے میں 19.2 گنا زیادہ ہیں اور ٹی بی کے کیسز اور کم آشائس والے علاقوں کے درمیان ایک ’مضبوط‘ تعلق باقی ہے۔
پروفیسر میکفرسن نے کہا کہ اس اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سکاٹ لینڈ جیسے کم واقعات والے ملک کو بھی چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے اور انھوں نے مزید کہا کہ کووڈ وبائی امراض کے اثرات نے ٹی بی کے کیسز کی تشخیص میں خلل ڈالا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ٹی بی کی علامات کچھ حد تک کووڈ سے ملتی جلتی ہیں لہٰذا کووڈ پر بہت زیادہ توجہ دینے کے ساتھ اس وقت آپ کو ٹی بی کے معاملات کی مناسب جانچ نہیں کی گئی ہوگی۔‘