سوویت دور کا پراسرار تیرتا ہوا شہر جو غرقاب جہازوں پر آباد ہے

بحیرہ کیسپین یا بحیرۂ قزوین یا بحیرۂ خزر کے وسط میں ایک انسان ساختہ جزیرہ نیفت دشلاری ہے جہاں ناقابل یقین سٹیل کے ٹاورز، زنگ آلود پائپ لائنیں، لکڑی کے پل، اور سوویت دور کی عمارات آپ کو دعوت نظارہ دیتی ہیں
نیفت دشلای
Getty Images
نیفت دشلاری نامی شہر غرقاب جہازوں اور کشتیوں پر تعمیر کیا گیا ہے

نیفت دشلاری میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ یہ بحیرہ کیسپین یا بحیرۂ قزوین یا بحیرۂ خزر کے وسط میں ایک انسان ساختہ جزیرہ ہے جہاں ناقابل یقین سٹیل کے ٹاورز، زنگ آلود پائپ لائنیں، لکڑی کے پل، اور سوویت دور کی عمارات آپ کو دعوتِ نظارہ دیتی ہیں۔

تاہم یہ کسی نقشے پر نظر نہیں آتی ہیں لیکن اگر آپ نے جیمز بانڈ سیریز کی سنہ 1999 میں آنے والی فلم دیکھی ہے تو اس میں اس کی جھلک نظر آتی ہے۔

اس کی تاریخ سنہ 1940 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے جب روسی حکمراں جوزف سٹالن نے اس کے پلیٹ فارم کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ انھیں یہ پتا چلا تھا کہ اس خطے میں بحیرہ خزر کی سمندری تہہ کے نیچے تیل موجود ہے اور اس کے بعد ہی انھوں نے وہاں تعمیرات کا حکم دیا تھا۔

دارالحکومت باکو سے تقریباً 55 کلومیٹر کے فاصلے پر آذربائیجان کے ساحل پر واقع نیفت دشلاری کا مطلب ’تیل کی چٹانیں‘ ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق یہ شہر دنیا کا قدیم ترین آف شور آئل پلیٹ فارم بھی ہے۔

یہ جگہ عین باکو میں ہے جہاں اگلے ہفتے سنہ2024 کی 29ویں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس سی او پی 29 منعقد ہو رہی ہے۔

ڈوبے ہوئے جہازوں پر بنایا جانے والا شہر

یاد رہے کہ سنہ 1920 کی دہائی کی ابتدا میں ریڈ آرمی آذربائیجان میں داخل ہوئی اور اسے یو ایس ایس آر (سوویت سوشلسٹ جمہوریہ کی یونین) میں شامل کر لیا اور سوویت یونین کی تحلیل سے قبل تک یہ ملک اکتوبر سنہ 1991 تک سوویت بلاک سے تعلق رکھتا رہا۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران سوویت توانائی کی حکمت عملی کے تحت آذربائیجان اہم تھا کیونکہ مشرقی محاذ پر استعمال ہونے والا زیادہ تر تیل باکو سے آتا تھا۔

نیفت دشلاری کو ابتدائی طور پر سٹالن کے پانچ سالہ منصوبے کے ایک حصے کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا۔ روس کا اس پانچ سالہ منصوبے کا مقصد اقتصادی ترقی، خاص طور پر صنعتی ترقی تھا اور یہ بعد میں سوویت بیوروکریسی کی پہچان بن گیا۔ تاہم ان میں سے بہت سے منصوبے مکمل نہیں ہوئے جبکہ کچھ ترک کر دیے گئے اور کچھ ناکام ہو گئے۔

نیفت دشلاری کی تعمیر 7 نومبر 1949 کو تیل کی پہلی کامیاب تلاش کے بعد شروع ہوئی۔ یہ خطہِ وسطی ایشیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک نکلا۔

آذربائیجان کی سرکاری تیل کمپنی سوکار کی ویب سائٹ کے مطابق ’سات نومبر کو وہاں کے کنویں نے تیل کا ایک گشر (100 ٹن یومیہ) پیدا کرنا شروع کیا جو کہ دنیا کی پہلی آف شور تیل کی پیداوار کو نشان زد کرتا ہے۔‘ اور اس کے ساتھ آذربائیجان بحیرہ قزوین کے کھلے حصے میں تیل کے ذخیروں کو تلاش کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔

جو جگہ ایک چھوٹے سے تیل نکالنے کے پلیٹ فارم کے طور پر شروع ہوئی جہاں مزدوروں کے رہنے کے لیے ایک سادہ گھر بھی تھا وہ سنہ 1951 کے بعد ایک بڑی تعمیرات کا حصہ بن گيا۔

نیفت دشلاری
Getty Images
آئل راکس یا نیفت دشلاری کو ابتدائی طور پر سٹالن کی قیادت میں پانچ سالہ منصوبے کے تحت بنایا گیا تھا

فلم ساز مارک وولفنسبرگر نے سنہ 1990 کی دہائی کے آخر میں اس سائٹ کا دورہ کرتے ہوئے اسے ایک ’تعمیراتی اور تکنیکی معجزہ‘ قرار دیا۔

آف شور پلیٹ فارم کی تعمیر کو تیز کرنے کے لیے ایک انوکھا طریقہ اپنایا گیا۔ اس کے لیے بے کار ہو جانے والے جہازوں اور کشتیوں کو ان کے ڈھانچے کی بنیادوں کے طور پر استعمال کرنے کے لیے غرقاب کیا گیا اور ان پر عمارتوں کے ستون کھڑے کیے گئے۔

ان جہازوں میں سے ایک بحری جہاز زوراسٹر بھی تھا جو دنیا کا پہلا آئل ٹینکر تھا۔ اس جہاز کو الفریڈ نوبل کے بھائی لڈوگ نوبیل نے 19ویں صدی کے آخر میں تیل کی نقل و حمل کے حل کے طور پر بنایا تھا۔

سنہ1951 میں جزیرے کو ہواؤں اور لہروں سے بچانے کے لیے خزر ٹینکر اور خزردونانما کمپنیوں کے چھ اضافی جہازوں کو ناکارہ کر کے یہاں لایا گیا اور انھیں نصف طور پر ڈبو دیا گيا جس سے جزیرے کے گرد ایک مصنوعی خلیج پیدا ہو گئی۔ سوکر ویب سائٹ کے مطابق انہی سات جہازوں کی وجہ سے اس جگہ کا اصل نام ’سات جہازوں کا جزیرہ‘ پڑا۔

ان جہازوں کو بنیاد بنا کر ان پر میس ہال، میڈیکل سٹیشن، ڈرلنگ کے عملے کے لیے ہاسٹل اور دیگر سہولیات بنائی گئیں۔

بعد میں یہ مصنوعی جزیرہ اسی نام سے مشہور ہوا اور آج تک اسی نام سے جانا جاتا ہے۔

رہائشی تعمیرات

اس کے بعد کے سالوں کے دوران نیفت دشلاری سمندر میں ایک دیو ہیکل آکٹوپس کی شکل والے شہر کی طرح پروان چڑھا۔

وہاں کام کرنے والوں کی رہائش کے لیے عمارتوں کے بلاکس، ایک بیکری، دکانیں، طبی مراکز، فٹ بال کا میدان، ایک ہیلی پورٹ کے ساتھ ساتھ ایک تھیٹر کی بھی تعمیر ہوئی۔

آذربائیجان کے تیل اور گیس کے شعبے میں انسانی حقوق پر توجہ دینے والی تنظیم کے ڈائریکٹر میرواری گہرامانلی نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ نیفت دشلاری کو سطح سمندر سے کئی میٹر بلند دھاتی ستونوں پر بنایا گیا ہے اور ان کی بنیاد کے ستون سمندر کے فرش پر ہیں۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب بھی وہاں بنائی جانے والی رہائشی عمارتیں، ایک میڈیکل اور سینیٹری ڈیپارٹمنٹ اور دکانیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ’اسٹیل کی گودیوں پر درخت لگائے گئے ہیں اور ایک پارک بھی بنایا گیا ہے۔‘

یہ تصوریہ سنہ 1997 میں لی گئی تھی
Getty Images
نیفت دشلاری پر تعمیرات کی یہ تصوریہ سنہ 1997 میں لی گئی تھی

اپنی نوعیت کا پہلا آئل فیلڈ

گہرامانلی نے کہا کہ ’نیفت دشلاری کو پوری دنیا میں کھلے سمندر میں دریافت کیا جانے والا پہلا میدان سمجھا جاتا ہے۔ اور اس جگہ کو اپنی انفرادیت کی وجہ سے کبھی کبھی دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے جو کہ سات کشتیوں تر آباد عجائبات کا جزیرہ ہے۔‘

آئل فیلڈ پر مبنی یہ جزیرہ تقریباً 12 کلومیٹر لمبا اور 6 کلومیٹر چوڑا ہے اور گہرامانلی کے اعداد و شمار کے مطابق اس علاقے میں تقریباً 2000 کنوئیں کھودے گئے ہیں اور تقریباً 200 کلومیٹر لمبے سطح سمندر سے اوپر بلند واک ویز بنائے گئے ہیں۔

اپنے ابتدائی سالوں میں جزیرے میں تقریباً 5,000 افراد رہائش پذیر تھے۔ گہرامانلی کے مطابق آج تقریباً 3,000 کارکن وہاں رہتے ہیں جو 15 دن سمندر میں اور 15 دن خشکی پر گزارتے ہیں۔

نیفت دشلاری آذربائیجان کی سرکاری تیل کمپنی سوکر سے تعلق رکھنے والا ایک کمپلیکس ہے، جو تیل، گیس اور گیس کے کنڈینسیٹس کی پیداوار، پروسیسنگ اور نقل و حمل کے ساتھ ساتھ تیل، گیس اور ان سے بننے والی چیزوں کی فروخت کے لیے ذمہ دار ہے۔

سوکر کے مطابق یہ جزیرہ بحیرہ کیسپین میں نکلنے والے تیل کی پیداوار کے تاج میں ایک زیور تھا اور اس نے اپنی 75 سالوں کی خدمات میں تقریباً 180 ملین ٹن تیل پیدا کیا۔ سنہ 1967 میں اپنے عروج کے زمانے میں اس نے 76 لاکھ ٹن نکالا تھا۔

سوکر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فی الحال وہاں یومیہ تیل کی پیداوار کم ہے اور روزانہ تقریباً 3,000 ٹن تیل نکلتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوں گے اور باکو میں اگلے ہفتے اس سلسلے میں اجلاس ہو رہا ہے
Getty Images
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہوں گے اور باکو میں اگلے ہفتے اس سلسلے میں اجلاس ہو رہا ہے

بتدریج کمی

اس جزیرے پر بطور خاص سنہ 1960 کی دہائی میں بہت تیزی آئی تھی۔ لیکن پھر اگلی دہائی سے تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور سوویت روس کے سست زوال کی وجہ سے اس کی شان و شوکت میں رفتہ رفتہ کمی آنے لگی۔

جرمن اخبار ڈیر اشپیگل کے مطابق سنہ 2012 میں اس کی 300 کلومیٹر سڑکوں میں سے صرف 45 کلومیٹر ہی گزرنے کے قابل تھیں۔ دستاویزی فلم ’آئل راکس: سٹی ابو دی سی‘ میں فلمساز مارک وولفنسبرگر نے اس کی کچھ تصویر کشی کی ہے۔

ایک مقامی کارکن کیمرے میں دیکھ کر بولتا ہے کہ ’جب میں چھوٹا تھا تو یہ تمام سڑکیں اچھی حالت میں تھیں‘۔ وہ سڑک پر ایک شور مچانے والے ٹرک میں سفر کر رہا تھا۔ اس کے بعد اگلے منظر میں لاوارث، خستہ حال اور زنگ آلود عمارتوں کو دکھایا جاتا ہے۔

اس کی بناوٹ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جزیرے کے ڈوبنے کے خطرے کے بارے میں پوچھے جانے پر، میرواری گہرامانلی زور دے کر بتاتے ہیں کہ ’جزیرہ ڈوبنے والا نہیں ہے، اور ابھی اسے اس خطرے سے دوچار ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ نیفت دشلاری سمندر میں واقع ایک سٹریٹجک سہولت ہے۔ وہاں سمندری فرش اور کنویں ہیں، وہاں کھدائی، تعمیر، تنصیبات وغیرہ ہوئی ہیں۔‘

اس جگہ کی اپ ڈیٹ یا تازہ تصاویر یا ویڈیو تلاش کرنا آسان نہیں ہے۔

تجسس کے لیے سوکر نے اپنی ویب سائٹ پر اس علاقے میں فلمائی گئی تمام پروڈکشنز کو شامل کر دیا ہے۔ ان میں سنہ 1990 کی دہائی کے آخر میں آنے والی جیمز بانڈ کی فلم ’دی ورلڈ از ناٹ اینف‘ بھی شامل ہے۔

اگرچہ ہیلی کاپٹر یا کشتی کے ذریعے وہاں پہنچنا ممکن ہے لیکن اپنی نوعیت کی وجہ سے یہ آسانی سے قابل رسائی جگہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ سیاحوں کے لیے ہے۔ تاہم تیل کی پیداوار میں کمی اور جزیرے کے ڈھانچے کی ظاہری خرابی کے باعث اس کے سیاحتی مقام بننے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

میرواری گہرامانلی کہتے ہیں کہ ’شہر کا مستقبل ایک سمندری تفریحی مقام اور سیاحتی مرکز کے طور پر ہے۔‘

تاہم، کمیونیکیشنز ارتھ اینڈ انوائرمنٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بحیرہ کیسپین کا بیسن سنہ 2100 تک 18 میٹر تک نیچےجا سکتا ہے جس کے بعد نیفت دشلاری کا سطح سمندر سے اوپر کا 34 فیصد رقبہ غرقاب ہو سکتا ہے۔

تحقیق میں سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر موجودہ سطح پر آلودگی پھیلانے والی گیسوں کا اخراج جاری رہا تو اس صدی کے آخر تک پانی کا یہ جسم 9 سے 18 میٹر تک بڑھ جائے گا۔

دریں اثنا، صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر سی او پی-29 ایک بار پھر آنے والے دنوں میں ہمارے سیارے کی آب و ہوا کے حال اور مستقبل پر بحث کرے گا۔ ایک بیان میں، کانفرنس کے نامزد صدر مختار بابائیف نے کہا کہ اس کے لیے 'ہر ایک کی کوشش' کی ضرورت ہوگی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.