پاکستان میں ایس یو وی کاروں کی مارکیٹ اس قدر بڑھی ہے کہ ملک میں تمام بڑے جاپانی، کورین اور چینی برانڈز کے اسمبلرز اس سیگمنٹ میں ایک دوسرے سے مدِمقابل دکھائی دیتے ہیں۔
سال 2022 تک پاکستان کے آٹو سیکٹر میں جاپانی گاڑیاں بنانے والوں کا راج رہا جبکہ2021-22 کے دوران قریب ڈھائی لاکھ کاریں فروخت ہوئیں۔
لیکن اگلے دو سال گاڑیوں کی صنعت سے وابستہ ہر فرد کے لیے انتہائی مشکل تھے۔ روپے کی گِرتی قدر اور مہنگائی کی وجہ سے طلب میں کمی نے کئی بار اِن کمپنیوں کو پلانٹ بند رکھنے پر مجبور کیا۔
لوگوں کی قوت خرید اس قدر گِر چکی تھی کہ 2022-23 اور 2023-24 کے دوران -- پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے اعداد و شمار کے مطابق -- ایک، ایک لاکھ گاڑیاں بھی نہ بِک سکیں۔
مگر اب گاڑیوں کی پیداوار اور خرید کے حالیہ اعداد و شمار دیکھ کر یہ تاثر مل رہا ہے کہ معاشی بحالی کے اس دور میں آٹو سیکٹر کی سانسیں بھی کچھ حد تک بحال ہو رہی ہیں۔
ایک نمایاں بات یہ ہے کہ پاکستان میں سپورٹس یوٹیلیٹی وہیکل (ایس یو وی) کی مارکیٹ اتنی بڑھی ہے کہ ملک میں تمام بڑے جاپانی، کورین اور چینی برانڈز کے اسمبلرز اس شعبے میں ایک دوسرے سے مدِمقابل دکھائی دیتے ہیں۔
کون سی گاڑیاں اور ایس یو ویز زیادہ فروخت ہو رہی ہیں؟
پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کے اعداد و شمار اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ بگ تھری (یعنی سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا) کے بعد چوتھی بڑی کار کمپنی سازگار ہوال بن کر ابھری ہے۔
گاڑیوں کی فروخت سے متعلق اِن عبوری اعداد و شمار کی روشنی میں شرمن سکیورٹیز کا کہنا ہے کہ اِن چار بڑے کار اسمبلرز نے رواں سال ستمبر کے مقابلے اکتوبر میں 30 فیصد زیادہ گاڑیاں (12 ہزار سے زیادہ یونٹس) بیچی ہیں۔ جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے یہ 55 فیصد کا اضافہ ہے۔
شرمن سکیورٹیز نے اپنے تجزیے میں بتایا کہ کرولا کراس پر ایک پرموشنل پرائس پیشکش دی گئی تھی جس سے ٹویوٹا (انڈس موٹرز) کی فروخت کردہ گاڑیوں میں اضافہ ہوا۔ یاد رہے کہ حال ہی میں ٹویوٹا کراس کی قیمت میں محدود مدت کے لیے نو لاکھ روپے تک کی کمی کی گئی تھی۔
ٹویوٹا نے مجموعی طور پر ستمبر کے مقابلے اکتوبر میں سات فیصد زیادہ کاریں بیچی ہیں۔
ہنڈا کی کاروں کی فروخت میں ستمبر کے مقابلے اکتوبر کے دوران 19 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ شرمن سکیورٹیز کے مطابق ہنڈا سٹی اور ہنڈا سیوک کاروں کی فروخت ستمبر کے مقابلے 24 فیصد بڑھی ہے تاہم کمپنی کی ایس یو ویز (بی آر وی اور ایچ آر وی) کی فروخت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔
سوزوکی نے اکتوبر میں ستمبر کے مقابلے 46 فیصد زیادہ کاریں بیچی ہیں جن میں آلٹو سرفہرست ہے۔ نئی لانچ کردہ سوزوکی ایوری، جو بولان کے متبادل کے طور پر متعارف کرائی گئی، کے اب تک 262 یونٹ فروخت ہوئے ہیں۔
بولان کو اکتوبر میں ختم کیا گیا (یعنی اس کی پیداوار ختم کر دی گئی) مگر آخری ماہ میں بھی اس کے ایک ہزار سے زیادہ یونٹ فروخت ہوئے۔
پاکستان میں اکتوبر کے دوران 2180 بڑی ایس یو وی گاڑیاں فروخت ہوئی ہیں اور اس طرح اکتوبر میں ایس یو وی کی مارکیٹ میں ستمبر کے مقابلے 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ گذشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے اس میں 86 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پاما کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے دوران سازگار کی ہوال کے ایک ہزار سے زیادہ یونٹ، ٹویوٹا کراس کے 906 یونٹ اور کِیا کی سانٹا فے کے 94 یونٹ فروخت ہوئے۔ شرمن سکیورٹیز کے مطابق اس پیداواری رجحان میں ہوال جولیون کا ایک کردار رہا ہے۔
کاروں کی فروخت میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود خان کا کہنا ہے کہ کاروں کی فروخت میں اضافہ معاشی استحکام اور مہنگائی کی رفتار میں کمی سے جڑا ہے۔ ان کے بقول ایک بڑی وجہ شرح سود میں کمی بھی ہے جو 22 فیصد سے کم ہو کر اب 15 فیصد ہے۔
عارف حبیب سکیورٹیز کے تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ شرح سود میں کمی کے بعد آٹو اسمبلرز نے کم مارک اپ قرضوں کے ذریعے صارفین کی توجہ حاصل کی ہے۔
ادھر شرمن سکیورٹیز کے مطابق مہینہ وار فروخت میں اضافے کی وجہ آٹو فنانسنگ کے ریٹ میں کمی ہے جس کی بدولت 26 ماہ سے جاری منفی پیداواری رجحان اختتام پذیر ہوا ہے اور ستمبر 2024 تک آٹو فنانسنگ کا حجم 227.5 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔
دریں اثنا اس کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے کے دوران کاروں کے بعض نئے ماڈل متعارف کرائے گئے ہیں جن میں لوگوں نے دلچسپی لی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی قیمتوں میں بھی استحکام دیکھا گیا ہے۔ حتیٰ کہ کچھ بڑی کاروں کی قیمتوں پر خصوصی چھوٹ بھی دیکھنے کو ملی ہے۔
اگرچہ ماہرین کو 2025 میں بھی اس رجحان کے جاری رہنے کا امکان ہے تاہم مشہود خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معیشت اور آٹو سیکٹر کے لیے اب بھی کچھ چیلنجز موجود ہیں۔ خریدی گئی گاڑیوں میں ایک نمایاں تعداد ایس یو ویز اور بڑی کاروں کی ہے جو ’اپر کلاس وہیکلز ہیں۔‘
ان کا خیال ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستان میں ایس یو ویز کی مارکیٹ پیدا ہوئی جس سے سیڈان گاڑیوں کی مانگ میں کمی آئی ہے اور اب ہر اسمبلر کو ایس یو وی متعارف کرانا پڑی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایس یو ویز صارفین کی ڈیمانڈ میں ہیں۔ یہ ایلیٹ اور اپر مڈل کلاس طبقہ ہے جس کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ طبقہ ہے جس میں گاڑیوں کی سیلز میں بہتری بھی آ رہی ہے۔‘
بِگ ’فور‘: جاپانی اسمبلرز کے بعد ہوال نے اپنی جگہ مستحکم کی
پاکستانی آٹو سیکٹر میں جہاں تک بات حجم کی ہے تو سیلز کے اعداد و شمار کے مطابق پاک سوزوکی اور ٹویوٹا انڈس سر فہرست ہیں جس کے بعد ہنڈا کا نمبر آتا ہے جس کی سیڈان گاڑیاں سٹی اور سیوک آج بھی مقبول ہیں۔ اِن جاپانی کار اسمبلرز کے لیے پاکستان میں عموماً ’بگ تھری‘ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی رہے ہیں۔
مگر حالیہ رجحانات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایس یو وی مارکیٹ میں فی الحال چینی برانڈ ہوال نے خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ اس نے اکتوبر میں بھی ایک ہزار سے زیادہ یونٹ فروخت کیے ہیں۔ یعنی جاپانی اسمبلرز کے بعد اب یہ بظاہر ’بگ تھری‘ کا چوتھا رکن بن کر ابھرا ہے۔
چینی آٹو برانڈ ہوال کو پاکستان میں متعارف کرانے والی مقامی کمپنی سازگار کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر میاں علی نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگ اب یہ جان چکے ہیں کہ چینی کار ’قیمت میں کم‘ اور ’معیار میں اعلیٰ‘ ہے۔
انھیں توقع ہے کہ آئندہ برسوں کے دوران پاکستان کے آٹو سیکٹر پر ’چینی غلبہ ہوگا۔‘
ادھر آٹو ماہر مشہود خان کا کہنا ہے کہ ’مارکیٹ میں روایتی طور پر جاپانی اور کورین اسمبلرز کا غلبہ رہا ہے مگر اب سڑکوں پر آپ کو اکثر ہوال کی ایس یو ویز نظر آ رہی ہیں۔ بظاہر اس کمپنی نے اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھا ہوا ہے۔‘
مگر ان کا خیال ہے کہ پاکستان آٹو شو کے دوران بھی نئی کاریں متعارف کرا کر ایلیٹ اور اپر مڈل کلاس کو ہی ٹارگٹ کیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اب تک عام آدمی کو ذہن میں نہیں رکھ پا رہے کہ وہ ٹو وہیلر سے کار پر کیسے منتقل ہوسکتا ہے۔آٹو سیکٹر کی طویل مدتی اور دیرپا پیداوار کے لیے یہ زیادہ اہم ہے۔‘