راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر موجود لانگ سے متعلق پیغام کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی اسلام آباد میں دھرنا دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے ایک مرتبہ پھر اسلام آباد تک لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ہے اور اس بار وہ دارالحکومت چار مطالبات کے ساتھ آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان مطالبات میں ’26ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، جمہوریت اور آئین کی بحالی، مینڈیٹ کی واپسی اور تمام بے گناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی‘ شامل ہیں۔
تاہم راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر موجود لانگ مارچ سے متعلق پوسٹس اور پارٹی رہنماؤں کے بیانات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اسلام آباد میں دھرنا دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کیے جانے والے پیغام میں کہا گیا ہے کہ: ’میری تمام پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ 24 نومبر کو اسلام آباد پہنچیں اور مطالبات کی منظوری تک گھروں کو واپس نہ جائیں۔‘
پی ٹی آئی کی جانب سے لانگ مارچ کا اعلان کوئی نئی پیش رفت نہیں ہے بلکہ سابق وزیرِ اعظم کی جماعت ماضی میں بھی متعدد مرتبہ ملک بھر میں ایسے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دے چکی ہے۔
ان دھرنوں میں 2014 کا وہ دھرنا بھی شامل ہے جو تقریباً 126 دن جاری رہا تھا لیکن اس وقت حالات مختلف تھے، عمران خان آزاد تھے اور ان کے مخالفین کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی کو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل تھی۔
ایسے میں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اس جماعت کا اگلا لانگ مارچ ماضی سے کتنا مختلف ہو گا۔
پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرے
پی ٹی آئی نے آخری مرتبہ بڑا لانگ مارچ نومبر 2022 میں اس وقت کیا تھا جب عمران خان آزاد تھے۔ اس لانگ مارچ کے دوران عمران خان ایک حملے میں زخمی بھی ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی کے کارکنان اس وقت بھی اسلام آباد اور راولپنڈی پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن اس موقع پر انتظامیہ نے انھیں وہاں زیادہ دیر ٹِکنے نہیں دیا تھا۔
اگست 2023 میں عمران خان کی قید اور 2024 میں ملک میں عام انتخابات کے بعد پی ٹی آئی نے متعدد احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ اس دوران ان کے کئی رہنما، درجنوں کارکنان کو گرفتار کیا گیا اور ہر احتجاج کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں اور جماعت کے کارکنان کے درمیان تصادم دیکھنے میں آیا۔
ہر احتجاج کے موقع پر راولپنڈی اور خصوصاً اسلام آباد میں کاروبارِ زندگی کبھی جزوی اور اور کبھی مکمل طور پر بند ہوگیا۔
تازہ ترین احتجاج پی ٹی آئی کی جانب سے اکتوبر کے آغاز میں کیا گیا تھا جس کا ڈراپ سین اس وقت ہوا تھا جب اسلام آباد پہنچنے پر احتجاج کی سربراہی کرنے والے علی امین گنڈاپور احتجاج چھوڑ کر خیبرپختونخوا ہاؤس چلے گئے تھے جس کے بعد ان کے لاپتہ ہونے کی خبریں گردش کرنے لگی تھیں۔ تاہم ایک روز بعد انھیں خیبرپختونخوا اسمبلی میں خطاب کرتے دیکھا گیا تھا۔
ایسے میں لوگوں کے ذہنوں میں سوال ہے کہ 24 نومبر کے لانگ مارچ کے دوران کیا ہوگا اور یہ ماضی کے احتجاج سے کتنا مختلف ہو گا؟
لانگ مارچ سے کیا فرق پڑے گا؟
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ ماضی کے برعکس اس بار لانگ مارچ کے ذریعے اپنے تمام مطالبات پورے کروا لیں گے۔ دوسری جانب عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہ سوچ کر فکرمند ہے کہ دارالحکومت میں ایک مرتبہ بھر سڑکیں بند ہوں گی۔
لانگ مارچ کے اعلان کے بعد خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے پشاور مین صحافیوں کو بتایا کہ ’ہماری تو تیار مکمل تھی پہلے سے مگر اب تاریخ آگئی ہے تو اور بہترین طریقے سے تیاری کریں گے۔ اس بار ہماری واپسی اس وقت تک نہیں ہوگی جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے۔‘
دوسری جانب بدھ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان کی بہن علیمہ خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’آج آپ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ مستقبل میں ہم نے مارشل لا میں رہنا ہے یا آزادی میں رہنا ہے اور 24 تاریخ عمران خان نے اسلام آباد کے لیے کال دے دی ہے۔‘
جہاں ایک طرف پی ٹی آئی کے کارکنان سوشل میڈیا پر اس لانگ مارچ کے اعلان کے بعد متحرک نظر آ رہے ہیں، وہیں ان کے مخالفین ان پر تنقید کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک حامی غفران خان نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’عمران خان کا حکم ہے اپنے علاقے میں نکلیں، عام وعوام سے بات کریں اور فائنل کال کے لیے تیار کریں۔‘
دوسری جانب حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اس لانگ مارچ کو معیشت کو نقصان کرنے کی کوشش قرار دے رہی ہے۔
حکمراں جماعت نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’یہ پاکستان کی ترقی کو روکنے کی ایک کوشش ہے۔‘
پی ٹی آئی کے دیگر ناقدین بھی سمجھتے ہیں کہ لانگ مارچ کا فیصلہ درست نہیں۔ نگراں حکومت میں وزیرِ اطلاعات کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے مرتضیٰ سولنگی عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’پہلے انھوں نے اپنی بےوقوفی سے اپنی حکومت ختم کی اور اب وہ اپنی پارٹی کو ختم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔‘
ان تمام سیاسی سرگرمیوں سے دور صارفین کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو یہ سوچ کر پریشان ہے کہ کچھ روز بعد اسلام آباد میں سڑکوں پر ’کنٹینرز لگے ہوں گے، موبائل فون سگلنلز نہیں ہوں گے، آپ شہر سے باہر نہیں جا سکیں گے، سکول اور کالجز بھی بند ہوں گے۔‘
ایک اور صارف نے اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’تنگ آ گئے ہیں اس کھیل سے۔ اب خدا کے لیے اسلام آباد کے شہریوں پر رحم کرو اور طاقت کی اپنی اس آنکھ مچولی میں ہمارے راستے بند مت کرو۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’امید ہے کہ علی امین گنڈاپور اس مرتبہ مایوس نہیں کریں گے۔‘