لندن ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسن نواز شریف کو برطانوی حکومت کے ٹیکس اینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ کی جانب سے دائر ٹیکس اور لائبیلٹی کیس میں دیوالیہ قرار دیا ہے۔ حسن نواز کے دیوالیہ ہونے سے متعلق عدالتی فیصلہ تین مئی 2024 کو جاری کیا گیا تھا۔ اگر برطانیہ میں کوئی شخص یا کمپنی دیوالیہ ہوتا ہے تو اس کے مالی معاملات کیسے متاثر ہوتے ہیں؟
لندن کی ہائی کورٹ آف جسٹس نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسن نواز شریف کو برطانوی حکومت کے ٹیکس اینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ کی جانب سے دائر ایک کیس میں دیوالیہ قرار دیا ہے۔
یہ خبر اگرچہ نئی نہیں لیکن گذشتہ شب سے پاکستانی میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔
دراصل حسن نواز کو مئی میں دیوالیہ قرار دیا گیا تھا جس کی تفصیل برطانوی سرکاری ویب سائٹس پر بھی موجود ہے تاہم اتوار کو یہ خبر مختلف پاکستانی میڈیا سائٹس پر پر شائع ہوئی بلکہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث آنے لگی۔
برطانیہ میں پبلک ریکارڈ رکھنے والے گزٹ کے مطابق فلیٹ 17 ایون فیلڈ ہاؤس کے رہائشی اور مختلف کمپنیوں کے ڈائریکٹر حسن نواز کو 2023 کے کیس نمبر 694 میں ہائی کورٹ آف جسٹس میں دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہے۔
ان کا دیوالیہ پن برطانیہ کی ٹیکس اتھارٹی کے ساتھ واجبات کی ادائیگی میں ناکامی کی وجہ سے ہوا ہے۔
دیوالیہ پن کا سرکاری ریکارڈ لندن گزٹ میں موجود ہے جس میں حکم کے اجرا اور اس کے قانونی مضمرات کی تصدیق کی گئی ہے۔
اگرچہ حسن نواز کے نام پر مجموعی طور پر سات کمپنیاں رجسٹرڈ تھیں تاہم ان میں سے دو تحلیل ہو چکی ہیں۔ لیکن حسن نواز اب بھی پانچ کمپنیوں کوئنٹ پیڈنگٹن لمیٹڈ، کوئنٹ گلوسٹر پلیس لمیٹڈ، فلیگ شپ سکیورٹیز لمیٹڈ، کیو ہولڈنگز لمیٹڈ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹر ہیں۔
واضح رہے کہ دیوالیہ شخص ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام نہیں کرسکتا یا کسی بھی طرح سے کمپنی کے انتظام میں شامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اسے دیوالیہ پن سے بری نہیں کیا جاتا۔
ایسے شخص کو کسی بھی کمپنی میں ڈائریکٹر کی حیثیت سےکام کرنے کے لیے عدالت سے اجازت حاصل کرنی ہوتی ہے۔
حسن نواز کے دیوالیہ ہونے سے متعلق عدالتی فیصلہ تین مئی 2024 کو جاری کیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ مارچ 2024 کے دوران اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے نواز شریف کے بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کو فلیگ شپ، ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں بری کیا تھا۔ پاکستان میں ان دونوں پر پانامہ پیپرز سے جڑے مبینہ بدعنوانی کے مقدمات قائم ہوئے تھے۔
آئیے سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یا کمپنی کب دیوالیہ ہوتا ہے اور اس کا اس کے مستقبل اور مالی معاملات کے لیے کیا مطلب ہوتا ہے۔
دیوالیہ پن کیا ہے؟
دیوالیہ پن کو اکثر بُری چیز سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک بہت ہی آسان تصور ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کے تقریباً تمام قرضوں کو معاف کر دیا جاتا ہے کیونکہ آپ اب انھیں ادا کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
یہ عدالت کا ایک حکم ہے جو برطانیہ میں عام طور پر ایک سال تک رہتا ہے جس کے بعد آپ کو دیوالیہ پن سے ’فارغ‘ کر دیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ آپ ایک نیا آغاز کر سکتے ہیں۔
کچھ لوگ عام طور پر خود دیوالیہ ہونے کا انتخاب کرتے ہیں جب ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
اگر آپ پر بہت زیادہ قرض ہے تو دیوالیہ پن اس کو حل کرنے کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے۔
لیکن آپ کو صرف اسی صورت میں دیوالیہ قرار دیا جائے گا جب آپ کے پاس موجود چیزوں کی قدر و قیمت آپ کے قرض سے کم ہوں۔
یہ کیسے کام کرتا ہے؟
جونھی آپ کو دیوالیہ قرار دیا جاتا ہے، آپ کی ہر چیز آپ کی ملکیت نہیں رہتی اور اسے آپ کا قرض اتارنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں آپ کا گھر اور گاڑی شامل ہے تاہم آپ اس وقت تک انھیں استعمال کر سکتے ہیں جب تک یہ بِک نہیں جاتے۔
تاہم گھر میں موجود سامان پر استثنیٰ مل سکتی ہے جن میں روزمرہ کی گھریلو اشیا، ٹی وی اور کمپیوٹر جیسی چیزیں شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ چیزیں بھی ہوسکتی ہیں جو آپ کو اپنا کام کرنے یا کام پر جانے کے لیے درکار ہیں، جیسے آپ کی گاڑی۔
اس کے لیے قریب 680 پاؤنڈ خرچ آتا ہے جس کا مطلب ہے کہ سچ مچ قرض سے پریشان کچھ لوگ دیوالیہ پن حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔
قرض ریلیف آرڈر کی طرح کچھ بہتر آپشن ہوسکتے ہیں۔
قرض دہندگان -- جن لوگوں یا تنظیموں کا پیسہ آپ کو ادا کرنا ہے -- وہ بھی عدالت سے آپ کو دیوالیہ کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں، بھلے ہی آپ ان سے ایسا کرنے کو نہ کہیں۔ یہ صرف اس صورت میں ہے جب آپ نے ان کے کم از کم 5000 پاؤنڈ ادا کرنے ہوں۔
دیوالیہ پن ایک بہت ہی سنجیدہ قدم ہے کیونکہ آپ کے پاس موجود تقریبا ہر چیز آپ سے چھین لی جائے گی۔
سٹیزن ایڈوائس میں قرض کی ماہر لورین چارلٹن کہتی ہیں کہ ’یہ آپ کو قرض سے نجات دلا سکتا ہے، لیکن دیوالیہ پن ہر کسی کے لیے صحیح آپشن نہیں ہے۔
’آپ کو مکمل طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے اور کیا ہوگا، لہذا فیصلہ کرنے سے پہلے مشورہ لیں۔‘
کیا دیوالیہ ہونے کا کوئی فائدہ بھی ہے؟
کچھ لوگوں کے لیے دیوالیہ پن ایک لحاظ سے سکھ کا سانس بھی ہے کیونکہ پھر آپ کے قرض خوا آپسے رابطہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
دیوالیہ پن کو 1980 کی دہائی میں قانون سازی کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا جس کا ایک بڑا حصہ ان لوگوں سے دباؤ اور تناؤ کو دور کرنا تھا جن پر بہت زیادہ پیسہ واجب الادا ہے۔
دیوالیہ پن کے لیے درخواست دینے والے ایسے لوگ جو کچھ نے کچھپیسہ کما رہے ہیں انھیں بھی اپنی آمدنی کا کچھ حصہ رہن سہن کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے رکھنے کی اجازتہوتی ہے۔
لیکن آمدن اور اخراجات کااندازہ لگایا جائے گا اور اگر آپ کے پاس ماہانہ 20 پاؤنڈ سے زیادہ بچت ہے تو اسے لے لیا جائے گا اور تین سالتک اسے آپ کے قرض کر رقم میں ادا کیا جائے گا۔
جو لوگ سرکاری مدد حاصل کرتے ہیں انھیں کچھ بھی ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے منفی پہلو کیا ہیں؟
دیوالیہ ہونے پر نہ صرف آپ کی جائیداد چھین لی جاتی ہے بلکہ اس سے آپ پر بہت سی پابندیاں بھی عائد ہوتی ہیں۔
جیسے اپنے دیوالیہ پن کے بارے میں بتائے بغیر آپ کسی سے بھی 500 پاؤنڈ سے زیادہ کا قرض نہیں لے سکتے۔
آپ کو دیوالیہ قرار دیا جانا آپ کی کریڈٹ ریفرنس فائل پر رہے گا جس سے چھ سال تک آپ کی کریڈٹ ریٹنگ متاثر ہوگی۔
اگر آپ قانونی یا مالیاتی صنعت جیسے مخصوص پیشوں میں کام کرتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنی ملازمت کھو دیں گے اور اگر آپ ایک کاروبار کے مالک ہیں تو اسے آپ کے قرضوں کو پورا کرنے کے لیے فروخت کیا جاسکتا ہے۔
آپ کے دیوالیہ پن کو 12 ماہ کے لیے دیوالیہ رجسٹر پر عوامی طور پر بھی شائع کیا جائے گے۔ تاہم ایسے افراد جن کو تشدد کا خطرہ ہے انھیں استثنیٰ حاصل ہو سکتا ہے۔
ایک سال کے بعد کیا ہوتا ہے؟
جب آپ دیوالیہ پن سے آزاد ہوجاتے ہیں جو عام طور پر ایک سال کے بعد ہوتا ہے آپ کسی بھی قرض سے آزاد ہوجاتے ہیں جو آپ کے دیوالیہ پن میں شامل تھے۔
لیکن کچھ ایسے قرض ہیں جو آپ کو اب بھی ادا کرنے ہیں جیسے طلبہ کے تعلیمی قرض۔
اگر آپ کا گھر آپ سے چھین لیا گیا ہے لیکن فروخت نہیں کیا گیا یا تین سال کے بعد کوئی متبادل معاہدہ طے پایا ہے تو یہ آپ کو واپس دیا جاسکتا ہے۔
دیوالیہ شخص کی کاروباری ساکھ کیسے متاثر ہوتی ہے؟
پاکستان کے مالیاتی شعبے سے منسلک افراد نے صحافی تنویر ملک کو بتایا کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں بینک کرپسی یعنی دیوالیہ ہونے سے متعلق مختلف قوانین ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ بظاہر تو دیوالیہ ہونے کا لفظ ایسا ہے کہ جس کے بعد لگتا ہے کہ یہ شخص کاروباری طور پر تباہ ہو چکا ہے اور اب اس کا مستقبل تاریک ہے تاہم ایسا نہیں ہوتا۔
بلکہ برطانیہ سمیت کچھ ملکوں میں دیوالیہ ہونے کے بعد بھی لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان میں ابھی تک بینک کرپسی کا کوئی قانون نہیں ہے اور پاکستان میں دیوالیہ ہونے کے بعد کا تاثر ایسا بن گیا ہے کہ اب یہ شخص مالی طور پر مکمل تباہ و برباد ہو چکا ہے اور اس سے لین دین نہیں کرنا چاہیے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر سلیم رضا نے صحافی تنویر ملک کو بتایا کہ برطانوی قوانین کے مطابق دیوالیہ شخص کسی کمپنی کا ڈائریکٹر نہیں بن سکتا اور نہ ہی کسی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن بن سکتا ہے۔
سلیم رضا بتاتے ہیں کہ ’یہ تو لازمی بات ہے کہ دیوالیہ شخص کے لیے مالیاتی اداروں سے قرض لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے مالیاتی اداروں سے قرضہ لینے کے لیے پھر ایسے افراد کو ضمانت دینی پڑتی ہے۔‘
تاہم انھوں نے کہا کہ ’امریکہ میں دیوالیہ ہونے کے باوجود ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو دوبارہ مستحکم کریں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ادھار دینے والے ادارے دیوالیہ ہونے والے شخص کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا ہوں تاکہ وہ پرانے قرض ادا کرنے کے بھی قابل ہو سکے۔
سلیم نے بتایا کہ پاکستان میں دیوالیہ ہونے کا بہت کم سننے میں آیا ہے البتہ ماضی میں کہا جاتا تھا کہ ’فلاں شخص کا دیوالیہ نکل چکا ہے۔‘