دنیا بھر میں لوگ صحت کے بڑے خطرات کے باوجود ای ویسٹ سے قیمتی مواد نکال رہے ہیں۔
آپ میلوں دور سے بھی ’اگبوگلوشی ڈمپ سائٹ‘ (یعنی کچرے کے ایک بڑے ڈھیر) سے دھوئیں کے بادل اٹھتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔
گھانا کے دارالحکومت ’اکرا‘ کے مغرب میں واقع کچرے سے بھرے اس مقام کی وجہ سے علاقے بھر کی ہوا انتہائی زہریلی ہے۔ آپ اس مقام کے جتنا قریب آتے ہیں سانس لینا اُتنا ہی مشکل ہوتا جاتا ہے اور صرف یہی نہیں آپ یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ آپ کی بینائی دھندلی ہونے لگی ہے۔
دھوئیں کے زہریلے بادلوں کے درمیان درجنوں مزدور ٹرکوں پر سے تاروں کے ڈھیر اُترنے کے مُنتظر ہیں کیونکہ اُن کے کام کا آغاز انھی تاروں کو آگ لگانے سے ہی ہو گا۔ تاہم اسی مقام سے کُچھ فاصلے پر چند اور مزدور ایک خطرناک اور زہریلے کچرے کے بڑے ڈھیر پر موجود ہیں، یہ مزدور یہاں سے ٹی وی، کمپیوٹر اور واشنگ مشین کے پرزوں کو نیچے لانے اور انھیں آگ لگانے میں مصروف تھے۔
یہ تمام کے تمام مزدور امیر مُمالک سے گھانا پہنچنے والی ان الیکٹرانک اشیا یا ای ویسٹ سے تانبے اور سونے جیسی قیمتی دھاتیں نکال رہے ہیں۔
کچرے سے بھرے اس مقام پر موجود نوجوانوں میں سے ایک عبداللہ یعقوبو بھی ہیں جن کی آنکھیں اس زہریلے کچرے کو طویل عرصے سے جلانے کی وجہ سے سرخ اور پانی سے بھری رہتی ہیں۔ عبداللہ یعقوبو دن بھر اس مقام پر پلاسٹک اور تاریں جلانے میں مصروف رہتے ہیں اور اب اُن کا کہنا ہے کہ ’میری طبعیت ٹھیک نہیں رہتی۔‘
’یہاں کی ہوا، جیسا کہ آپ دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں، انتہائی آلودہ ہے اور مجھے یہاں اسی آلودہ ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورتحال یقینی طور پر ہماری صحت کو متاثر کرتی ہے۔‘
چار بچوں کی ماں ابیبہ الحسن بھی کچرے سے بھرے اسی مقام کے قریب ہی موجود ہیں اور اس آب و ہوا میں موجود زہریلا دھواں انھیں بھی معاف نہیں کرتا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’کبھی کبھی سانس لینا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے، میرا سینہ بھاری ہونے لگتا ہے اور میں اپنی آپ کو بے جان اور بیمار محسوس کرتی ہوں۔‘
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2022 میں 62 ملین ٹن ای ویسٹ پیدا ہوا جو سنہ 2010 کے مقابلے میں 82 فیصد زیادہ ہے۔
ہمارے معاشرے میں الیکٹرونک اشیا جن میں سمارٹ فونز، کمپیوٹرز اور دیگر تمام الیکٹرانک آلات شامل ہیں کا اضافہ بنیادی طور پر اس ای ویسٹ میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی ٹریڈ اینڈ ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق سنہ 2010 کے بعد سے سمارٹ فون کی سالانہ شپمنٹ دوگُنا سے زیادہ ہو گئی ہے اور یہ سنہ 2023 میں 120 کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔
اکثر ضبط کی جانے والی اشیا
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا کے ای ویسٹ کا صرف 15 فیصد ری سائیکل کیا جاتا ہے اس لیے بعض بڑی کمپنیاں غیر قانونی طور پر اس کچرے کو اصل مقام کی بجائے اسے کہیں اور پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس طرح کے فضلے کو ری سائیکل کرنا مشکل ہے کیونکہ انھیں بنانے کے عمل کے دوران ان میں زہریلے کیمیکلز، دھاتیں، پلاسٹک اور ایسے عناصر شامل ہیں جنھیں نہ تو آسانی سے تلف کیا جا سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں آسانی سے ری سائیکل جاسکتا ہے۔
یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ای ویسٹ مینجمنٹ کا مناسب بنیادی ڈھانچہ ہی موجود نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک اور تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں سے ای ویسٹ کی سمگلنگ میں نمایاں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ ورلڈ کسٹمز آرگنائزیشن نے انکشاف کیا ہے کہ ای ویسٹ اب سب سے زیادہ پکڑا جانے والا آئٹم ہے۔
اٹلی کی نیپلز بندرگاہ کے حکام نے بی بی سی کو بتایا کہ کس طرح سمگلروں نے ای ویسٹ کو چھپانے اور انتظامیہ کو دھوکہ دینے کے لیے غلط بیانی سے کام لیا۔ جس کی وجہ سے اسی مقام پر ضبط کی جانے والی اشیا اور مال میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔
انھوں نے افریقہ جانے والے ایک کنٹینر کا سکین دکھایا جس میں ایک گاڑی دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن جب بندرگاہ کے حکام نے کنٹینر کو کھولا تو اس میں گاڑیوں کے ناکارہ پارٹس اور ای ویسٹ اندر جمع تھے اور ان میں سے کچھ سے تیل رس رہا تھا۔
یورپ بھر میں بندرگاہوں کے حکام کے ساتھ مل کر کام کرنے والے یورپین اینٹی فراڈ آفس (اولاف) کے تفتیش کار لوئیگی گاروٹو کا کہنا ہے کہ ’آپ اپنے ذاتی سامان کو اس طرح پیک نہیں کرتے، اس کا زیادہ تر حصہ ڈمپنگ کے لیے ہوتا ہے۔‘
سمگلنگ کے جدید اور پیچیدہ طریقے
حکام کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں سمگل کیے جانے والے ای ویسٹ میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
برطانیہ کے ماحولیاتی ادارے کے ترجمان بین رائیڈر کا کہنا ہے کہ ’گھانا جیسے ممالک میں کچرے کی اشیا کے حوالے سے اکثر غلط بیانی سے کام لیا جاتا ہے اور ان کے بارے میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ ری یوزایبل ہیں یعنی ان کا استعمال دوبارہ کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے دراصل انھیں قیمتی دھاتوں کے حصول کے لیے توڑا اور جلایا جاتا ہے اور پھر ایک مرتبہ پھر سمگل کر دیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ سمگلر ای ویسٹ کو پیس کر اسے پلاسٹک کی دیگر چیزوں کے ساتھ ملاتے ہیں جسے پھر درست کاغذی کارروائی کی مدد سے برآمد کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔
ورلڈ کسٹمز آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گاڑیوں کے ناقابلِ استعمال ہونے کے بعد ان کی سمگلنگ میں تقریبا 700 فیصد اضافہ ہوتا ہے کیونکہ گاڑیاں ای ویسٹ کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے سمگلنگ کے دوران انتظامیہ کے ہاتھ لگنے یا پکڑے جانے والے ای ویسٹ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اگرچہ عالمی سطح پر ترقی یافتہ مُمالک سے سمگل ہونے والے ای ویسٹ کا سراغ لگانے کے لیے کوئی جامع حکمتِ عملی تو موجود نہیں ہے لیکن اقوام متحدہ کی ای ویسٹ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک اب بھی اس ای ویسٹ کا مرکز یا ایک اہم ٹھکانہ ہے۔
لیکن ان میں سے کچھ ممالک کی جانب سے کچرے کی سمگلنگ پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک میں ای ویسٹ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم کے علاقائی نمائندے مسعود کریم پور کے مطابق ملائیشیا میں حکام نے مئی سے جون 2024 تک خطرناک ای ویسٹ کے 106 کنٹینرز ضبط کیے۔
لیکن اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ سمگلرز سمگلنگ کے نئے ہتھکنڈوں سے اکثر حکام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور انتظامیہ انھیں پکڑنے میں ناکام رہتی ہے۔
کریم پور کہتے ہیں کہ ’جب ای ویسٹ جیسے خطرناک فضلے کو لے جانے والے جہاز آسانی سے انھیں اپنی منزل پر اتار میں مُشکلات کا سامنا کرتے ہیں تو وہ سمندر کے وسط میں وہ اپنا نیویگیشن سسٹم یا بیکن بند کر دیتے ہیں تاکہ وہ انتظامیہ کی نظروں سے اوجھل ہو جائیں اور اُن کا سُراغ نہ لگایا جا سکے‘
وہ کہتے ہیں کہ ’غیر قانونی شپمنٹ کو ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کی تحت سمندر میں ہی پھینک دیا جاتا ہے۔‘
’بہت سارے گروہ ہیں اور بہت سارے ممالک اس عالمی سطح پر جاری مجرمانہ کاروبار سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘
انتہائی خطرناک کیمیکلز
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب ای ویسٹ کو جلایا جاتا ہے یا پھینکا جاتا ہے تو اس میں موجود پلاسٹک اور دھاتیں انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک ہو سکتی ہیں اور ماحول پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ’جن مُمالک میں یہ ای ویسٹ پہنچایا جاتا ہے وہاں غیر محفوظ انداز میں اس کی ری سائیکلنگ بھی دیکھنے کو ملتی ہے یعنی خواتین اور بچوں سمیت غیر تربیت یافتہ افراد حفاظتی سامان کے بغیر یہ کام کر رہے ہیں اور سیسے جیسے زہریلے مادوں کی وجہ سے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ غیر رسمی ری سائیکلنگ کے شعبے میں کام کرنے والی لاکھوں خواتین اور چائلڈ لیبر یعنی اس مقام پر کام کرنے والے بچے متاثر ہو سکتے ہیں۔
ان تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حاملہ خواتین اور اُن کے بچوں کے لیے یہ زہریلی آب و ہوا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
جنوری 2025 سے باسل کنونشن کے تحت کچرے برآمد کرنے والوں کو تمام ای ویسٹ کا اعلان کرنے اور وصول کنندہ ممالک سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔ تفتیش کاروں کو اُمید ہے کہ اس سے کچھ مسائل کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
لیکن امریکہ سمیت کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جنھوں نے باسل کنونشن کی توثیق نہیں کی ہے جس کی وجہ سے، مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ، ای ویسٹ کی سمگلنگ جاری ہے۔
باسل ایکشن نیٹ ورک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جم پکیٹ کا کہنا ہے کہ ’جیسے جیسے ہم اس سمگلنگ کے خلاف سخت سے سخت کارروائیاں کر رہے ہیں ویسے ہی امریکہ کی جانب سے اب میسیکو میں اس کی رسد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
گھانا کے اگبوگ بلوشی سکریپ یارڈ میں صورتحال دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔
عبیبہ کہتی ہیں کہ وہ اس کچرے کے ڈھیر پر مزدوری اور محنت سے ملنے والی اُجرت کا ایک بڑا حصہ دواؤں اور صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے خرچ کرتی ہیں۔
’لیکن میں اب بھی یہاں ہوں کیوںکہ یہی میری اور میری حاندان کی بقا کا ذریعہ ہے۔‘
گھانا ریونیو اتھارٹی اور وزارت ماحولیات نے اس صورتحال پر بی بی سی کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔