پاکستان کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اس وقت ’کنٹینر سٹی‘ کا منظر پیش کر رہا ہے جس سے نہ صرف عام شہریوں کی معمولات زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ کئی کاروبار بھی نقصان جھیل رہے ہیں۔
پاکستان کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اس وقت ’کنٹینر سٹی‘ کا منظر پیش کر رہا ہے جس سے نہ صرف عام شہریوں کی معمولات زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ کئی کاروبار بھی نقصان جھیل رہے ہیں۔
ویسے تو قریب 25 لاکھ کی آبادی والے اس شہر کو یہ نام اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے اگست میں دیا تھا مگر وقتاً فوقتاً اس اصطلاح کو استعمال کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہرے کے پیش نظر اسلام آباد پولیس کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں 700 کنٹینرز کے ذریعے سڑکوں کو بلاک کیا گیا۔ حتیٰ کہ اسلام آباد کو پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ملانے والی سڑکوں کو بھی انھی کنٹینرز کی مدد سے بند کیا گیا ہے۔
یعنی ایک اندازے کے مطابق 220 مربع کلومیٹر کے شہری علاقے میں ہر ایک مربع کلومیٹر کے فاصلے پر تین کنٹینر کھڑے کیے گئے ہیں۔
اگرچہ حکام کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد شہر میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا ہے اور بیلاروس کے صدر کے وفد کو تحفظ دینا ہے تاہم اس اقدام پر مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی برہمی واضح ہے۔
جہاں بعض شہری سکولوں کی بندش پر نالاں ہیں تو کچھ کا کہنا ہے کہ وہ سڑکوں کی بندش کے باعث اپنے پیاروں کو علاج کے لیے ہسپتال نہیں لے جا پا رہے۔
اس بارے میں جب گذشتہ روز وفاقی برائے منصوبہ بندی احسن اقبال سے جب اس بارے میں سوال تو انھوں نے کہا کہ ہم ’حکومت کی جانب سے عوام سے معذرت خواہ ہیں لیکن یہ ناگزیر اقدامات ان کی اور ریاست کی حفاظت کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔‘
ملکی معیشت کو احتجاج سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے دعویٰ کیا ہے کہ ’احتجاج سے ملکی معیشت کو یومیہ 190 ارب کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اسلام آباد کو بند کرنے والے یہ کنٹینرز آتے کہاں سے ہیں؟
اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے شہر کے مختلف داخی راستوں اور اہم مقامات پر 700 کنٹینرز رکھے گئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ضرورت کے تحت کنٹریکٹر سے یہ کنٹینر حاصل کیے جاتے ہیں اور ان کے بدلے ادائیگی کی جاتی ہے۔
اخبار ڈان کی اکتوبر 2024 میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ایک کنٹینر کا کرایہ 40 ہزار کے قریب بنتا ہے، یعنی اگر 700 کنٹینر کا نمبر درست مان لیا جائے تو کل لاگت دو کروڑ 80 لاکھ روپے بنے گی۔
اس رپورٹ کے مطابق پولیس نے اکتوبر میں بھی تحریک انصاف کے احتجاج کے پیش نظر 600 کنٹینرز حاصل کرنے کے لیے دو کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔
تاہم یونائیٹڈ گڈز ٹرانسپورٹرز الائنس کے چیئرمین غلام یسین نے بی بی سی کے نامہ نگار روحان احمد سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس سڑکوں پر چلنے والے ٹرکوں کو ’روک لیتی ہے اور کنٹینرز اُتروا لیتی ہے۔‘
ان کے مطابق فیصل آباد، سیالکوٹ، پشاور اور دیگر علاقوں میں ڈرائی پورٹس موجود ہیں اور انتظامیہ اکثر وہاں سے بھی خالی کنٹینرز ’اُٹھا کر لے جاتی ہے۔‘
کنٹینرز کو ہونے والے نقصانات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نقصان ’وہی برداشت کرتا ہے جس کا وہ سامان ہوتا ہے۔‘
ادھر آل پاکستان گڈذ ٹرانسپورٹ اونرز ایسوسی ایشن کے سینیئر چیئرمین امداد حسین نقوی نے یہ دعویٰ دہرایا کہ جب بھی احتجاج یا مارچ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو امپورٹ اور ایکسپورٹ کے لیے استعمال ہونے والے کنٹینرز کو انتظامیہ اور پولیس کی طرف سے ’سڑکوں پر روک لیا جاتا ہے۔‘
ان کا الزام ہے کہ حکومت کی جانب سے ’کنٹنیر حاصل کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں بلکہ انھیں جبراً روکا جاتا ہے۔‘
’پولیس اہلکار ریاستی احکامات کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں اور ہمارے ڈرائیورز بھی ان سے مزاحمت نہیں کرتے۔ اسی لیے انتظامیہ کا جہاں دل چاہتا ہے وہ ہمارے کنٹینرز اور گاڑیاں استعمال کرتی ہے۔‘
اپنے نقصانات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دھرنوں میں ’مشتعل ہجوم کرین اور بلڈوزر کے ساتھ آتا ہے اور ہمارے کنٹینر اٹھا اٹھا کر پھینکے جاتے ہیں۔ ہمیں نقصان ہوتا ہے اور حکومت ہمیں کچھ نہیں دیتی۔‘
امداد حسین نقوی کا مزید کہنا تھا کہ ایک 40 فٹ کے اچھے کنٹینر کی قیمت کم از کم 10 لاکھ روپے ہوتی ہے اور اکثر ان میں کروڑوں کا مال بھی ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب سامان کو آگ لگ جاتی ہے تو سامان کے مالک کا نقصان بھی ٹرانسپورٹ کمپنی کو بھرنا پڑتا ہے۔
’ہمیں اپنی کمپنی کی ساکھ بھی دیکھنی ہوتی ہے اور جو پُرانے کلائنٹس ہوتے ہیں ان کو ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے ہمیں ان کا نقصان بھرنا پڑتا ہے۔‘
دوسری جانب اسلام آباد پولیس کا موقف بالکل مختلف ہے۔ پولیس کے ایک ترجمان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ کنٹینرز کرایے پر حاصل کیے جاتے ہیں اور ان کو اگر نقصان ہوتا ہے تو حکومت ہی یہ نقصان اٹھاتی ہے۔
کنٹینرز کے معاملات کو ڈیل کرنے کے لیے اسلام آباد پولیس کے تین افسران پر بنائی گئی کمیٹی کے ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر وفاقی دارالحکومت میں امن وامان کی صورت حال ہو تو اسلام آباد پولیس کا ایک ہی ٹھیکیدار ہے اس کو جتنے کنٹینرز کی ضرورت ہوتی ہے اس کو بتا دیا جاتا ہے اور وہ ضرورت کے مطابق اسلام آباد پولیس کو کنٹینرز فراہم کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد میں ’700 کنٹینرز موجود ہیں جنھیں کرائے پر حاصل کیا گیا ہے۔‘
ٹرانسپورٹرز کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جتنے دن وہ کنٹینرز استعمال ہوتے ہیں، اس حساب سے بِل بنا کر اسلام آباد کے چیف کمشنر آفس بھجوا دیا جاتا ہے جہاں سے وزارت داخلہ کے ذریعے ان کنٹینرز کا کرایہ ٹھیکدار کو ادا کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ گذشتہ پانچ ماہ کے دوران امن و امان کی صورت حال کے پیش نظر جو کنٹینرز استعمال کیے گئے اس کا کرایہ ادا کر دیا گیا ہے۔ ان کے بقول اب تک سات کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم ادا کی گئی ہے۔
شہری پریشان: ’اپنی والدہ کو ہسپتال کیسے لے کر جاؤں؟‘
کسی بھی احتجاج یا غیر ملکی وفد کے دورے کے باعث اسلام آباد کو ’کنٹینر سٹی‘ بنانے سے عام شہریوں کی زندگی رُک جاتی ہے۔
جیسے ایک صارف نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر بتایا کہ وہ اپنے والد کو ایمرجنسی آکسیجن لگا کر بڑی مشکل سے ہسپتال پہنچ سکے۔
انھوں نے لکھا کہ ’معلوم نہیں میری طرح اور کتنے لوگوں کو اس مشکل سے گزرنا پڑا۔‘
ایک اور صارف نے اسلام آباد پولیس کو ٹیگ کر کے پوچھا کہ ’میری والدہ کو برین ہیمرج ہے اور ان کی حالت انتہائی نازک ہے۔ میں انھیں ہسپتال کیسے لے کر جاؤں جب اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام راستے بند ہیں؟‘
بعض صارفین نے حکومتی وزرا پر طنز کیا جنھوں نے کہا تھا کہ وہ مظاہرین کو ’ملک بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
ایک صارف نے لکھا کہ ’کسی گروہ یا سیاسی جماعت کو اسلام آباد بند کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم خود ہی یہ کامکریں گے۔‘
مگر مظاہرین کو روکنے کے لیے لگائے گئے کنٹینرز کس حد تک موثر ثابت ہوئے، ان کا جواب تحریک انصاف کی طرف سے شیئر کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے۔
عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی قیادت میں خیبر پختونخوا سے اسلام آباد آنے والا قافلہ راستے سے تمام کنٹینرز کو مشینری کی مدد سے ہٹا رہے ہیں۔
اس سے پہلے بھی جب اکتوبر میں علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی نے احتجاج کیا تھا تو اس وقت بھی مظاہرین سرکاری مشینری کی مدد سے کنٹینرز کو ہٹانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔