جب حقیقی والدین کی تلاش کرنے والی خاتون کے والد ان کے ’فیس بُک فرینڈ‘ نکلے

جب تامونا موسیریڈز کو پتا چلا کہ انھیں شاید کسی نے بچپن میں گود لیا تھا تو انھوں نے ایک گہری سانس بھری اور فون ملایا۔
Tamuna sitting alone. She has long, straight, dark hair and is wearing a light pink top.
BBC
اپنے حقیقی والدین کو تلاش کرنے میں انھیں آٹھ سال لگے

جب تامونا موسیریڈز کو پتا چلا کہ انھیں شاید کسی نے بچپن میں گود لیا تھا تو انھوں نے ایک گہری سانس بھری اور فون ملایا۔

ابتدا میں انھوں نے اس خاتون تک پہنچنے کی کوشش کی جو کہ انھیں جنم دینے والی ماں تھیں۔

وہ جانتی تھیں کہ شاید پریوں کی کہانی کی طرح ان کا اپنے بچھڑے والدین سے دوبارہ ملنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

انھیں توقع نہیں تھی کہ دوسری جانب موجود خاتون کا رویہ سرد اور غصیلا ہوگا۔

تامونا اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ فون پر موجود خاتون نے چیخنا چِلانا شروع کر دیا اور کہا کہ انھوں نے ’کسی بچے کو پیدا نہیں کیا۔‘

تامونا کہتی ہیں کہ ’مجھے ان کے انداز نے پریشان کرنے کی بجائے حیران کیا۔‘

وہ کہتی ہیں ’میں ہر چیز کے لیے تیار تھی لیکن اس خاتون کا ردعمل میری سوچ سے بھی بہت آگے تھا۔‘

تامونا جن کی عمر اب 40 برس ہے نے اگست میں اپنی والدہ کو فون کیا۔ وہ شاید جانتی تھیں کہ انھیں اپنی زندگی میں ان کی ضرورت نہیں۔

وہ دراصل اپنے گود لیے جانے کے حالات جاننا چاہتی تھیں۔ کچھ ایسا بھی تھا جو فقط ان کی ماں ہی بتا سکتی تھیں: حقیقی والد کا نام۔

Ano (L) and Amy (R) hugging their birth mother. Ano has short blonde hair, Amy has short dark hair and their faces can be seen as their mother Aza hugs them. The back of Aza's head is visible but not her face - she has long, straight blonde hair.
BBC
تامونا بچھڑے ہوئے خاندانوں کو ملانے کے لیے ایک فیس بک گروپ چلا رہی ہیں۔ اس تصویر میں دکھائی دینے والی دو جڑواں بہنیں انو (بائیں جانب) اور ایمی ( دائیں جانب) اپنی والدہ ایزا سے گلے مل رہی ہیں جنھیں پیدائش کے بعد اغوا کر کے بیچ دیا گیا تھا

تامونا نے والدین کی تلاش 2016 میں اس وقت شروع کی جب انھیں اپنی والدہ کی وفات کے بعد ان کے گھر کی صفائی کے دوران اپنا پیدائش کا سرٹیفکیٹ ملا۔

انھوں نے جب اس پر اپنے نام کے ساتھ غلط تاریخ پیدائش دیکھی تو انھیں شک پیدا ہوا کہ شاید انھیں گود لیا گیا تھا۔

تھوڑی تلاش کے بعد انھوں نے فیس بُک پر ایک گروپ بنایا جس کا نام تھا ’میں تلاش میں ہوں۔‘ اس کا مقصد حقیقی والدین کو ڈھونڈنا تھا۔

اس کے بعد وہ جارجیا میں بچوں کی سمگلنگ کے ایک سکینڈل کو سامنے لائیں جس میں ہزاروں زندگیاں متاثر ہوئی تھیں۔ کئی دہائیوں تک والدین سے جھوٹ بولا گیا اور ان کے نوزائیدہ بچوں کے بارے میں ان سے کہا گیا کہ وہ مر گئے ہیں جبکہ حقیقت میں انھیں بیچا گیا تھا۔

تامونا خود ایک صحافی ہیں اور انھوں نے اب تک سینکڑوں خاندانوں کو اکٹھا کیا ہے۔ لیکن وہ اپنی شناخت کے حوالے سے سامنے آنے والے اس معمے کو نہ جان پائیں کہ کیا انھیں بھی پیدائش کے بعد کسی نے چوری کر لیا تھا۔

وہ کہتی ہیں اس کہانی میں ’میں ایک صحافی تھی لیکن یہ میرا ذاتی مشن بھی تھا۔‘

اپنی تلاش کے دروان انھیں بریک تھرو رواں برس دسمبر میں ملا جب انھیں اپنے فیس بک گروپ پر ایک پیغام موصول ہوا۔

یہ ایک ایسے اکاؤنٹ سے تھا جو جارجیا کے دیہی علاقے میں موجود تھا۔ انھیں بتایا گیا کہ ’ہم ایک خاتون کو جانتے ہیں جس نے تبلیسی میں ستمبر 1984 میں اپنے حمل کو چھپایا اور اس کے ہاتھ ایک بچے کی پیدائش ہوئی تھی۔‘

یہ اسی عرصے کی بات ہے جب تامونا کی پیدائش ہوئی تھی۔ انھوں نے اس حوالے سے فیس بک پر پہلے ہی بتایا ہوا تھا۔

اس شخص کا خیال تھا کہ اسی خاتون کے ہاں تامونا کی پیدائش ہوئی اور انھوں نے اس خاتون کا نام بھی تامونا کو بتایا۔

تامونا نے فوری طور پر آن لائن سرچ کیا لیکن انھیں اس بارے میں کچھ نہیں ملا۔ پھر انھوں نے فیس بُک پر ایک اپیل کے ذریعے اس خاتون کے بارے میں جاننے کا فیصلہ کیا۔

اس خاتون نے جلد ہی اس پوسٹ پر ردعمل ظاہر کیا اور کہا کہ ’جس عورت نے حمل چھپایا وہ ان کی اپنی آنٹی تھیں۔‘

انھوں نے تامونا کو کہا کہ ’آپ پوسٹ کو ہٹا دیں‘ لیکن ساتھ ہی اس پر آمادگی کا اظہار کیا کہ وہ ڈی این اے ٹیسٹ کروائیں گی۔

Family tree showing the relationship between Tamuna, her father, her mother, her uncle, her grandparents and the woman who messaged her on facebook, who turned out to be her cousin.
BBC

جب وہ ڈی این اے کے نتائج کا انتظار کر رہے تھے تو تامونا نے اپنی حقیقی والدہ کو کال کی۔

ایک ہفتے کے بعد ڈی این اے کا رزلٹ آ گیا اور پتا چلا کہ فیس بُک والی خاتون اور تامونا دونوں کزنز ہیں۔ یہ ایک ثبوت تھا جس سے تامونا اپنی والدہ کو راضی کر سکتی تھیں کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کریں اور انھیں ان کے اصل والد کا نام بتائیں۔

اس شخص کا اصل نام گروگن خوراوا تھا۔

وہ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پہلے دو ماہ حیران کن تھے۔ ’مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ مجھے وہ مل گئے ہیں۔‘

تامونا کو جیسے ہی گورگن کا نام ملا انھوں نے فوراً ہی انھیں فیس بُک پر ڈھونڈا۔ اس سے یہ سامنے آیا کہ وہ سوشل میڈیا پر ان کی خاندانوں کو ملانے والی سٹوری کو فالو کر رہے تھے جو پورے جارجیا میں پھیلی ہوئی تھی۔

Tamuna with her father Gurgen. They are both smiling and are standing close together - she has her head on his shoulder. She has long, straight, dark hair and is wearing a sleeveless, white top. He has white hair and a moustache. He is wearing glasses and a white top.
Tamuna Museridze
جب آخر کار طویل انتظار کے بعد انھیں اپنے والد ملے تو تامونا کو پتا چلا کہ وہ پہلے ہی ان کے فیس بک فرینڈ تھے

تامونا کو حیرت ہوئی کہ گورگن تین سال سے ان کی فرینڈ لسٹ میں موجود تھے۔

لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ وہ تامونا کی کہانی کا حصہ ہیں۔

تامونا کہتی ہیں ’میرے والے کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مجھے جنم دینی والی ماں حاملہ ہو چکی تھیں۔ یہ سب ان کے لیے بہت بڑا سرپرائز تھا۔‘

جلد ہی تابونا نے مغربی جارجیا میں اپنے والد سے ملاقات کا انتظام کیا۔ یہ ان کا آبائی علاقہ ہے اور تامونا کی اپنی رہائش گاہ تبلیسی سے 260 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔

اس دن کے بارے میں بتاتے ہوئے تامونا کہتی ہیں کہ وہ شاک کی حالت میں تھیں اور جب وہ گورگن کے گھر کے دروازے پر پہنچیں تو حیرت انگیز طور پر وہ بالکل پُرسکون ہو گئیں۔

72 سالہ گورگن سامنے آئے، وہ دونوں ایک دوسرے سے بغل گیر ہوئے اور پھر ایک لمحے کو رک کر دونوں نے ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔

تامونا کہتی ہیں جب انھوں نے ’میری جانب دیکھا۔ وہ لمحہ بہت عجیب تھا۔ وہ جانتے تھے کہ میں ان کی بیٹی ہوں۔ میرے جذبات ملے جلے تھے۔‘

وہ کہتی ہیں میرے پاس بہت سے سوالات تھے اور میں نہیں جانتی تھی کہ کہاں سے شروع کروں۔ ’ہم بس اکٹھے بیٹھ گئے، ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے کہ کچھ مشترک چیز کو ڈھونڈیں۔‘

پھر جب وہ بیٹھ کر بات کرنے لگیں تو انھیں پتا چلا کہ ان کی بہت سی دلچسپیاں ایک جیسی ہیں۔ گورگن جو کہ کبھی سٹیٹ بیلے میں ایک معروف ڈانسر تھے یہ سن کر خوش ہوئے کہ تامونا کی بیٹی بھی اس کام میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں ’میری بیٹی اور شوہر دونوں کو ڈانس پسند ہے۔‘

Close-up of three women: Tamuna in a bright pink top, her half-sister who is wearing a red top and cousin who is in a white top. All three are smiling and have long, straight, dark hair.
Tamuna Museridze
بائیں جانب تامونا اپنی سوتیلی بہن کے ساتھ موجود ہیں جبکہ دائیں جانب ان کی کزن ہیں۔ انھیں ان دونوں خواتین سے ان کے والد نے متعارف کروایا

گورگن نے اپنے پورے خاندان کو اپنے گھر دعوت پر مدعو کیا تاکہ وہ تامونا سے ملیں۔ انھوں نے تامونا کو رشتہ داروں کے ایک بڑے گروپ سے ملوایا۔ جن میں ان کے سوتیلے بہن بھائی اور کزنز شامل تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ خاندان اس بات کو تسلیم کر رہا تھا کہ ان کی اپنے والد سے بہت مماثلت ہے۔ ’سب بچوں میں، میں اپنے والد سے سب سے زیادہ مماثلت رکھتی ہوں۔‘

انھوں نے وہ شام اکٹھے گزاری، ایک دوسرے سے کہانیاں شیئر کیں، جارجیا کے روایتی کھانے اور گانے گائے۔

اگرچہ اب وہ اپنے والد سے مل چکی تھیں پھر بھی تامونا کے ذہن میں اب بھی یہ سوال گردش کر رہا تھا کہ کیا وہ بھی ہزاروں جارجین بچوں کی طرح پیدائش کے وقت والدہ سے چرا لی گئی تھیں یا پھر انھیں بیچ دیا گیا تھا۔

ان کو گود لینے والے والدین اب زندہ نہیں تھے۔ اس لیے وہ ان کے پاس کسی جواب کے لیے نہیں جا سکتی تھی۔

پھر رواں برس اکتوبر میں آخر کار انھیں اپنی حقیقی والدہ سے پوچھنے کا موقع ملا۔

ایک ٹی وی کمپنی تابونا پر ڈاکیومنٹری بنا رہی تھی۔ وہ انھیں ان کی ماں کے پاس لے کر گئے جنھوں نے علیحدگی میں ان سے بات کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔

تامونا کو ان کی ماں نے خود چھوڑا تھا اور اس بات کو 40 برس تک راز رکھا۔

A head shot of Gurgen and Tamuna standing close together - he is wearing a white top, she is wearing a black top and sunglasses.
Tamuna Museridze
تامونا اور گورگن مسلسل ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں اور انھوں نے کرسمس پر ملنے کا پلان بنایا ہے

اس کے والد اور والدہ کسی تعلق میں نہیں تھے، بس کچھ وقت کے لیے ہی ملے تھے۔ ان کی والدہ بہت شرمندہ تھیں اور اس وجہ سے انھوں نے اسے چھپانے کا فیصلہ کیا۔

ستمبر 1984 میں انھوں نے تبیلسی کا سفر کیا اور لوگوں کو کہا کہ وہ سرجری کروانے جا رہی ہیں لیکن بچی کی پیدائش کے بعد وہ تب تک وہیں رہیں، جب تک اس کو کسی جوڑے کو گود دینے کے انتظامات نہیں ہو گئے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بہت تکلیف دہ ہے کہ میں نے پیدائش کے بعد کسی اور کو گود دیے جانے سے پہلے 10 دن اپنی والدہ کے ساتھ گزارے، میں نے کوشش کی کہ میں اس بارے میں نہ سوچوں۔‘

Two smiling women standing close together. Nia (L) has long straight blonde hair that is tied back and is wearing a white jacket over a sleeveless, dusky pink dress; Tamuna (R) has long, dark, straight hair and is wearing a strapless white top with a white scarf.
Tamuna Museridze
دائیں جانب موجود تامونا اب اپنے بہت سے سگے رشتہ داروں کے قریب ہو گئی ہیں تصویر میں بائیں جانب موجود نیہ ان کی کزن ہیں

وہ کہتی ہیں کہ ان کی والدہ نے انھیں کہا کہ وہ جھوٹ بولیں اور لوگوں کو کہیں کہ انھیں چُرا لیا گیا تھا۔

’انھوں نے مجھے کہا کہ اگر میں نے یہ نہ کہا کہ مجھے چُرایا گیا ہے تو ہمارے درمیان سب کچھ ختم ہو جائے گا۔۔۔ اور میں نے کہا کہ میں یہ نہیں کر سکتی۔‘

وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اگر میں نے جھوٹ بولا تو کوئی بھی ان ماؤں پر یقین نہیں کرے گا۔‘

پھر ان کی والدہ نے انھیں کہا کہ ’وہ چلی جائیں اور تب سے اب تک ان کی کوئی بات نہیں ہوئی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’کیا یہ سب میں دوبارہ کروں گی؟ یقیناً کروں گی، مجھے اپنے نئے خاندان کے بارے میں بہت کچھ پتا چلا ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.