جنوبی کوریا کی خوشی پاکستانیوں کو کیوں چڑھی ہوئی ہے؟

حالات کی مار سہتے سہتے شاید ہمارا حال اس تماشائی کا سا ہو چلا ہے جسے خود تو ہیرو بننے کا موقع نہیں مل پا رہا مگر وہ جب بھی کسی امیتابھ بچن یا سلطان راہی کے ہاتھوں ولن کو پٹتے دیکھتا ہے اور پھر سینما ہال سے نکلتا ہے تو خود بخود سینہ اور ٹانگیں چوڑے ہو جاتے ہیں۔ چہرے پر ایک عارضی تمکنت رقص کرنے لگتی ہے۔ پڑھیے وسعت اللہ خان کا کالم۔
south korea
Getty Images

جنوبی کوریا کی پیدائش دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور سوویت یونین کی سرد جنگ کے نتیجے میں ہوئی تھی۔ فاتحین نے ایک ہی ملک کو کاٹ ڈالا۔ شمالی حصے میں پچھلے 76 برس سے ’کِم خاندان‘ کی کمیونسٹ بادشاہت ہے۔ جبکہ جنوبی کوریا میں کب آمریت جمہوریت کا اور جمہوریت آمریت کا بھیس بدل لے، کچھ پتہ نہیں چلتا۔

سنہ 1948 سے اب تک جنوبی کوریا19 فوجی و سویلین صدر اور 16 چھوٹے بڑے مارشل لا بھگت چکا ہے۔

ملک کے پہلے صدر سنگمن ری حالانکہ سویلین تھے مگر پہلا مارشل لا بھی انھوں نے ہی لگایا۔ آپ نے اس دوران قائدِ حزبِ اختلاف کو شمالی کوریا کا جاسوس ثابت کر کے فائرنگ سکواڈ کے سپرد کر دیا اور اپوزیشن کے لگ بھگ چالیس ہزار کارکنوں کو بھی لٹا دیا اور پھر جم کے تقریباً بارہ برس حکومت کی۔

سنگمن ری نے جب لگاتار چوتھا الیکشن بھی جھرلو گھما کے جیت لیا تو جنتا کا پیمانہِ صبر لبریز ہو گیا اور آپ کو امریکی سی آئی اے کی مدد سے ہیلی کاپٹر میں فرار ہونا پڑا اور وفات تک اگلے چار برس ریاست ہوائی میں گزارے۔

سنگمن ری کے فرار کے بعد اگلے دو برس میں پانچ صدر آئے گئے۔ پہلا پچاس دن، دوسرا سات دن، تیسرا چھیالیس دن، چوتھا پانچ دن اور پانچواں تقریباً پونے دو برس ٹک پایا۔ اس دوران آئین میں ترمیم کر کے صدارتی نظام کو پارلیمانی کر دیا گیا۔

ایک میجر جنرل پارک چنگ ہی نے یہ تماشا دیکھ کر سوچا کہ اس ’سیاسی سرکس‘ سے تو کہیں بہتر ہے کہ میں ہی صدر بن جاؤں۔ چنانچہ جنوبی کوریا کو پہلا فوجی حکمران مل گیا۔ پارک نے اپنے لیے ایکطاقتور صدارتی آئین تیار کیا۔ پونے دو برس مارشل لا کے بلپر حکومت کی۔ پھر سوٹ پہن لیا۔ سیاسی مخالفین میں شمالی کوریا کے ’ایجنٹ‘ ڈھونڈنے کے لیے نیشنل انٹیلیجنس ایجنسی تشکیل دی اور پانچ الیکشن رچا کے خود ہی جیت لیے۔

پارک چنگ ہی نے وردی و بنا وردی لگ بھگ 16 برس حکومت کی۔ جان چھڑانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ہی ایک بروٹس نے صدرِ زی وقار کو 1979 میں گولی مار دی۔

south korea
Getty Images

پارک چنگ ہی کے خاتمے کے بعد دو مزید نیم عسکری صدور آئے۔ ایک 255 دن کے لیے اور دوسرا پندرہ دن کے لیے۔ پھر ایک اور میجر جنرل چن ڈو ہوان نے 177 دن کا مارشل لا لگا دیا۔ آپ کو مخالفت دبانے کے لیے گوانگجو شہر میں ظالمانہ فوجی کریک ڈاؤن کرنا پڑا جس میں دو سو سے زائد طلبا اور مزدور ہلاک ہوئے۔ آپ نے کلیدی انتظامی عہدوں پر سابق جرنیلوں کو بڑی تعداد میں فائز کیا، پھر آئین میں مدتِ صدارت کو سات برس تک بڑھایا، الیکشن کروائے اور صدارتی مدت کے خاتمے کے بعد 1988 میں چن ڈو ہوان نے خود ہی آئین میں ترمیم کر کے مدتِ صدارت سات سے کم کروا کے پانچ برس کر دی۔

البتہ اگلے انتخابات یوں قدرے شفاف ہو گئے کہ جنرل صاحب امیدوار نہیں ہوئے۔ یوں 27 برس کے وقفے سے جنوبی کوریا کو پہلا خالص سویلین صدر رو تائی وو کی شکل میں نصیب ہوا۔ صدر رو نے پانچ برس کی آئینی مدت مکمل کی اور پہلی بار ایکسویلین ہاتھ نے حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے نئے سویلین صدر (کم یونگ سام) کو اقتدار کی چھڑی آرام سے تھما دی۔

کم یونگ سام نے بھی پورے پانچ برس مکمل کیے لیکن اپنے پیش رو صدور (چن ڈو ہوان اور رو تائی وو)کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، کرپشن و رشوت ستانی کے جرائم میں جیل بجھوانا نہیں بھولے۔

اس کے باوجود کم یونگ سام کو اگلے الیکشن میں شکست ہوئی۔ کم ڈائے جنگ نئے صدر بنے اور انکے بعد رو مو ہیون اور ان کے بعد لی میونگ بک نےپانچ برس کی دستوری مدت پوری کی۔

مگر رو مو ہیون کو بھی سبکدوشی کے بعد اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کی فردِ جرم کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے مارے غیرت دریا میں کود کے جان دے دی۔ (جبکہ سابق صدر لی میونگ ہک کو 2020 میں سپریم کورٹ نے تقریباً یہی جرائم ثابت ہونے پر 24 برس کے لیے جیل بھیج دیا)۔

سنہ 2013 میں سابق مقتول فوجی آمر پارک چنگ ہی کی صاحبزادی پارک یونگ ہائی ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب ہوئیں۔ مگر کرپشن و اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزام میں پارلیمنٹ نے ان کا مواخذہ کر کے چار سال چودہ دن بعد گھر بھیج دیا۔ پارک یونگ ہائی پر مقدمہ چلا اور وہ بھی جیل میں ہیں۔

پارک یونگ ہائی کے بعد حکومت کی پانچ سالہ مدت کی بقیہ معیاد پوری کرنے کے لیے ہوانگ کیو آہن صدر بنے اور 152 دن بعد استعفیٰ دے دیا۔ آہن کے بعد مون جائے ان نے پانچ برس کی نئی مدت مکمل کی اور پھر موجودہ صدر یون سک اوول مئی 2022 میں منتخب ہوئے۔

موجودہ صدر اور ان کی اہلیہ نے آتے ہی ’چن چڑھانے‘ شروع کر دیے۔

south korea
Getty Images

لوگوں کی ان سے بیزاری کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ وہ ایک فیصد سے بھی کم اکثریت سے صدر منتحب ہوئے۔ صدر یون سک اوائل جوانی میں پادری بننا چاہتے تھے مگر وکیل بن گئے اور وکالت کی ڈگری بھی 1951 میں نو بار کی امتحانی کوششوں کے بعد نصیب ہو پائی۔

ان کی اہلیہ کم ہیون ہی پر الزام ہے کہ ان کا گریجویشن کا تھیسز سرقہ شدہ ہے۔ خآتونِ اول بنتے ہی محترمہ نے مبینہ طور پر انتظامی معاملات میں بھی دخل دینا شروع کر دیا، اپنے من پسند بہت سے امیدواروں کو حکمران پیپلز پاور پارٹی کے ٹکٹ دلوائے مگر اکثر اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی سے ہار گئے اور پارلیمنٹ حکمران جماعت کے ہاتھ سے نکل گئی۔

گذشتہ برس خاتونِ اول کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں وہ ایک کورین نژاد امریکی پادری سے لگ بھگ ڈھائی ہزار ڈالر مالیت کا قیمتی بیگ بطور رشوت وصولرہی ہیں۔ (شاید جنوبی کوریا میں توشہ خانہ نہیں ہوتا)۔

صدر یون سک اوول نے خاتونِ اول پر عائد کرپشن الزامات کی تحقیقات کروانے کے بجائے زوجہ محترمہکا مسلسل دفاع جاری رکھا۔ اس بابت پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے تین قانونی مسودوں کو ویٹو بھی کیا۔ گذشتہ ماہ چار و ناچار انھوں نے قوم سے نشری خطاب میں خاتونِ اول کی ناسمجھی پر معافی مانگی (اہلیہ نے نہیں مانگی)۔

اب سے دو دن پہلے سامنے آنے والے تازہ سروے سے ظاہر ہوا کہ صدر یون کی عوامی مقبولیت محض پچیس فیصد رہ گئی ہے۔

اس کے باوجود کل (بروز منگل) صدر صاحب کو جانے کیا سوجھی کہ مارشل لا لگانے کا اعلان کر دیا۔ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے ڈالیں اور’پارلیمنٹ میں گھسے ہوئے شمالی کوریائی ایجنٹوں‘ کی خبر لینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل پارک آنسو کو مارشل لا کمانڈر بھی نامزد کر دیا۔

تاہم چند ہی گھنٹے بعد عوام کی جانب سے پارلیمنٹ کے حفاظتی گھیراؤ کے سبب حالات پلٹنے لگے۔ سپیکر نے پولیس اور فوج کو پارلیمنٹ کا احاطہ خالی کرنے کا حکم دیا۔ تین سو ارکان پر مشتمل ایوان نے 190 ووٹوں سے منظور کردہ قرار داد میں مارشل لا کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔ مخالفت میں ایک ووٹ بھی نہیں ڈلا۔

صدر نے یوٹرن لیا اور پارلیمانی مطالبے کے سامنے کابینہ کے مشورے سے ہتھیار ڈال دیے۔ نہ صرف حکمران جماعت بلکہ دارالحکومت سیول کے مئیر نے بھی اس صدارتی بچگانہ پن کے لتے لیے (عین ممکن ہے کہ آپ تک یہ مضمون پہنچتے پہنچتے صدر صاحب سبکدوشی کے بعد مواخذے کے کٹہرے میں ہوں)۔

گویا ثابت ہو رہا ہے کہ پچھلے 33 برس میں جنوبی کوریا میں سویلین بالادستی جڑ پکڑ چکی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ پہلے فوجی آمر پارک چنگ ہی سے لے کے اب تک آنے والی ہر حکومت نے سیاسی مخالفین کے ساتھ بھلے بہت برا کیا ہو مگر قومی معیشت کی قیمت پر ہرگز نہیں۔

جنوبی کوریا
Getty Images

شاید اسی لیے اتنی اتھل پتھل، چھینا جھپٹی اور سکینڈلز کے باوجود جنوبی کوریا جس کی فی کس آمدنی 1960 میں ایک سو بیس ڈالر تھی آج پینتیس ہزار ڈالرہے۔ سوا پانچ کروڑ آبادی والا یہ ملک اس لمحے بارہویں عالمی اورچوتھی ایشیائی معیشت ہے جس کا حجم لگ بھگ دو ٹریلین ڈالر ہے۔

تازہ واقعات سے پہلے بھی ہم یہ یاد کر کر کے پھولے نہیں سماتے تھے کہ 1960 کی دہائی میں جنوبی کوریا کا پہلا پنج سالہ اقتصادی منصوبہ ایوب خان کے پہلے پنج سالہ منصوبے کی فوٹو کاپی تھی۔ ہم پیچھے رہ گئے تو کیا ہوا ’ساڈے ہتھاں دا منڈا تے اگے نکل گیا۔‘

جنوبی کوریا سے ہمارا دوسرا روحانی تعلق نوے کی دہائی میں ڈائیوو کے لاہور اسلام آباد موٹر وے اور ہنڈائی کی پیلی ٹیکسی کے ذریعے استوار ہوا۔

پاکستانی سوشل میڈیا جنوبی کوریا کو اس وقت جس رشکیلی حسرت سے دیکھ رہا ہے اس کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ ’چلو کسی ملک کے عوام، پارلیمنٹ اور سیاست دانوں نے تو غیرت دکھائی۔‘

جولائی 2016 میں جب چار مارشل لاؤں کے ڈسے ترکی میں تختہ پلٹنے کی بالائے آئین ایک اور کوشش روکنے کے لیے استنبول کی سڑکیں رجب طیب اردوغان کے غضب ناک حامیوں سے بھر گئیں تب بھی ہمارا سوشل میڈیا ایک ٹانگ پر ناچا تھا۔

حالات کی مار سہتے سہتے شاید ہمارا حال اس تماشائی کا سا ہو چلا ہے جسے خود تو ہیرو بننے کا موقع نہیں مل پا رہا مگر وہ جب بھی کسی امیتابھ بچن یا سلطان راہی کے ہاتھوں ولن کو پٹتے دیکھتا ہے اور پھر سینما ہال سے نکلتا ہے تو خود بخود سینہ اور ٹانگیں چوڑے ہو جاتے ہیں۔ چہرے پر ایک عارضی تمکنت رقص کرنے لگتی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.