ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں باغیوں کی جانب سے اسد خاندان کی سفاکانہ کہلائی جانے والی دہائیوں پر محیط حکمرانی کے خاتمے کے بعد اب ملک کے مستقبل کے بارے میںکئی اہم سوالات گردش کر رہے ہیں۔ ہیئت تحریر الشامکے رہنما ابو محمد الجولانی نے شام کو متحد کرنے کا عہد کیا ہے لیکن یہ بات غیر یقینی ہے کہ آیا وہ اس مقصد کو حاصل کر پائیں گے کہ نہیں۔
’ہیئت تحریر الشام‘ کی قیادت میں باغیوں کی جانب سے اسد خاندان کی سفاکانہ کہلائی جانے والی اور دہائیوں پر محیط حکمرانی کے خاتمے کے بعد اب شام کے مستقبل کے بارے میںکئی اہم سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی نے اہنے بیانات میں شام کو متحد کرنے کا عہد کیا ہے تاہم یہ بات غیر یقینی ہے کہ آیا وہ اس مقصد کو حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔
اقوام متحدہ کے شام کے لیے خصوصی ایلچی گیئر پیڈرسن نے شام میں تمام گروہوں کے درمیان تعاون کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر شام کے مستقبل کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ تاہم بی بی سی سے بات چیت میں ماہرین نے ملک کے مستقبل کے تین ممکنہ منظرناموں پر روشنی ڈالی ہے۔
متحد شام
شام کے حق میں سب سے بہتر تو یہ ہو گا کہ ہیئت تحریر الشام ملک میں موجود دیگر سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرے اور ذمہ داری کے ساتھ حکومت کرے۔
جنگ کے بعد شام میں اب قومی مفاہمت کے ماحول کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ یہ بدلہ لینے اور لوٹ مار کی اس روایت کو توڑنے کا موقع ہے جس کی مثال پڑوسی ریاستوں میں ملتی ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو نئے تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔
اپنے ابتدائی بیانات میں جولانی نے شام کے مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد اور باہمی احترام کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ شام میں موجود متعدد گروہوں کے ایجنڈے ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے۔
برطانیہ کی کوئین میری یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر پروفیسرکرسٹوفر فلپ کہتے ہیں کہ ’ابھی ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ہیئت تحریر نے ایسی پوزیشن اپنائی ہے کہ جیسے وہ شام میں قابل عمل اور پرامن اقتدار کی منتقلی کے لیے تیار ہیں، تاہم صورتحال انتہائی غیر مستحکم ہے۔
شام کے جنوب کو کنٹرول کرنے والی قبائلی ملیشیا کی جانب سے دمشق میں قائم ہونے والی نئی حکومت کی پیروی کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ان قبائل نے کبھی اسد خاندان کی حاکمیت کو بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔
جبکہ مشرق میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی جانب سے خطرہ اب بھی موجود ہے۔
ملک کے شمال مشرق کے کچھ حصوں پر امریکی حمایت یافتہ کرد گروہوں کا کنٹرول ہے۔ امریکی حمایت یافتہ یہ گروہ برسوں سے ترک حمایت یافتہ باغی گروپوں سے لڑتے آئے ہیں اور حال ہی میں ان علاقوں میں دوبارہ جھڑپوں کا آغاز ہو گیا ہے۔
سنہ 2011 کے بعد سے شام کے باہر بھی کئی اپوزیشن گروہ اور سیاسی بلاکس تشکیل پا چکے ہیں۔ تاہم ابھی ’یہ واضح نہیں کہ آیا یہ شخصیات اور گروہ ملک واپس لوٹ کر کسی سیاسی تبدیلی کے عمل کا حصہ بنیں گے یا نہیں۔
سوئٹزرلینڈ کی لوزان یونیورسٹی کے پروفیسر اور ’سیریا آفٹر دا اپ رائزنگ ‘ کے مصنف جوزف داہر کہتے ہیں کہ اس بارے میں ایک غیر یقینی کی صورتحال درپیش ہے کہ آیا ایک متحد حکومت قائم ہو بھی سکے گی یا نہیں۔
ان کے خیال میں سب سے بہتر تو یہ ہو گا کہ آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں شام میں مشترکہ حکومت قائم ہو جس میں تمام گروہوں کی نمائندگی ہو۔ ’لیکن اصل میں کیا ہو گا یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔‘
لیکن داہراور دیگر ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایسا منظرنامہ کافی حد تک ناممکن ہے۔ وہ اپنی بات ثابت کرتے کے لیے ابو محمد جولانی کے پہلے عوامی اعلان میں موجود تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں۔
’پہلے جولانی نے اعلان کیا کہ سابق حکومت کے وزیر اعظم اقتدار کی منتقلی کی نگرانی کریں گے۔ بعد ازاں انھوں نے ادلب میں ہیئت تحریر الشام کے تحت قائم نیشنل سالویشن گورنمنٹ کے وزیرِ اعظم (محمد البشیر) کو اس کام کے لیے نامزد کر دیا۔‘
تاہم جوزف داہر کی خیال میں ہیئت تحریر الشام کی مکمل طاقت کے حصول کی خواہش کے باوجود اسے پورے ملک کو اپنے طور پر سنبھالنے میں مشکلات پیش آئیں گی۔
ان کے مطابق شروع میں ہیئت تحریر الشام صرف ادلب کو سنبھال رہی تھی لیکن اب حلب، حما، حمص اور دارالحکومت دمشق کا انتظام بھی ان کے پاس ہے۔ داہر کے خیال میں ہیئت تحریر کو اب دیگر گروہوں کے ساتھ طاقت بانٹنی پڑے گی۔
ہیئت تحریر: طاقت کے زور پر کنٹرول
ایسے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ بشارالاسد حکومت کی طرح ہیئت التحریر بھی اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے آمرانہ طریقے استعمال کر سکتی ہے۔
اس سے قبل ابو محمد جولانی ادلب میں ایک پاور بیس قائم کر چکے ہیں جو باغیوں کا سب سے بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ ادلب میں تقریباً 40 لاکھ افراد آباد تھے جن میں اکثریت ان بے گھر افراد کی تھی جنھوں نے ملک کے دوسرے حصوں سے آ کر یہاں پناہ لی تھی۔ اس علاقے کا انتظام نیشنل سلویشن گورنمنٹ کے ہاتھ میں تھا۔
ان کی قیادت میں ہیئت تحریر الشام نے حلب صوبے میں اسلامی نظام نافذ کیا، عدالتیں بنائیں اور پولیس فورس تک قائم کی۔
اس دوران الجولانی نے عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ چلانے اور سفارت کاری میں مہارت بھی دکھائی اور شام کے تنازع میں ایک اہم کردار بن کر ابھرے۔
وہ علاقے جو ان کے گروہ کے زیر انتظام ہیں، وہاں ایک ایسی حکومت موجود ہے جو معیشت، صحت، تعلیم اور سکیورٹی تک کا انتظام کرتی ہے۔
جولانی ان اقدامات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ استحکام اور عوامی خدمات کے شعبوں کو ترجیح دے کر مؤثر طریقے سے حکومت کر سکتے ہیں۔
تاہم ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ادلب پر کنٹرول کے دوران ان کے گروہ نے حریف عسکریت پسند دھڑوں اور اختلاف رائے کو دبایا تھا۔
27 نومبر کو ہیئت تحریر کی زیرقیادت شروع ہونے والی کارروائیوں سے قبل ادلب میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ سخت گیر اسلام پسندوں اور شامی کارکنوں نے ہیئت تحریر پر آمرانہ طرز عمل کا الزام لگایا۔
جوزف داہر کہتے ہیں کہ ہیئت تحریر نے اپنی حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ ’اگرچہ ہیئت تحریر نے ادلب میں تمام مخالف مسلح گروہوں کو اپنے ساتھ شامل کر کے اور خدمات فراہم کر کے اپنی طاقت کو مستحکم کیا لیکن ان کی طرزحکمرانی میں جبر اور سیاسی مخالفین کو قید کرنا بھی شامل رہا ہے۔‘
ان الزامات کے بعد ہیئت تحریر نے اصلاحات نافذ کیں جن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام کی زد میں آئی ایک متنازع سکیورٹی فورس کا خاتمہ اور شہریوں کی شکایات سے نمٹنے کے لیے ایک شعبے کا قیام بھی شامل ہے تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات محض لوگوں کو چپ کروانے کے لیے تھیں۔
ہیئت تحریر کا دعویٰ ہے کہ شام میں پیشرفت اور اسد حکومت کو حتمی طور پر ہٹانے کے لیے ادلب میں طاقت کو مستحکم کرنا ضروری تھا۔ تاہم پروفیسر داہر کہتے ہیں کہاس تنظیم کو اس وقت ایک بے مثال صورتحال کا سامنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دمشق تک اپنی حکومت کو پھیلانے کے بعد ان کے پاس ان تمام علاقوں کو سنبھالنے کے لیے نہ تو فوجی وسائل ہیں اور نہ ہی انسانی وسائل میسر ہیں۔‘
خانہ جنگی
بدترین صورت حال میں یہ ممکن ہے کہشام کا انتشار اس حد تک بڑھ جائے جیسا عرب سپرنگ کے بعد دوسرے ممالک میں ہوا تھا۔
اس دور میں لیبیا کے معمر قذافی اور عراق کے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹایا گیا مگر ان کی جگہ لینے کے لیے کوئی متبادل قوت موجود نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی مداخلت نے بھی ایک تباہ کن صورت حال کو جنم دینے میں حصہ ڈالا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ آمر رہنماؤں کے جانے سے پیدا ہونے والے خلا کی جگہ لوٹ مار، انتقام، طاقت کی کشمکش اور خانہ جنگی کی لہر نے لے لی تھی۔
اس منظرنامے میں شام کے مختلف مسلح گروپوں کے درمیان طاقت کےحصول کے لیے مقابلہ بڑے پیمانے پر تشدد کا باعث بن سکتا ہے جس سے نہ صرف شام بلکہ پورے خطے کو عدم استحکامکا سامنا ہو سکتا ہے۔
بی بی سی عربی کے نمائندہ خصوصی فراس کیلانی نے اپنی رپورٹمیں کہا کہ شام میں البشیر کا عبوری وزیرِ اعظم کے طور پر پہلا خطاب کئی لوگوں کے لیے تشویش کا باعث بن چکا ہے اور اس سے نئی حکومت کی ممکنہ سمت کی جانب اشارہ ملتا ہے۔
’نئے وزیرِ اعظم کے خطاب کے دوران ان کے پیچھے دو جھنڈے تھے جن میں سے ایک ’انقلاب کا جھنڈا‘ اوردوسراطالبان کے جھنڈے سے ملتا جلتا، جس نے بہت سے لوگوں کو چونکا دیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نئی حکومت طالبان ماڈل کی پیروی کر سکتی ہے جو شریعت کے قانون کے مطابق حکمرانی کرنے والی ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لائے۔‘
’یہ نئے چیلنجز اور ملک میں اقلیتی گروپوں اور شہری تنظیموں کے مستقبل کے حوالے سے نئے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔‘
بیرونی قووتوں کا کردار
ماہرین کا خیال ہے کہ ان تین میں سے شام کا ممکنہ مستقبل کیا ہو گا اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ بین الاقوامی قوتیں اس معاملے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں۔
کئی دہائیوں تک اسد خاندان روس اور ایران کی حمایت پر انحصار کرتا آیا جبکہ ترکی، مغربی اور خلیجی ممالک حزبِ اختلاف کے مختلف گروہوں کو سپورٹ کرتے آئے ہیں۔
گذشتہ چند روز کے دوران اسرائیل نے نہ صرف شامی فوج کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے بلکہ اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کی فوجیں گولان کی پہاڑیوں میں قائم بفر زون سے آگے نکل کر شام کی حدود کے اندر کارروائیاں کر رہی ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے اس کی فوج نے سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں جس میں اس کے مطابق شام کے بیشتر ہتھیروں کے ذخیرے تباہ کر دیے گئے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے شامی باغیوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ملک میں ایران کو دوبارہ اپنے قدم جمانے نہ دیں۔
دوسری جانب ترکی اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیل شام کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
فلپ خبردار کرتے ہیں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں شام عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
داہر اور فلپ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ شام کی معاشی ترقی کے لیے اس پر عائد عالمی پابندیاں ہٹا دینی چاہییں اور عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ انسانی بنیادوں پر امداد بھی فراہم کریں۔
داہر کہتے ہیں کہ ’اب کیوں کہ اسد کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے تو پابندیاں بھی اٹھا لینی چاہییں۔‘
'میرے خیال میں امریکہ اور یورپی یونین کو معاشی بحالی اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کی سطح کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ اس میں اضافہ بھی کرنے کہ ضرورت ہے۔'
فلپ کہتے ہیں کہ پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں عالمی طاقتیں نئے آئین اور جمہوری اصلاحات جیسی چیزوں کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔