سارہ شریف کے والد اور سوتیلی والدہ کی پاکستان میں روپوشی: ’بین الاقوامی سطح پر چلنے والے تلاش کے آپریشن کے دوران میں نے انھیں چھپا رکھا تھا‘

برطانیہ کی ایک عدالت نے 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کے الزام میں گرفتار اُن کے پاکستانی نژاد والد اور سوتیلی والدہ کو مجرم قرار دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اُن کی تلاش کے آپریشن کے باوجود یہ خاندان چار ہفتوں سے زائد عرصے تک پاکستان میں روپوش رہا۔ برطانوی ایئرپورٹ پر گرفتاری سے قبل عرفان شریف اور اُن کے اہلخانہ پاکستان میں روپوشی کی زندگی کیسے گزار رہے تھے؟
راسخ
BBC

کلاشنکوف سے مسلح ایک شخص نے ہمیں گلی میں اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا۔ ہم پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ایسے شخص سے ملنے کے لیے موجود ہیں جس کا کہنا ہے کہ وہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ سارہ شریف کا خاندان کیسے چار ہفتوں سے زائد عرصے تک پاکستان میں موجود رہتے ہوئے پولیس سے چھپنے میں کامیاب رہا تھا۔

رائفل اٹھائے شخص نے پھر خود ہی اِس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ دراصل اُسی نے انھیں (سارہ کے اہلخانہ) چھپا رکھا تھا۔

تقریباً گذشتہ ایک ماہ سے پولیس سارہ شریف کے والد عرفان شریف، سوتیلی والدہ بینش بتول، چچا فیصل ملک اور سارہ کے دیگر پانچ بہن بھائیوں کی تلاش میں تھی۔

یہ آٹھوں افراد نو اگست 2023 کو برطانیہ سے پاکستان پہنچے تھے۔ اُن کے پاکستان پہنچنے کے ایک ہی روز بعد پولیس کو برطانیہ کے علاقے ووکنگ میں عرفان شریف سے گھر کے ایک بیڈروم سے 10 سالہ سارہ شریف کی تشدد زدہ لاش ملی تھی۔

عرفان، بینش اور فیصل کو تلاش کرنے کے لیے انٹرپول کی طرف سے نوٹس موصول ہونے کے بعد پاکستانی پولیس نے پورے ملک میں اس خاندان کی تلاش کا کام شروع کر دیا تھا اور اس ضمن میں متعدد ٹیمیں تعینات کی گئی تھیں۔

پولیس کو ابتدا میں عرفان شریف کے ایک رشتہ دار راسخ منیر پر شک تھا۔ لیکن راسخ کے گھر پر مارے گئے متعدد چھاپوں کے باوجود پولیس مطلوبہ افراد کو تلاش کرنے میں ناکام رہی تھی۔

برطانیہ سے عرفان شریف اور بینش کے ہمراہ آنے والے پانچ بچے بعدازاں اُن کے ایک اور رشتہ دار کے گھر سے ملے۔ راسخ منیر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہی وہ لمحہ تھا (بچوں کو تحویل میں لیے جانا) جب عرفان، بینش اور فیصل نے برطانیہ واپس جانے کا فیصلہ کیا اور وہاں پہنچتے ہی انھیں بالآخر 13 ستمبر 2023 کو گرفتار کر لیا گیا۔

سارہ کی موت کی اطلاعات موصول ہونے کے بعد سے بی بی سی کی ٹیم پاکستان میں اس کہانی سے منسلک معاملات کو دیکھ رہی ہے۔

سارہ کے والد، چچا اور سوتیلی والدہ پر لندن میں قتل کا مقدمہ چلنے سے قبل اور اس سے بھی پہلے کہ انگلینڈ میں جیوری سارہ شریف کو لگنے والی چوٹوں کی ہولناک تفصیلات،جیسا کہ سارہ کے جسم پر موجود گرم استری سے جلائے جانے اور دانتوں سے کاٹے کے نشانات، سُنتی ہم راسخ منیر سے پاکستان میں مل چکے تھے۔

راسخ نے ہمیں بتایا کہ ابتدا میں انھیں یقین تھا کہ عرفان بے قصور ہیں اور اپنے بچوں کی حفاظت کی غرض سے وہ اپنے خاندان کو پاکستان لائے ہیں۔ انھوں نے وہ غیر معمولی تفصیلات بھی بتائیں کہ جب درجنوں تفتیش کار اِن افراد کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہے تھے تو کیسے وہ انھیں علاقے میں گھما پھرا رہے تھے، آئس کریم خرید رہے تھے اور یہاں تک کہ حجام کی دکان پر بھی گئے۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کیسے ایک رات جب پولیس نے اُن کے گھر پر عرفان اور اُن کے اہلخانہ کی تلاش کے لیے چھاپہ مارا تو یہ افراد پولیس سے بچنے کے لیے قریب واقع مکئی کے کھیت میں چھپے رہے۔

ایک رشتہ دار کے گھر سے عرفان اور بینش کے پانچ بچے برآمد ہونے کے کچھ دیر بعد بی بی سی کی ٹیم نے اسی علاقے میں سارہ کے دادا سے بات چیت کی تھی۔ راسخ نے ہمیں بتایا کہ جس جگہ ہم سارہ کے دادا سے بات کر رہے تھے اس سے کچھ ہی گز کے فاصلے پر عرفان، بینش اور فیصل ایک پڑوسی کے گھر میں روپوش تھے۔

لندن میں جیوری نے اب عرفان اور بینش کو سارہ کے قتل کا مجرم قرار دے دیا ہے۔ چچا فیصل ملک کو اگرچہ قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا ہے تاہم انھیں موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا قصوروار قرار دیا گیا ہے۔

ہم پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کے اُس مضافاتی قصبے میں راسخ منیر سے ملے تھے جو چاول کے کھیتوں اور مکئی کی فصلوں سے گھرا ہوا ہے۔

اُن کے گھر کے گیٹ کے اوپر خاردار تاریں لگی ہوئی ہیں اور یہاں اوپر ایک سکیورٹی کیمرہ بھی نصب ہے۔ جب وہ گھر سے باہر نکلے تو انھوں نے ٹریک سوٹ پہن رکھا تھا۔

ہماری اس ملاقات سے قبل ہی راسخ نے مجھے بتایا کہ انھوں نے عرفان اور اُن کے اہلخانہ کو چھپا کر کوئی غلط کام نہیں کیا۔ جب یہ افراد راسخ کے گھر میں روپوش تھے اس وقت تک پاکستانی حکام کو ان کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی تھی تاہم راسخ کو یہ ضرور معلوم تھا کہ پولیس سارہ کی موت کے حوالے سے اُن سے (عرفان، بینش اور فیصل) بات کرنا چاہتی تھی۔

جبپہلی مرتبہ ہماری آمنے سامنے راسخ سے ملاقات ہوئی تو چند ہی منٹوں میں انھوں نے ہمیں وہ گھر دکھانا شروع کر دیا جہاں عرفان، بینش اور فیصل روپوش رہے تھے۔

ایک تاریک کمرہ دکھاتے ہوئے انھوں نے بتایا 'یہ عرفان کا کمرہ تھا۔' اُس کمرے میں لگے پردے بند تھے، یہاں ایک سفید بیڈ پڑا تھا جس پر پیلے رنگ کی چادر بچھی ہوئی تھی۔

'وہ (عرفان اور فیصل) یہاں سوتے تھے۔' ایک سُرخ پلاسٹک کی میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے راسخ نے بتایا کہ 'وہ اس میز کو کھانا کھانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔'

یہاں موجود ایک نیلے رنگ کے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے راسخ نے بتایا کہ 'عرفان، بینش اور فیصل یہاں بیٹھ کر وکیل سے رابطہ کرتے تھے اور اس بات پر بحث کرتے تھے کہ انھیں برطانیہ میں پولیس سے کیسے بات کرنی چاہیے۔'

اس کے بعد راسخ ہمیں ایک دوسرے بیڈروم کی طرف لے گئے۔ اس کمرے میں گہرے سرخ رنگ کے پردے لٹکائے گئے تھے اور لکڑی کی الماری کے ساتھ ایک ڈبل بیڈ رکھا ہوا تھا۔ یہ کمرہ دکھاتے ہوئے راسخ نے ہمیں بتایا کہ 'یہ وہ جگہ ہے جہاں بینش اور بچے سوتے تھے، کچھ بیڈ پر اور کچھ فرش پر بچھائے گدوں پر۔'

تصویر
BBC
راسخ کے مطابق اس کمرے میں بینش اور بچے سوتے تھے

جب ہم یہ بات کر رہے تھے تو مجھے محسوس ہوا کہ راسخ نے اپنی کمر کے ساتھ پستول اُڑسا ہوا ہے۔ میں نے اس سے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ چوروں سے تحفظ کے لیے ہیں۔

اس کے بعد ہم گھر کی چھت پر چڑھ گئے۔ نیچے نظر آنے والے کُھلے میدانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے راسخ نے کہا کہ 'اِس چھت سے آپ چاروں اطراف نظر رکھ سکتے ہیں۔'

چند ایک منزلہ گھروں اور عمارتوں اور چند ایک درختوں کے ساتھ مرکزی سڑک تک کا منظر یہاں سے واضح نظر آ رہا تھا۔

راسخ نے ہمیں بتایا کہ پولیس کئی مواقع پر رات کی تاریکی میں اُن کے گھر عرفان اور اس کے اہلخانہ کی تلاش میں آئی۔ انھوں نے بتایا کہ کیسے عرفان اور ان کے اہلخانہ پولیس کے اس نوعیت کے چھاپوں کے دوران گھر سے چند میٹر دور مکئی کے گھنے کھیت میں چھپ جاتے تھے، اور وہ بھی گھپ اندھیرے اور انتہائی گرم مرطوب موسم میں۔

راسخ
BBC
راسخ بتاتے ہیں کہ پولیس سے بچنے کے لیے جب بچے مکئی کے کھیت میں چھپتے تھے تو وہ انتہائی خوفزدہ ہوتے تھے

راسخ کے مطابق 'پولیس نے کبھی اس علاقے کی مکمل تلاشی نہیں لی۔ عرفان اور بینش کے ساتھ موجود بچوں کے پاس بہت زیادہ کپڑے نہیں تھے، بس ایک کپڑوں کا بیگ تھا۔ ان کا زیادہ تر سامان میری گاڑی میں ہوتا تھا جسے میں محفوظ مقام پر کھڑا کرتا تھا۔'

'چھوٹے بچے نہیں جانتے تھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ خوفزدہ تھے، وہ (صورتحال کو) سمجھ نہیں سکتے تھے۔'

راسخ نے بتایا کہ ایسا نہیں تھا کہ عرفان اور اس کے اہلخانہ پہلی مرتبہ اس گھر آئے تھے۔ وہ ماضی میں بھی یہاں اُن سے ملنے کے لیے آ چکے تھے۔ اور جب کئی سال پہلے وہ آخری مرتبہ اسگھر میں آئے تھے تو سارہ بھی ان کے ساتھ موجود تھی۔ راسخ نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 'وہ بہت اچھی لڑکی تھی۔'

عرفان اور ان کا خاندان کئی ہفتوں تک راسخ کے گھر روپوش رہا۔ مگر ایسا نہیں تھا کہ وہ ہر وقت ہی پولیس سے چھپے رہتے تھے۔

راسخ نے ہمیں بتایا کہ اس دورانیے میں وہ عرفان اور اس کے اہلخانہ کو متعدد مرتبہ سیالکوٹ سے جہلم لے کر گئے جہاں سارہ کے دادا رہتے تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ انھیں شہر میں بال کٹوانے اور کبھی آئس کریم یا پیزا کھلانے کے لیے بھی لے جاتے تھے۔

راسخ نے بتایا کہ پولیس کی تلاش میں شدت آنے سے قبل وہ عرفان اور ان کے خاندان کو کئی مرتبہ بلا روک ٹوک پولیس چوکیوں سے گزارنے میں کامیاب رہے۔

لیکن پھر پولیس کا گھیرا تنگ ہونے لگا۔

تین ہفتے بعد پولیس نے سارہ کے بہن بھائیوں کو اُن کے دادا کے گھر سے برآمد کر لیا۔ بی بی سی نے سارہ کے دادا سے اُس چھاپے کے چند منٹ بعد بات کی تھی۔

دادا
BBC
سارہ کے دادا محمد شریف

سارہ کے دادا محمد شریف نے ہمیں بتایا تھا کہ 'پولیس تمام بچوں کو لے گئی ہے۔ وہ میرے ساتھ زیادہ محفوظ تھے۔' انھوں نے مزید بتایا کہ دادا کے گھر پڑنے والے چھاپے کے وقت عرفان اور بینش وہاں موجود نہیں تھے۔

دادا محمد شریف کے گھر پڑنے والے پولیس چھاپے کے بعد وہاں پہنچنے والے ہم پہلے صحافی تھے۔ پلاسٹک کے وہ کھلونے جن سے بچے کھیل رہے تھے وہ ابھی بھی بستروں پر پڑے ہوئے تھے۔ کمرے کا دروازہ زبردستی توڑا گیا تھا۔

اب یہاں اس موقع پر راسخ منیر ہمیں ایک ناقابل یقین بات بتاتے ہیں۔

جب ہم اس دن سارہ کے دادا کے گھر میں موجود تھے تو عین اسی موقع پر عرفان، بینش، اور فیصل یہاں سے چند میٹر کے فاصلے پر ایک پڑوسی کے گھر میں چھپے ہوئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس چونکہ صرف دادا کے گھر کی تلاشی کے وارنٹ تھے اس لیے وہ قریبی گھروں میں جانے کے مجاز نہیں تھے۔

انھوں نے بتایا کہ گھر کے باہر کیمرے نصب تھے جن کی فوٹیج گھر میں موجود ایک بڑی ایل سی ڈی سکرین پر براہ راست دیکھی جا سکتی تھی تاکہ یہ پتا رہے کہ پولیس کب آ رہی ہے۔

راسخ کے مطابق جس رات پولیس آئی تو عرفان، بینش اور فیصل 'فرار ہو گئے۔' انھوں نے اسے (راسخ) فون کیا اور وہ انھیں لینے چلا گیا۔

تصویر
BBC
دادا محمد شریف کے گھر کا وہ کمرہ جہاں سے بچوں کو برآمد کیا گیا تھا

راسخ کا کہنا ہے کہ اُن کے خاندان کو اگلے ہی روز احساس ہو چکا کہ کھیل ختم ہونے کو ہے۔ دادا کے گھر سے بچوں کی برآمدگی کے بعد ایک مقامی عدالت نے حکم دیا بچوں کو سویٹ ہوم میں رکھا جائے۔

اس روز عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران بی بی سی کی ٹیم وہاں موجود تھی۔ پانچ بچوں میں سے سب سے بڑے نے سب سے چھوٹے کو تھام رکھا تھا اور پولیس افسران اور مقامی صحافیوں کے ہجوم کے بیچ وہ اپنے چہروں کو کیمروں کی چمک سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

راسخ منیر کا کہنا ہے کہ بچوں کی دادا کے گھر سے برآمدگی اور پولیس کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے عرفان، بینش اور فیصل نے برطانیہ واپس جانے کا فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے برطانیہ میں ایک وکیل اور سرے پولیس سے رابطہ کیا اور آگاہ کیا کہ وہ کچھ دنوں میں واپس آ جائیں گے۔

راسخ کے مطابق اس فیصلے کے بعد انھوں نے ہی عرفان، بینش اور فیصل کے نام پر جہاز کی سیٹیں بُک کروائی، اس سے قطع نظر کہ اُن کی تلاش کے لیے انٹرپول کا نوٹس موجود تھا۔ راسخ کے مطابق انھوں نے ہی ان تینوں افراد کو ایئرپورٹ تک پہنچایا اور یہاں تک کہ عرفان نے ڈیپارچر لاؤنج سے راسخ کو فون کیا اور بتایا کہ وہ سکیورٹی کلیئرنس کے بعد پرواز کے انتظار میں ہیں۔

جب یہ تینوں افراد برطانیہ کے گیٹ وِک ائیرپورٹ پہنچے تو پولیس نے انھیں سارہ کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ اگلے مہینے ایک مقامی عدالت نے تمام پانچ بہن بھائیوں کو پاکستان میں کسی رشتہ دار کے ساتھ عارضی طور پر رہنے کی اجازت دے دی۔ سرے کاؤنٹی کونسل اب بھی انھیں برطانیہ واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے تاہم پاکستان میں موجود ان کا خاندان انہیں وہاں رکھنے کے لیے قانونی لڑائی لڑ رہا ہے۔

راسخ منیر کی کہانی کے ہر پہلو کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ اُن کے پاس اُس وقت کی کوئی تصویر نہیں ہے جب عرفان اور اُن کا خاندان اُن کے گھر میں روپوش تھا۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ پولیس نے اُن کا فون اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔

مگر وہ اپنی کہانی کی مکمل تفصیلات جزیات کے ساتھ بتا رہے تھے، اور سب سے بڑھ کر وہ یہ سب بتانے کے لیے خود سے ہمارے پاس نہیں آئے تھے بلکہ کئی مہینوں کی تلاش کے بعد ہم نے اُن کا کھوج لگایا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پولیس نے اُن کے گھر پر کئی مرتبہ چھاپہ مارا تھا اور یہ کہ پولیس کو شروع سے ہی اُن کے اس معاملے میں ملوث ہونے کا شبہ تھا۔

راسخ سے ہونے والی اس ساری گفتگو کے دوران ہمیں تجسس تھا کہ وہ ہم سے بات کر کے خوش کیوں ہیں۔

انھوں نے ہمیں کہا کہ 'کسی کو بتانا چاہیے کہ درحقیقت کیا ہوا تھا۔ وہ شخص جو حقیقت کو چھپاتا ہے وہ اچھا انسان نہیں ہوتا۔'

لیکن جب راسخ منیر عرفان اور اس کے اہلخانہ کو اپنے گھر لے کر گئے تھے تو وہ یہ جانتے تھے کہ سارہ شریف، جن سے وہ کئی برس پہلے اپنے ہی گھر میں مل چکے تھے، برطانیہ میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی ہے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پولیس اُن کے گھر میں چھپے تین افراد سے اس ضمن میں بات کرنا چاہتی تھی۔

راسخ کہتے ہیں کہ 'جس نے بھی سارہ کے ساتھ ایسا کیا ہے، اُسے سزا ملنی چاہیے کیونکہ اس نے بہت بڑا ظلم کیا ہے۔'

یہ کسی ایسے شخص کی طرف سے متضاد ردعمل لگتا ہے جس نے جان بوجھ کر تینوں ملزمان کو چھپایا۔

ہم نے راسخ سے بارہا پوچھا کہ کیا اسے نہیں لگتا کہ اس نے تینوں افراد کو چھپا کر کوئی غلط کام کیا ہے اور یہ بھی انھوں نے جانتے بوجھتے عرفان اور اُن کے اہلخانہ کی مدد کیوں کی۔

راسخ کہتے ہیں کہ 'یہ کیس برطانیہ میں تھا، اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگر یہ کیس پاکستان میں چل رہا ہوتا تو شاید میں اتنا بڑا خطرہ مول نہ لیتا۔'

'میں نے عرفان اور اس کے ساتھ موجود چھوٹے بچوں کی مدد کی۔ اگر میں اُن کی مدد نہ کرتا تو وہ بالکل بے یار و مددگار ہو جاتے۔ میں نے بچوں کی دیکھ بھال میں اُن کی مدد کی، مجھے اُن کے لیے ہمدردی محسوس ہوئی۔'

انھوں نے ہم سے سوال کیا کہ 'وہ میرے لوگ تھے۔ اگر میں ان کے ساتھ کھڑا نہ ہوتا اور ان کے ساتھ کچھ بُرا ہو جاتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟'

سارہ کے دادا اور خاندان کے دیگر افراد نے بارہا عدالت سے اس نوعیت کی شکایات کے ساتھ رابطہ کیا کہ اُن کے خاندان کے افراد محض اس لیے پولیس اٹھا رہی ہے تاکہ ان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اُن (عرفان وغیرہ) کا پتہ بتا دیں۔'

پاکستان میں پولیس اس کی تردید کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عرفان اور اہلخانہ کی گرفتاری کے بعد سے پاکستان میں موجود اُن کے خاندان کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیے گئے ہیں۔

لیکن پانچوں بچوں کو پاکستان میں ایک رشتہ دار کے گھر رکھنے کا عدالتی فیصلہ بدستور موجود ہے۔

وہ پانچوں بچے جنھوں نے اپنی زندگی برطانیہ میں گزاری تھی، اب بھی پاکستان میں ہیں اور فی الحال اُن کا مستقبل غیر یقینی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.