شام کا دارالحکومت دمشق ان پہاڑیوں سے تقریباً 60 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور ان پہاڑیوں کی بلندی سے دمشق سمیت جنوبی شام کے زیادہ تر حصے واضح دکھائی دیتے ہیں۔ اس جغرافیے کی وجہ سے اسرائیل کو یہ مقام شامی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ایک بہترین مقام فراہم کرتا ہے۔
اسرائیلی فوج نے گولان کی پہاڑیوں پر قائم ایک غیر فوجی بفر زون سمیت شام کی سرحدی حدود میں موجود چند اہم پوزیشنز پر قبضہ کر لیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کا کہنا ہے کہ انھوں نے اسرائیلی ڈیفنس فورسز کو گولان کے پہاڑیوں میں واقع بفر زون اور دیگر ’نزدیکی کمانڈنگ پوزیشنز‘ میں داخل ہونےکا حکم دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل کو باغیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ اسرائیل کی جانب سے اٹھایا گیا ایک عارضی اقدام ہے۔
سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے اس نوعیت کے اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی ہے۔
گولان کی پہاڑیاں کہاں ہیں اور ان پر کس کا قبضہ ہے؟
گولان کی پہاڑیاں جنوب مغربی شام سے لے کر شمال مشرقی اسرائیل تک پھیلی ہوئی ہیں اور فی الحال ان پر اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے۔
سنہ 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے دوران شامی افواج نے گولان کی پہاڑیوں سے ہی اسرائیل پر حملہ کیا تھا تاہم اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے نا صرف اس حملے کو پسپا کیا بلکہ اس علاقے کے تقریباً 1,200 مربع کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر لیا تھا۔
شام نے 1973 کی مشرق وسطیٰ جنگ (یوم کپور) کے دوران گولان کی پہاڑیوں کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ اپنی اس کوشش میں ناکام رہا تھا۔
بعد ازاں 1974 میں شام اور اسرائیل نے ایک جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے تحت دونوں ممالک کی افواج کو گولان کی 80 کلومیٹر طویل سرحدی پٹی کے دونوں اطراف سے انخلا کی ضرورت تھی اور اس علاقے کو ’ایریا آف سپریشن‘ قرار دیا گیا اور اس کے بعد سے اقوام متحدہ کا ’ڈس انگیجمنٹ آبزرور فورس‘ نامی یونٹ اس معاہدے کی تعمیل کی نگرانی کے سلسلے میں وہاں موجود ہے۔
تاہم معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنہ 1981 میں اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر اپنی جانب کے علاقے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور یہودی آباد کاروں نے وہاں گھر بنانا شروع کر دیے۔
اس علاقے پر اسرائیل کی خودمختاری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا تاہم 2019 میںاُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس ضمن میں سابقہ امریکی پالیسی کو ترک کرتے ہوئے اس علاقے پر اسرائیل کا حق تسلیم کر لیا۔
شام کا مؤقف یہ ہے کہ وہ آئندہ اسرائیل کے ساتھ اُس وقت تک کوئی امن معاہدہ نہیں کرے گا جب تک وہ گولان کے پورے خطے سے انخلا نہیں کرتا۔
نومبر 2024 میں شام اور اقوام متحدہ نے شکایات کی تھیں کہ اسرائیل بفر زون کے قریب اور بعض مقامات پر اس کے اندر خندقیں کھود رہا ہے۔
اسرائیل کے لیے گولان کی پہاڑیاں اتنی اہم کیوں ہیں؟
جب گولان کی پہاڑیوں پر شام کا کنٹرول تھا تو سنہ 1948 سے 1967 تک وہ پورے شمالی اسرائیل پر گولہ باری کرنے کے لیے باقاعدگی سے توپ خانے کا استعمال کرتا تھا۔
شام کا دارالحکومت دمشق ان پہاڑیوں سے تقریباً 60 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور ان پہاڑیوں کی بلندی سے دمشق سمیت جنوبی شام کے زیادہ تر حصے واضح دکھائی دیتے ہیں۔ اس جغرافیے کی وجہ سے اسرائیل کو یہ مقام شامی فوج کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ایک بہترین مقام فراہم کرتا ہے۔
ان پہاڑیوں پر کنٹرول اسرائیل کو شام کی جانب سے کسی بھی ممکنہ فوجی حملے کے خلاف قدرتی بفر فراہم کرتا ہے (جیسا کہ 1973 کی جنگ کے دوران ہوا تھا)۔
دوسری جانب گولان کی پہاڑیاں اس خطے میں، جو زیادہ تر بنجر زمین پر مشتمل ہے، پانی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔
ان پہاڑیوں کی بلندیوں سے بہہ کر نیچے آنے والا بارش کا پانی دریائے اردن میں داخل ہوتا ہے، جس کی بدولت اس دریا کے اِرد گرد کی زمین اتنی زرخیز ہے کہ یہاں انگور اور دیگر پھلوں کے باغات پنپتے ہیں جبکہ یہ زمین مویشیوں کے لیے چراگاہیں بھی فراہم کرتی ہے۔
ماضی میں شام اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی امن معاہدے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شام کا یہ مطالبہ رہا ہے کہ اسرائیل سنہ 1967 سے پہلے کی پوزیشن پر واپس جائے اور قبضہ کیے گئے علاقے کو مکمل خالی کرے۔
تاہم اگر ایسا ہوتا ہے تو شام کو بحیرہ طبریا کے مشرقی ساحل کا کنٹرول مل جائے گا اور اسرائیل تازہ پانی کے ایک اہم ذریعے سے محروم ہو جائے گا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد مزید جانب مشرق ہونی چاہیے تاکہ خطے کے اہم ذرائع اور وسائل سے محروم نہ ہو سکے۔
اسرائیل میں رائے عامہ یہی ہے کہ اسرائیل کو گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ برقرار رکھنا چاہیے کیونکہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ حکمت عملی کے لحاظ سے یہ بہت اہم ہے کہ اسے واپس نہ کیا جائے۔
گولان کی پہاڑیوں پر کون رہتا ہے؟
گولان کی پہاڑیوں پر ماضی میں آباد زیادہ تر شامی عرب باشندے سنہ 1967 کی جنگ کے دوران اس علاقے سے نقل مکانی کر گئے تھے۔
گولان کے علاقے میں اب 30 سے زائد اسرائیلی بستیاں موجود ہیں جن میں ایک اندازے کے مطابق 20,000 افراد رہائش پذیر ہیں۔ اسرائیلیوں نے 1967 کے تنازعے کے اختتام کے فوراً بعد اس علاقے میں آبادیاں بنانی شروع کر دیں تھیں۔
یہ یہودی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی تصور کی جاتی ہیں مگر اسرائیل اس سے اختلاف کرتا ہے۔
یہ یہودی آباد کار یہاں بسنے والے ان تقریباً 20,000 شامیوں کے ساتھ رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دروز فرقے سے ہے اور جو گولان پر اسرائیلی قبضے کے دوران یہاں سے نکلے نہیں تھے۔
شام کا کہنا ہے کہ یہ سرزمین (گولان کی پہاڑیاں) ہمیشہ سے اس کی ملکیت ہیں اور وہ بارہا اس علاقے کو واپس لینے کے عزم کا اظہار کر چکا ہے جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کے دفاع کے لیے بہت اہم ہیں اور ان کا کنٹرول ہمیشہ اس کے ہاتھ میں رہے گا۔
اسرائیل نے حالیہ دنوں میں گولان کی پہاڑیوں پر کیا کارروائیاں کی ہیں؟
اس علاقے سے شامی فوج اس وقت نکل گئی تھی جب باغی گروہوں کے دستے دمشق کی جانب بڑھ رہے تھے اور بشار الاسد کا اقتدار ختم ہو رہا تھا اور اسی موقع پر اسرائیلی کی دفاعی افواج نے گولان کی پہاڑیوں پر غیر فوجی بفر زون کا کنٹرول حاصل کر لیا۔
اسرائیلی فوج یہ بھی تسلیم کر رہی ہے کہ وہ گولان کی پہاڑیوں میں غیر فوجی بفر زون سے باہر کے علاقے میں بھی موجود ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ بہت آگے نہیں گئے ہیں۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ان کی افواج ’عارضی دفاعی پوزیشن اختیار کر رہی ہیں اور یہ عارضی بندوبست اس وقت تک کے لیے ہے جب تک کوئی مناسب انتظام نہیں ہو جاتا۔‘
انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی خواہش ہے کہ وہ شام میں ابھرنے والی نئی قوتوں کے ساتھ پرامن اور ہمسائیگی پر مبنی تعلقات رکھیں ’لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم اسرائیل کی ریاست اور اسرائیل کی سرحد کے دفاع کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کریں گے۔‘
شام سے سامنے آنے والی رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل گولان کی پہاڑیوں سے آگے پیش قدمی کرتے ہوئے دمشق سے 25 کلومیٹر کی دوری تک پہنچ گیا ہے لیکن اسرائیلی فوجی ذرائع نے اس بات کی تردید کی اور کہا ہے کہ فوج بفر زون سے آگے بڑھی ہے مگر اس حد تک نہیں۔
کئی عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کے شام میں حالیہ اقدامات کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ مصر کی وزارت خارجہ نے اسے ’شام کی سرزمین پر قبضہ اور 1974 کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔
نتن یاہو نے کہا کہ انھوں نے یہ اقدامات اسرائیل کی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے اٹھائے ہیں کیونکہ شام پر باغی گروہوں کے قبضے کے بعد 1974 کا معاہدہ ’فعال‘ نہیں رہا۔
پروفیسر گلبرٹ اچکر کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر اسرائیل کا مؤقف ہے کہ ’وہ شام کی جانب سے حماس کے 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے جیسے کسی بھی حملے کو روکنا چاہتا ہے۔‘
بہت سے تجزیہ کار اسرائیل کے اس اقدام کے حوالے سے دیے گئے جواز کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
لندن میں بین الاقوامی أمور کے تھنک ٹینک چیتھم ہاؤس سے منسلک پروفیسر یوسی میکلبرگ کہتے ہیںکہ ’شام نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گا، اگرچہ یہ اسرائیل کی جانب سے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا پیشگی اقدام ہے لیکن غیر فوجی بفر زون میں کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی کا کوئی جواز نہیں۔‘
لندن میں قائم تھنک ٹینک، رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایچ اے ہیلیر کا کہنا ہے کہ شام کے باغی گروپوں کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل سے قبضہ چھڑانے کے امکانات مستقبل قریب میں انتہائی کم ہیں۔
ان کے مطابق شام کے باغی گروہ ’ملک کے اندرونی معاملات میں اس حد تک مصروف ہوں گے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک نیا تنازع پیدا کرنے کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ملے گا۔‘
پروفیسر میکلبرگ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے شام کے علاقوں میں موجودگی شام میں آنے والی مستقبل کی حکومتوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو خراب کرے گی۔
’اسرائیل احتیاطی تدابیر کے طور پر بدترین حالات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ سب بے سود ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ نئی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلق استور کرنے کا طریقہ نہیں۔‘