نہیں صاحب! 2024 رخصت ہونے کو ہے لیکن وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا یہ برس شاید نہیں بلکہ یقیناً تلخ ترین ثابت ہوا۔ سیاسی عدم استحکام پاکستانیوں کے لیے نیا نہیں کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کوئی وزیراعظم اپنی مدّت پوری نہ کر سکا۔
کبھی مارشل لاء تو کبھی کمزور جمہوریتوں نے ہمیشہ ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑے رکھا لیکن رواں برس یہ دوچند ہوگیا۔ اس کا آغاز 13 جنوری 2024 کو ہوا جب پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان بلاّ واپس لے لیا گیا، اس کے نتیجے میں تحریک انصاف انتخابی دوڑ سے گویا باہر ہو گئی۔
30 جنوری کو عمران خان کو سائفر کیس میں 10 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ 31 جنوری کو عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 14، 14 سال قید کی سزا ہوئی جبکہ غیرشرعی نکاح کیس میں عمران خان و اہلیہ کو 7، 7 سال قید کی سزا سنائی گئی جس کے نتیجے میں عوامی ہمدردی کا سیلاب عمران خان کے حق میں اور مخالفین کی سمت بہنے لگا۔
پابندیوں، سزاؤں اور متنازع عدالتی فیصلوں کے سائے میں 8 فروری کو ملکی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات کا انعقاد ہوا۔ عوامی ہمدردی کا رُخ کپتان کے حق میں ہو چکا تھا اور اس کا اثر بہرحال نتائج پر بخوبی ہوتا دکھائی دیا۔تحریک انصاف کے ووٹرز نے اپنے اُمیدوار کو خود ڈھونڈ کر اسے ووٹ ڈالا اور ووٹنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد نتائج نے حیران کرنا شروع کر دیا۔ یہیں سے فارم 45 اور فارم 47 کی بحث کا آغاز ہوا۔اگر عمران خان کی حکومت کو ’سلیکٹڈ‘ کہا گیا تو موجودہ حکومت کو ’فارم 47 کی حکومت‘ ہونے کا طعنہ اسی کے سبب ملتا ہے۔
8 فروری کو ملکی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات کا انعقاد ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
متنازع انتخابی نتائج اور مبینہ دھاندلی کے خلاف عوامی رائے کا سوشل میڈیا پر بِلا روک ٹوک اظہار شروع ہوا تو 16 فروری کو حکومت نے ایکس پر پابندی لگا دی۔
رسمی میڈیا تو پہلے ہی قابو میں تھا، سوشل میڈیا پر قدغنوں میں بھی اضافہ ہوا۔ سوشل میڈیا پر بھی اداروں کے خلاف مہم جوئی نے زور پکڑا۔25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر، جسٹس بابر ستار، طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی طرف سے ایک خط میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی کارروائی اور فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔اس خط نے ایک نئی بحث کو جنم دیا اور ملکی سیاست میں بھونچال برپا کیے رکھا۔یوں لگتا تھا کہ ایک چال اگر تحریک انصاف اور عمران خان کی طرف سے چلی جاتی ہے تو دوسری طرف سے بھی جوابی اقدام ہوتا ہے۔یہ بات پاکستانی سیاست میں اچنبھا نہیں کہ خفیہ ایجنسیاں یا ان کے سربراہان سیاست میں مداخلت کرتے رہے ہیں۔ جنرل کیانی، جنرل پاشا، جنرل ظہیرالاسلام کی طرح جنرل فیض بھی اسی کھیل کا حصہ تھے اور یہ کوئی راز نہیں تھا۔لیکن 12 اگست کو فیض حمید کو سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی سے متعلق مقدمے میں درج شکایات کی انکوائری کے بعد حراست میں لے لیا گیا۔
10دسمبر کو جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف الزامات پر چارج شیٹ فائل کر دی گئی (فوٹو: ویڈیو گریب)
اس کے بعد ان کا تعلق سیاسی معاملات اور ملکی سلامتی کے خلاف کارروائیوں سے جوڑا گیا۔
9 اگست کو ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں جیولین تھرو کے مقابلوں میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے طلائی تمغہ حاصل کیا اور اس طرح ان کھیلوں میں پاکستان کو تیس برس بعد کوئی بھی میڈل حاصل ہوا۔ جبکہ انفرادی کھیلوں میں یہ پاکستان کا پہلا گولڈ میڈل تھا۔سیاسی ہنگام، عدم استحکام کے سموگ میں اسے خوشگوار ہوا کا جھونکا قرار دیا گیا۔30 ستمبر کو معروف انڈیا کے اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان پہنچے۔ ان کا یہ دورہ ان کے حق اور ان پر تنقید اور لاتعداد دیگر تنازعات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔جیسے پہلے ان کی کئی باتوں پر تنقید کے نشتر چلائے گئے یا بعض کاموں کی تعریف ہوئی ویسے ہی پاکستان دورے کے دوران بھی ہوا۔ ان کا حافظہ لاجواب ہے لیکن سماجی موضوعات پر تو ان کی چنداں گرفت نہیں۔ مجھے تو ذاتی طور پر مایوسی ہوئی۔اسی بیچ 26ویں ترمیم کے حوالے سے متوازی سیاسی جنگ اور جوڑ توڑ جاری رہا۔ عمران خان نے عدلیہ کی آزادی کے عنوان سے پارٹی کو 4 اکتوبر کو ڈی چوک میں احتجاج کی کال دی۔تحریک انصاف احتجاج اسلام آباد تک لے آئی تاہم، قافلہ ڈی چوک نہ پہنچ سکا۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ڈی چوک کے راستے میں ’غائب‘ ہوگئے۔15 اکتوبر کو پی ٹی آئی نے ایک بار پھر ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کا فیصلہ کیا۔ جو بعد ازاں نہ ہوا۔
اکتوبر میں تحریک انصاف احتجاج اسلام آباد تک لے آئی تاہم، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ڈی چوک کے راستے میں ’غائب‘ ہوگئے (فوٹو: گیٹی امیجز)
15 اکتوبر: شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان حکومت کی کونسل کا 23واں اجلاس اسلام آباد میں ہوا۔ دیگر رہنماؤں کے ساتھ ہی انڈین وزیر خارجہ بھی دو روزہ اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان پہنچے۔
21 اکتوبر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کر لی گئی۔23 اکتوبر: یحییٰ آفریدی پاکستان کے نئے چیف جسٹس نامزد ہوئے۔24 اکتوبر: صدر جوبائیڈن کے نام ایک خط میں 60 سے زائد ڈیموکریٹک قانون سازوں نے عمران خان کی رہائی کے لیے کوششوں پر زور دیا ہے۔ ان قانون سازوں کا کہنا تھا کہ واشنگٹن خان کی رہائی کے لیے اسلام آباد پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔24 نومبر: عمران خان کی فائنل کال پر خیبرپختونخوا اور ملک کے دوسرے حصوں سے پی ٹی آئی ورکر نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا۔
26ویں ترمیم کے حوالے سے متوازی سیاسی جنگ اور جوڑ توڑ جاری رہا (فوٹو: پی ایم ہاؤس)
10 دسمبر کو جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف باضابطہ طور پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے اور اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال کرنے کے الزامات پر چارج شیٹ فائل کر دی گئی۔
اور اب جب کہ سال رواں اپنے اختتام کو ہے تو سب سے اہم سوال اپنے دامن میں کچھ یوں لیے کھڑا ہے کہ کیا قبلہ فیض حمید کے ٹرائل کا تعلق کپتان سے بھی بنے گا؟کیا سخت سزائیں ہونگی یا فریقین بالآخر دباؤ بڑھانے کے باوجود مذاکرات کی ٹیبل پر آن بیٹھیں گے؟تاریخ تو یہی بتلاتی ہے کہ جنگ تک کا انت مذاکراتی ٹیبل پر ہی ہوا، یہ تو پھر سیاسی میدان کی جنگ ہے۔ اہلِ پاکستان البتہ نئے سال سے صرف ایک اُمید وابستہ کیے بیٹھے ہیں اور وہ ہے: شانتی کی اُمید، سیاسی استحکام کی اُمید، امن کی اُمید۔