اس بے قاعدہ فوج نے 1971 کی جنگ، 1984 میں آپریشن بلیو سٹار، سیاچن گلیشیئر پر قبضے اور 1999 میں کارگل جنگ سمیت بیشتر بڑے انڈین تنازعات میں اپنا کردار ادا کیا اور چین جس کے خلاف لڑنا اس کی اساس کا مقصد تھا، وہ اس سے محفوظ رہا۔
مئی 1971 میں انڈیا کے آرمی چیف نے جنرل آفیسر کمانڈنگ، ایسٹرن کمانڈ کو ایک خفیہ حکم دیا جس سے ایک ایسی مہم کا آغاز ہوا جس کا خاتمہ پاکستان کے مشرقی حصے کی علیحدگی پر ہونا تھا۔
دفاعی امور کے ماہرانڈین لکھاری پروین سوامی کے مطابق اس خفیہ حکم کو ’آپریشن انسٹرکشن 52‘ کا نام دیا گیا۔
’اس کے ذریعے انڈیا کی افواج کو باضابطہ طور پر حکم دیا گیا کہ وہ ’بنگلہ دیش کی عارضی حکومت کی آزادی کی تحریک کی مدد کریں‘ اور ’مشرقی بنگال میں گوریلا کارروائیوں کے لیے لوگوں کو اسلحے سے لیس کریں اور تربیت دیں۔‘
سوامی انگریزی اخبار ’دی ہندو‘ میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ایسٹرن کمانڈ کو یقینی بنانا تھا کہ گوریلا فورسز ’مشرقی بنگال میں پاکستانی فوجی دستوں کو حفاظتی کاموں میں الجھائیں‘، ’مشرقی میدانِ جنگمیں پاکستانی افواج کے حوصلے پست اور کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آسام اور مغربی بنگال کے خلاف کسی بھی جارحیت کے لیے ان کی لاجسٹک صلاحیت کو مسدود کریں‘، اور آخر کار ’پاکستان کی ہمارے خلاف جنگ چھیڑنے کی صورت میں‘ وہ باقاعدہ انڈین فوج کے شانہ بشانہ استعمال کی جائیں۔
’ان احکامات کو عملی جامہ پہنانے کا کام سوجن سنگھ اُوبن پر آن پڑا۔ بریگیڈیئر اُوبن (بعد میں میجر جنرل) ایک آرٹلری افسر تھے جنھیں سپیشل فرنٹیئر فورس (ایس ایف ایف) کی قیادت کے لیے چنا گیا تھا۔ یہ ایک خفیہ فوج تھی جسے امریکہ کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی مدد سے تبت میں چینی افواج پر حملوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔‘
تبت، چین اور انڈیا کے موضوعات پرلکھنے والے فرانسیسی نژاد مصنف کلاڈ آرپی نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں انڈیا کے وزیراعظم جواہرلال نہرو کے ان دو خطوط کا حوالہ دیا ہے جن میں انھوں نے چین کے خلاف 1962 کی جنگ میں امریکہ سے مدد طلب کی تھی۔
آر پی نے ڈی کلاسیفائی کی گئی امریکی دستاویزات اور کینتھ کونبوائے اور جیمز موریسن کی کتاب ’دی سی آئی اے سیکرٹ وار ان تبت‘ کے حوالوں سے امریکی اعلیٰ حکومتی اور سی آئی اے عہدیداروں کی انڈیا کی انٹیلیجنس بیورو کے سربراہ بی این ملک اور دیگر اہلکاروں سے ملاقات کی تفصیل لکھی ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’امریکی عہدیداروں سے یہ وعدہ لینے کے بعد کہ ہماری (انڈیا کی) اس میں شمولیت ہمیشہ خفیہ رکھی جائے گی‘، ’سی آئی اے اور آئی بی نے کام کی تقسیم پر اتفاق کیا۔ سی آئی اے کی مدد سے آئی بی پانچ ہزار افراد پر مشتمل ٹیکٹیکل گوریلا فورس کو تربیت فارہم کرنے کا منصوبہ بنا۔
’سی آئی اے کا فار ایسٹ ڈویژن تبت کے اندر طویل فاصلے تک مزاحمتی تحریک پیدا کرے گا اور شمالی نیپال میں تبتی آزادی کے جنگجو سی آئی اے کے تحت رہیں گے۔‘
لیکن آرپی لکھتے ہیں کہ سی آئی اے کے ساتھیہ ’ہنی مون‘ زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور تبتی فورس بالآخر سوجن سنگھ اوبن کی نگرانی میں چلی۔
ایس ایس ایف کو بعد میں ’اسٹیبلشمنٹ 22‘ یا ’ٹو ٹوز‘ کے نام سے جانا جانے لگا کیونکہ اُوبن اس سے قبل 22 آرٹلری ماؤنٹین رجمنٹ کے کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔
تاہم پروین سوامی کے مطابق ’ایس ایف ایف جو کچھ عرصہ پہلے تک انڈیا کی بیرونی خفیہ سروس، ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ، یا ’را‘ کے مسلح ونگ کے طور پر کام کرتی رہی ہے چین میں کبھی نہیں لڑی۔‘
سنہ 1962 میں قائم ہونے اور سی آئی اے سے تربیت پانے والی اس تنظیم کو ستمبر 1967 میں باقاعدہ طور پر انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے حوالے کر دیا گیا اور بعد میں انھیں مشرقی پاکستان میں استعمال کیا گیا۔
سوامی کے مطابق ’جولائی 1971 میں انڈیا کی جنگی تاریخ کے مطابق پہلے بے قاعدہ دستوں کو مداری پور سے سرحد پار درانداز کروایا گیا۔‘
’110 گوریلوں کے اس پہلے گروپ نے چائے کے باغات، دریا کی کشتیوں اور ریلوے ٹریکس کو تباہ کیا۔ یہ ایسی کارروائیاں تھیں جنھوں نے فوجیوں کو الجھا دیا، مشرقی پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا اور تاریخ کہتی ہے ڈھاکہ، کومیلا اور چٹاگانگ کے درمیان مواصلات کو تباہ کر دیا۔‘
سوامی لکھتے ہیں کہ ’ستمبر 1971 تک انڈین تربیتی کارروائیوں میں ڈرامائی توسیع ہو چکی تھی اور ہر ماہ 20 ہزار گوریلوں کوتیار کیا جانے لگا۔ 10 کیمپوں میں ہر 100 تربیت پانے والوں کے ساتھ آٹھ انڈین فوجی پابند تھے۔‘
سی کرسٹین فیئر نے اپنی کتاب ’فائٹنگ ٹو دی اینڈ‘ میں لکھا ہے کہ ’نومبر 1971 کے آخر تک 83 ہزار سے زیادہ جنگجوؤں کو تربیت دی جا چکی تھی، جن میں سے 51 ہزار مشرقی پاکستان میں کام کر رہے تھے۔ یہ ایک ایسا گوریلا آپریشن تھا جو شاید اس وقت تک سب سے بڑا تھا۔‘
’ان جنگجوؤں کے علاوہ، انڈیا نے 1800 کمانڈو مشرقی پاکستان کے چٹاگانگ پہاڑی علاقے میں بھیجے۔ یہ لوگ ایس ایف ایف کا حصہ تھے اور تبت کے مہاجرین تھے جو دلائی لامہ کی بے قاعدہ افواج کے شانہ بشانہ پچاس کی دہائی کے نصف سے لڑ رہے تھے۔‘
سوامی لکھتے ہیں کہ ’چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں، بریگیڈیئر اوبن نے انڈین فوجیوں یا زیادہ درست یہ ہے کہ سی آئی اے کے تربیت یافتہ، انڈیا کی مالی مدد سے تبتیوں کو بھیجا جو انڈیا سے اپنے روابط کو چھپانے کے لیے عجلت میں درآمد شدہ بلغاریائی اسالٹ رائفلز اور امریکی تیار کردہ کاربائنز کا استعمال کرتے تھے۔‘
’را کے سپائی ماسٹر رامیشور کاؤ کی براہِ راست کمان میں، بریگیڈیئر اوبن کی فوج نے پاکستانی فوج کو کم درجے کی سرحدی جھڑپوں میں مصروف رکھا۔‘
نومبر 1971 میں مشرقی پاکستان میں اس کم شدت کی جنگ ہی نے پاکستان کو دباؤ کم کرنے کے لیے تین دسمبر کو بڑے انڈین فضائی اڈوں پر حملے کرنے پر مجبور کیا۔‘
سوامی لکھتے ہیں کہ تین دسمبر1971 سے بریگیڈیئر اُوبن کی فورس نے تخریب کاری اور ایذا رسانی کی ایک غیر معمولی مہم شروع کی۔
’ایس ایف ایف نے 56 افراد کی ہلاکت اور 190 زخمیوں کی قیمت پر کئی اہم پلوں کو تباہ کیا اور اس نے یقینی بنایا کہ پاکستان کی 97 انڈیپینڈنٹ بریگیڈ اور کریک ٹو کمانڈو بٹالین چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں پھنسی رہیں۔‘
اپنی تحریر’تبت کی سرد جنگ: سی آئی اے اور چوشی گینگ ڈرگ مزاحمت، 1956-1974‘ میں سکالر کیرول میک گراناہن نے لکھا ہے کہ ’انڈیا کی حکومت نے ایس ایف ایفکے تقریباً 580 ارکان کو نقدی، تمغوں اور انعامات سے نوازا لیکن خفیہ ہونے کی وجہ سے ان کے آپریشنز کی مخصوص تفصیلات دستیاب نہیں۔‘
سوامی کے مطابق ان بے قاعدہ فوجیوں کے کردار کو زیادہ باریک بینی سے جانچنے کی ضرورت ہے۔
’اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے پاکستانی فوجیوں کوالجھانے اور ان کی لاجسٹک ریڑھ کی ہڈی کو مفلوج کرنے کا کام کیا۔ تاہم وہ پاکستان کے ہمدردوں اور نسلی بہاری آبادی کو نشانہ بنانے والی انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کے بھی ذمہ دار تھے۔‘
’حقیقت یہ بھی ہے کہ انھوں نے بنگلہ دیش کو ایسی عسکری سیاسی ثقافت فراہم کی جس کے اپنے ہی مہلک نتائج ہوں گے۔‘
اوی ناش پالی وال اپنی کتاب India's Near East میں لکھتے ہیں کہ سپیشل فرنٹیئرفورس اورسپیشل سروس بیورو جسے بعد میں ’ساشستر سیمابل‘ یا ایس ایس بی کا نام دیا گیا بنائی تو چین کے خلاف گئی تھیں لیکن یہ انڈیا کی مشرقی پاکستان میں حکمت عملی کا اہم حصہ بنیں۔
امریکہ تو ایس ایف ایف کی سرپرستی سے تب ہی دستبردار ہو گیا تھا جب 1970 کی دہائی کے اوائل میں انڈیا کے ساتھاس کے تعلقات خراب اور چین کے ساتھ بہترہوئے۔
لیکن اس کی جانب سے بنائی گئی اس بے قاعدہ فوج نے 1971 کی جنگ، 1984 میں آپریشن بلیو سٹار، سیاچن گلیشیئر پر قبضے اور 1999 میں کارگل جنگ سمیت بیشتر بڑے انڈین تنازعات میں اپنا کردار ادا کیا اور چین جس کے خلاف لڑنا اس کی اساس کا مقصد تھا، وہ اس سے محفوظ رہا۔