دس سال قبل 16 دسمبر کی صبح، آرمی پبلک اسکول پشاور کی فضا علم کی خوشبو سے مہک رہی تھی، لیکن چند لمحوں میں یہ خوشبو بارود اور خون کی بو میں بدل گئی۔ چھ دہشتگرد سرکاری وردیوں میں ملبوس دیوار پھلانگ کر اسکول میں داخل ہوئے اور علم کے چراغ جلانے والے ننھے پھولوں پر اندھا دھند گولیاں برسا دیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 122 معصوم بچوں سمیت 147 افراد شہید ہوگئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔
دہشتگردوں کی اس بزدلانہ کارروائی نے پورے ملک کو سوگ میں مبتلا کردیا۔ اسکول، جو کبھی بچوں کی قہقہوں سے گونجتا تھا، چند لمحوں میں ایک خونریز میدان میں تبدیل ہو گیا۔ سیکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے دہشتگردوں کو انجام تک پہنچایا، لیکن اس اندوہناک سانحے کے اثرات آج بھی تازہ ہیں۔
"دہشت کے خلاف نیشنل ایکشن پلان"
اس سانحے نے پوری قوم کو دہشتگردی کے خلاف ایک صف میں لا کھڑا کیا۔ سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا، جس کا مقصد ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ تھا۔ قبائلی علاقوں میں آپریشنز کے ذریعے دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا گیا اور علم دشمنوں کے ناپاک ارادے خاک میں ملا دیے گئے۔
"معصومیت کی قربانی اور اتحاد کا پیغام"
سانحہ اے پی ایس نے قوم کو متحد کیا، لیکن شہید ہونے والے معصوم بچوں اور ان کے والدین کا غم آج بھی ہر دل میں تازہ ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنے پیغام میں کہا کہ یہ واقعہ دہشتگردوں کے گھناؤنے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وقت کبھی بھی ان معصوم جانوں کی جدائی کا زخم نہیں بھر سکتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے قوم کو یاد دلایا کہ یہ قربانیاں ضائع نہیں جائیں گی۔ انہوں نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عملدرآمد کی ضرورت ہے تاکہ دہشتگردی کے اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔
"تعلیمی ادارے آج بند"
سانحہ اے پی ایس کی یاد میں آج ملک کے کئی اضلاع میں تعلیمی ادارے بند ہیں۔ راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور، گجرات اور سیالکوٹ سمیت مختلف شہروں میں اسکولوں کی بندش کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے تاکہ قوم اپنے معصوم شہیدوں کو یاد کر سکے۔