امریکی حکام تاحال ان مشکوک ڈرونز کے بارے میں ٹھوس جواب نہیں دے سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون عام عوام کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں اور نہ ہی یہ کوئی قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔
نیو جرسی سمیتدیگر امریکی ریاستوں میں قریب ایک ماہ سے مشکوک ڈرونز کا فضا میں گشت پورے ملک میں ایک معمہ بنا ہوا ہے۔
ایسے میں امریکی حکام، جو تاحال ان مشکوک ڈرونز کے بارے میں ٹھوس جواب نہیں دے سکے، کا ردعمل اس معمہ کو اور بھر پراسرار بنا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون عام عوام کے لیے کسی خطرے کا باعث نہیں اور نہ ہی یہ کوئی قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔
اتوار کو ہوم لینڈ سکیورٹی کے سیکریٹری الیہاندرو میورکاس نے تصدیق کی کہ فضا میں بعض ڈرونز گشت کر رہے ہیں جبکہ کچھ طیارے بھی ہیں جنھیں غلطی سے ڈرون سمجھا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اِن ان مینڈ ایریئل وہیکلز (یو اے وی) کے معاملے میں ’کوئی بیرون ملک ملوث نہیں۔‘
بعض قانون دانوں نے مشکوک ڈرونز کی پروازوں کی اطلاعات پر حکومت پر تنقید کی ہے اور یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ اس حوالے سے عوامی سطح پر معلومات دستیاب نہیں۔
ہمیں اب تک ان مشکوک ڈرونز کے بارے میں کیا معلوم ہے؟
پہلا سوال یہ ہے کہ اِن ڈرونز کو کہاں کہاں دیکھا گیا ہے؟
18 نومبر سے نیو جرسی کی فضا میں درجنوں بار مشکوک ڈرونز کی پروازیں دیکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ شمال مشرقی امریکہ میں بھی ایسی پروازوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
بعض اطلاعات فوجی ریسرچ کے حساس مقام پیکاٹینی آرسنل کے اردگرد سے موصول ہوئی ہیں۔ جبکہ نیو جرسی کے علاقے بیڈ منسٹر میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے گالف کورس کے پاس بھی مشکوک ڈرونز کو دیکھا گیا ہے۔
وفاقی ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) نے بیڈمنسٹر اور پیکاٹینی میں ڈرون اڑانے پر عارضی پابندی عائد کی ہے۔
دریں اثنا 12 دسمبر کو نیو یارک شہر کے علاقے برونکس میں بھی کئی مشکوک ڈرونز کو دیکھا گیا۔ گورنر کیتھی ہوچل کے مطابق 13 دسمبر کو ڈرونز کی سرگرمیوں کے باعث سٹیورٹ ایئرفیلڈ کو قریب ایک گھنٹے کے لیے بند کرنا پڑا۔
کنیٹیکٹ میں پولیس نے بھی ’مشکوک ڈرونز‘ کی تصدیق کی۔ گروٹن اور نیو لندن کے قریب اب ایک ڈرونز ڈیٹیکشن سسٹم نصب کیا گیا ہے۔
میری لینڈ میں سابق رپبلکن گورنر لیری ہوگن نے کہا کہ بظاہر ان کے گھر کے اوپر سے ’درجنوں‘ ڈرونز نے پرواز بھری۔
میسیچوسٹس میں پولیس کے مطابق بوسٹن کے لوگن انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی فضائی حدود میں 14 دسمبر کو ’خطرناک ڈرون آپریشن‘ کے الزام پر دو افراد کو گرفتار کیا گیا۔
فلاڈیلفیا سمیت مشرقی پنسلوینیا بھی کئی بار انھیں دیکھا گیا ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق اکتوبر میں ورجینیا میں قائم امریکی فوجی تنصیبات کے قریب 17 روز تک ڈرونز کی مشکوک سرگرمیاں دیکھی گئیں۔
نومبر کے اواخر کے دوران برطانیہ میں تین امریکی فضائی اڈوں کے اوپر ڈرونز کی نشاندہی کی گئی۔ برطانوی دفاعی ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں شک ہے کہ ’اس کے پیچھے ایسے عناصر ملوث ہیں جنھیں کسی ملک کی حمایت حاصل ہے۔‘
دسمبر کے اوائل کے دوران جرمنی میں امریکی فوجی اڈے کے پاس بھی ڈرونز دیکھے گئے۔
تفتیش کاروں نے اِن ڈرونز کے بارے میں کیا بتایا؟
امریکی انٹیلجنس ایجنسیوں کے اہلکاروں نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ انھیں تاحال ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ان ڈرونز سے عوام کو خطرہ ہے۔
ایف بی آئی کے ایک اہلکار نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ شاید اس پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیا جا رہا ہے۔‘
اتوار کو ہوم لینڈ سکیورٹی کے سیکریٹری نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ’شمال مشرق میں (ڈرونز دیکھے جانے کی) اطلاعات پر کسی دوسرے ملک کے ملوث ہونے کا علم نہیں ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس معاملے کی تحقیقات کے لیے چوکنا ہیں۔‘
میورکاس نے کہا کہ ’اگر تشویش کی کوئی وجہ ہوتی، اگر ہم کسی دوسرے ملک کے ملوث ہونے یا مجرمانہ سرگرمی کی نشاندہی کرتے تو ہم امریکی عوام کو اس حوالے سے آگاہ کرتے۔‘
امریکہ میں ڈرونز کی پروازوں میں اضافہ کیوں؟
11 دسمبر کو محکمۂ ہوم لینڈ سکیورٹی کی بریفنگ کے بعد نیو جرسی کی قانون دان ڈان فنٹیسیا نے کہا کہ یہ ڈرونز بظاہر نشاندہی کے لیے استعمال ہونے والے ہیلی کاپٹر یا ریڈیو سگنل سے بچ نکلتے ہیں۔
فنٹیشیا نے کہا کہ یہ طیارے قریب چھ فٹ بڑے ہیں اور روشنیاں بند کر کے ’باقاعدہ منصوبے کے تحت‘ اڑتے ہیں۔
سیکریٹری میوکاس نے اے بی سی کو بتایا کہ گذشتہ سال وفاقی قانون میں تبدیلی کی گئی تھی اور ڈرونز کو رات کے وقت اڑانے کی اجازت دی گئی تھی۔
ان کا خیال ہے کہ اسی لیے مشکوک ڈرونز کی اطلاعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ’اس کی کئی وجوہات ہیں کہ لوگوں کو اب پہلے سے کہیں زیادہ ڈرونز کیوں نظر آ رہے ہیں، خاص کر صبح سے شام کے بیچ۔‘
اتنے سارے ڈرونز کہاں سے آ رہے ہیں؟
انھیں کون چلا رہا ہے، یہ غیر واضح ہے۔
نیو جرسی سے تعلق رکھنے والے رپبلکن قانون دان جیف وان ڈریو نے دعویٰ کیا کہ یہ ڈرونز اٹلانٹک میں ایک بڑے ایرانی ’مدر شپ‘ بحری جہاز سے اڑائے جا رہے ہیں۔ جبکہ ڈیموکریٹ راجہ کرشنامورتی نے کہا کہ اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اس کے پیچھے چین ہے۔
پینٹاگون، وائٹ ہاؤس اور ہوم لینڈ سکیورٹی نے اصرار کیا ہے کہ ان مشکوک سرگرمیوں میں کوئی غیر ملکی عناصر ملوث نہیں۔
30 نومبر کو شمالی کیلیفورنیا کے ایک شخص کو سینٹا باربرا کے قریب وینڈنبرگ سپیس فورس بیس کے اوپر سے ڈرون اڑانے اور تصویر کھینچے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
39 سالہ چینی شہری کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک پرواز پر چین جانے والی پرواز پر چڑھے تھے۔
یہ غیر واضح ہے کہ آیا اس واقعے کا تعلق ملک کے دیگر علاقوں میں ڈرونز کی مشکوک پروازوں سے ہے۔
کیا اِن ڈرونز کو روکا جاسکتا ہے؟
نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ حکومتی اجازت کے بغیر ڈرونز اڑانے پر پابندی ہونی چاہیے۔ ان کا ٹروتھ سوشل پر کہنا ہے کہ ’عوام کو فوراً اس بارے میں جاننے دیں۔ ورنہ ان ڈرونز کو مار گرائیں۔‘
حکام نے ڈرونز کو مار گرانے سے منع کیا ہے کیونکہ یہ غیر قانونی ہے۔ ایف اے اے نے ایک بیان میں ڈرونز آپریٹرز کو متنبہ کیا کہ غیر محفوظ اور خطرناک آپریشنز پر 75 ہزار ڈالر تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے اور اس سلسلے میں ان کا ڈرون پائلٹ سرٹیفیکیٹ منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
نیو یارک سٹیٹ گورنر ہوچل نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاستوں کو ڈرونز کے خلاف کریک ڈاؤن کی اجازت دی جائے۔
سینیٹ میں اکثریتی رہنما چک شومر نے وفاقی حکام سے نیو یارک اور نیو جرسی کے لیے ڈرون ڈیٹیکشن سسٹم بھیجنے کی گزارش کی ہے۔