نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابق انٹیلیجنس چیف اور خارجہ پالیسی کے ماہر رچرڈ گرینل کو خصوصی مشنز کا صدارتی ایلچی مقرر کیا ہے۔ ادھر جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں نے اس نامزدگی سے امیدیں وابستہ کی ہیں۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابق انٹیلیجنس چیف اور خارجہ پالیسی کے ماہر رچرڈ گرینل کو خصوصی مشنز کا صدارتی ایلچی مقرر کیا ہے۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ رچرڈ گرینل وینزویلا اور شمالی کوریا سمیت دنیا میں سب سے سرگرم علاقوں میں کام کریں گے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ خصوصی مشنز کے ایلچی اِن ممالک سے متعلق پالیسیاں بنائیں گے جن سے امریکہ کے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں، جیسے شمالی کوریا۔ ٹرمپ کی ٹیم کے ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ گرینل بلقان خطے پر بھی توجہ دیں گے۔
تاہم جیل میں قید پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں نے اس نامزدگی سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں نے رچرڈ گرینل کو عمران خان کی رہائی کے لیے آواز اٹھانے پر سراہا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اب اس سلسلے میں عملی اقدامات کیے جائیں۔
رچرڈ گرینل کون ہیں اور وہ کیا کریں گے؟
گرینل ایک امریکی سفارت کار ہیں اور انھیں ڈونلڈ ٹرمپ کے کافی نزدیک سمجھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران گرینل نے نیشنل انٹیلی جنس کے قائم مقام ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
وہ نیشنل انٹیلی جنس کی تاریخ کے پہلے ہم جنس پرست ڈائریکٹر تھے۔ گرینل دنیا بھر میں ایل جی بی ٹی حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر بننے سے قبل 2018 میں گرینل کو جرمنی میں امریکہ کے سفیر کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ انھوں نے 2019 سے 2021 تک سربیا اور کوسوو امن مذاکرات میں امریکی صدر کے خصوصی ایلچی کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔
جارج ڈبلیو بش کے دورِ حکومت میں گرینل اقوام متحدہ میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان رہے۔ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ووٹنگ ممبر تھے۔
گرینل کی ویب سائٹ فکس کیلیفورنیا کے مطابق ایرانی حکومت کی جانب سے ’ہم جنس پرستی کو فروغ دینے‘ کے الزام میں ان کا نام پابندیوں کی فہرست میں شامل ہے۔
گرینل کو امریکہ کی قومی سلامتی کا سب سے بڑا اعزاز نیشنل سکیورٹی میڈل ملا تھا۔ انھیں کوسوو اور سربیا سے ملک کا اعلیٰ ترین میڈل آف آنر ملا ہے۔
روئٹرز کے مطابق پانچ نومبر کے امریکی صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کی جیت کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ رچرڈ گرینل کو وزیر خارجہ کا عہدہ مل سکتا ہے تاہم یہ عہدہ امریکی سینیٹر مارکو روبیو کو ملا ہے۔
یوکرین جنگ کے خصوصی ایلچی کے عہدے کے لیے ان کے نام پر غور کیا گیا تھا تاہم یہ عہدہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کیتھ کیلوگ کو ملا۔
امریکہ میں صدر اکثر عالمی تنازعات، مسائل، بحران یا خصوصی سفارتی کوششوں کے لیے صدارتی ایلچی یا خصوصی ایلچی نامزد کرتے ہیں۔
شمالی کوریا اور وینزویلا کو امریکہ کے مخالف ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ روئٹرز کے مطابق ٹرمپ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ ان کے ساتھ خود براہ راست بات چیت کریں گے تاکہ مسلح لڑائی کے خطرے کو ٹالا جاسکے۔
موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کے چار سالہ دور میں شمالی کوریا کو نظر انداز کیا گیا ہے جس دوران شمالی کوریا اور روس کے درمیان تعلقات میں مزید قربت آئی ہے۔
دوسری طرف ٹرمپ وینزویلا کے رہنما مارکو مدارو کو ’آمر‘ کہہ چکے ہیں مگر اس کے باوجود مدارو نے ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کو باہمی تعلقات میں ’نئی شروعات‘ قرار دیا ہے۔
اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران ٹرمپ نے وینزویلا اور اس کی تیل کی صنعت پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں اور مدارو نے 2019 میں امریکہ سے دوری اختیار کر لی تھی۔
روئٹرز کے مطابق گرینل نے 2020 میں مدارو کے نمائندوں سے ان کی پُرامن بےدخلی کے لیے خفیہ ملاقات کی تھی۔ 2018 میں مدارو کی انتخابی فتح کو بہت سے مغربی ممالک نے تسلیم نہیں کیا تھا۔
ٹرمپ کے وفادار گرینل کی نامزدگی پر تحریک انصاف کے حامی خوش کیوں؟
ٹروتھ سوشل پر اپنے پیغام میں ٹرمپ نے کہا کہ رچرڈ گرینل ’طاقت کے زور پر امن کے لیے لڑیں گے۔ اور وہ ہمیشہ امریکی مفاد کو ترجیح دیں گے۔‘
اس نامزدگی پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے گرینل نے لکھا کہ ’صدر ٹرمپ مسائل حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور امریکیوں کو محفوظ اور خوشحال رکھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بہت کچھ کرنا ہے، چلیں کام شروع کرتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ روئٹرز نے کچھ روز قبل ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ گرینل کو ایران کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کیا جاسکتا ہے تاہم گرینل نے خود اس خبر کی تردید کر دی تھی۔
رچرڈ گرینل کو پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور وہ خود عمران خان کو اڈیالہ جیل میں رکھے جانے کے خلاف بارہا ایکس پر آواز اٹھا چکے ہیں۔
26 نومبر کو رچرڈ گرینل نے ایکس پر ایک پیغام میں لکھا کہ ’پاکستان کو دیکھیں۔ ان کا ٹرمپ جیسا رہنما جعلی الزامات پر جیل میں ہے اور وہاں کے لوگ امریکہ میں سرخ لہر (رپبلکن پارٹی کی واپسی) سے متاثر ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں سیاسی بنیادوں پر کارروائیاں بند ہونی چاہییں۔‘
اسی روز انھوں نے ایک ٹویٹ میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا جس پر لندن میں مقیم تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری نے ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔
26 نومبر وہی دن ہے جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور عمران خان کی بیوی بشریٰ بی بی کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا اور ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کریک ڈاؤن کر کے سینکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا تھا۔ اس تصادم میں پانچ سکیورٹی اہلکار اور پی ٹی آئی کے 12 کارکنان ہلاک ہوئے تھے۔
نومبر کے اواخر میں امریکی کانگریس کے نمائندوں نے صدر بائیڈن کو لکھے گئے خط میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا جبکہ سماجی حقوق کی تنظیم ایمنسمٹی انٹرنیشنل نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مظاہرین کے خلاف ’طاقت کے استعمال‘ کی مذمت کی تھی۔
دریں اثنا رچرڈ گرینل کی اس نامزدگی پر تحریک انصاف کے حامی کئی ایکس اکاؤنٹس نے خوشی ظاہر کی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور عمران خان کے سابق معاون شہباز گِل نے یہ امید ظاہر کی کہ وہ ’پاکستان میں جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کو فروغ دیں گے۔ ماضی میں عمران خان کی رہائی کے لیے آپ کی کوششیں تعریف کے قابل ہیں۔‘
پی ٹی آئی میری لینڈ کے صدر وقار خان نے رچرڈ گرینل کو مخاطب کر کے کہا کہ ’اب آپ کے پاس اتنے اختیار اور وسائل ہیں کہ آپ عمران خان کو آزاد کرا سکیں۔‘
جبکہ رہنما پی ٹی آئی عاطف خان نے کہا کہ گرینل ’پاکستان کی صورتحال اور سابق وزیر اعظم عمران خان سے متعلق 'ٹرمپ کی ٹیم کے سب سے باخبر شخص ہیں۔‘
دوسری طرف تھنک ٹینک ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے ایکس پر لکھا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے عمران خان کے معاملے پر خاموشی برقرار رکھی جس سے یہ ثاثر ملتا ہے کہ انھیں قید کیا جانا یا پاکستان سے متعلق امور ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ان کے مطابق یہ عمران خان کے ’حامیوں کی امیدوں کے برعکس ہے۔‘
ان کا خیال ہے کہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا سے متعلق خارجہ پالیسی میں ٹرمپ انتظامیہ تسلسل اپنائے گی۔