جیسن گلیسپی کے پاکستانی کرکٹ ٹیم سے علیحدگی کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا جن کے بارے میں پہلے تو انھوں نے خود کُچھ نہیں کہا تاہم اب اے بی سی سپورٹس کے گرینڈ سٹینڈ پروگرام کے دوران بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے مستعفی کیوں ہوئے۔
معروف آسٹریلوی کھلاڑی جیسن گلیسپی کو رواں سال اپریل میں پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا تھا۔ اس دوران پاکستان کو بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تاہم اس کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم نے کم بیک کیا اور انگلینڈ کے خلاف 2-1 سے کامیابی حاصل کی۔
گرین شرٹس کی اس کارکردگی کے بعد یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ اب پاکستانی کرکٹ فینز کے لیے اچھے دن آنے والے ہیں مگر حالات میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی اور ہر گُزرتے دن کے ساتھ ساتھ کرکٹ بورڈ اور ہیڈ کوچ کے درمیان حالات نے کشیدگی اختیار کی۔
گیری کرٹسن کے استعفے کے بعد جیسن گلیسپی کو ٹیم کا عبوری وائٹ بال کوچ بھی مقرر کیا گیا تھا جس کے بعد پاکستان نے آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچز کی سیریز میں کامیابی حاصل کی تھی۔
گذشتہ ہفتے گلیسپی مبینہ طور جنوبی افریقہ روانگی کے وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم سے علیحدہ ہو گئے اور وہ جنوبی افریقہ جانے والی پرواز میں سوار نہیں ہوئے تھے۔ اس بات کی تصدیق ہونے کے بعد ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کے کوچ عاقب جاوید نے گلیسپی کی جگہ لی۔
اگر پاکستان کی کرکٹ تاریخ کا جائزہ کیا جائے تو گذشتہ 20 برسوں میں پاکستان ٹیم کے 19 کوچ تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس سے بورڈ کی سنجیدگی کے متعلق ایک اشارہ ملتا ہے کہ وہ طویل مدتی حکمت عملی مرتب کرنے میں زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔
جیسن گلیسپی پاکستان کرکٹ ٹیم کی کوچنگ چھوڑنے والے پہلے یا واحد غیر ملکی کوچ نہیں ہیں اگر حالیہ ماضی کا جائزہ لیا جائے تو گذشتہ دو برسوں کے دورانہی تین غیر ملکی کوچ پاکستان آئے اور کچھ عرصے بعد ہی واپس بھیج دیے گئے۔
جیسن گلیسپی کی بھی اس مرتبہ پاکستانی کرکٹ ٹیم سے علیحدگی کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا جن کے بارے میں پہلے تو انھوں نے خود کُچھ نہیں کہا تاہم اب اے بی سی سپورٹس کے گرینڈ سٹینڈ پروگرام کے دوران سابق کھلاڑی ڈیرن لیہمین اور کوینٹن ہل سے بات چیت کرتے ہوئے جیسن گلیسپی نے بتایا کہ انھوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے استعفی کیوں دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’میں جانتا تھا کہ پاکستان کرکٹ نے بہت کم عرصہ میں کافی کوچز کا استعمال کر رکھا تھا لیکن میں نے پاکستان کرکٹ بورڈ سے بات کی کہ کس طریقے سے میں ان کی مدد کر سکتا ہوں۔ ہیڈ کوچ کی حیثیت سے آپ ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں لڑکے ریلیکس ہوں لیکن فوکس بھی ہوں جس میں ان کو آزادی سے کھیلنے کا موقع بھی ملے۔‘
آسٹریلوی چینل اے بی سی سپورٹس کو دیے جانے والے انٹرویو میں گلیسپی کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے نزدیک ٹیسٹ ٹیم میں ہم کافی حد تک ایسا کرنے میں کامیاب بھی رہے۔ جیسا کہ انگلینڈ کے خلاف سیریز جیت سے واضح ہوتا ہے۔ معاملات ختم ہونے سے پہلے بہت سی اچھی باتیں ہوئیں۔ لیکن جو چیز آخری کیل ثابت ہوئی وہ یہ تھی کہ ہیڈ کوچ اور بورڈ میں رابطے اور تعاون کا فقدان، یہ رابطہشفاف ہونا چاہیے لیکن مجھے ہائی پرفارمنس کوچ ٹم نیلسن سے متعلق فیصلے کے بارے میں اندھیرے میں رکھا گیا اور میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی گئی۔‘
جیسن گلیسپی کا نام کرکٹ فینز کے لیے ایسا نہیں ہے کہ انھیں کوئی جانتا نہ ہو۔
پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کے دوران گلیسپی کو پی سی بی کی جانب سے ملنے والی ذمہ داریوں میں بھی کئی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا جن کی وہ نگرانی کر رہے تھے۔ انھیں چیلینجز میں سے ایک وہ وقت بھی تھا کہ جب انھیں کپتان شان مسعود کے ساتھ سلیکٹر کا اضافی کردار بھی نبھانا تھا۔ تاہم بعد ازاں علیم ڈار، عاقب جاوید اور اظہر علی کو پینل میں شامل کیا گیا۔
یہ وہ وقت تھا جب جیسن گلیسپی کے اختیارات کم ہو رہے تھے، بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں پاکستان کی شکست اور دورہ انگلینڈ کے دوران ملتان ٹیسٹ میں پاکستان کی انگلینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد ان کے اور پی سی بی کےدرمیان کچھ فاصلہ آ گیا تھا اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے عاقب جاوید اور سابق امپائر علیم ڈار کو تمام تر اختیارات سونپ دیے تھے۔
’کیا واقعی پی سی بی چاہتا ہے میں کام کروں‘
گلیسپی نے پاکستانی ٹیم کو چھوڑنے کے بعد آسٹریلوی چینل اے بی سی نیوز کو دیے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’کہا گیا کہ اب ان کی (میری) خدمات کی ضرورت نہیں ہے لیکن مجھے کسی نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران پیش آنے والے چند دیگر واقعات کے بعد شاید یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے سوچا کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ چاہتے ہیں کہ میں کام کروں یا نہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں گلیسپی نے کہا کہ ’کھلاڑیوں کے ساتھ بہت قریبی تعلق قائم ہو چکا تھا، خصوصاً شان مسعود کے ساتھ اور ہم سمجھتے تھے کہ ہماری سمت درست ہے۔‘
ٹم نیلسن کے بارے میں گلیسپی نے کہا کہ ’کھلاڑیوں کا ان کے بارے میں فیڈبیک اچھا تھا اور انگلینڈ کے خلاف سیریز میں پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس بہت بہتر تھی اور ٹیم نے بہتر فیلڈنگ کی جو عموماً کسی اپوزیشن کے مقابلے میں نہیں ہوتی تھی، اور یہ سب ٹم کی وجہ سے تھا، ہم نے آخری میچوں میں ایک بھی چانس ڈراپ نہیں کیا۔‘
اے بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے گلیسپی کا کہنا تھا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب ہم بطور کوچنگ گروپ منظم طریقے سے کام کر رہے تھے تو ہیڈ کوچ کو ایک بڑے فیصلے کے بارے میں فون کال یا ٹیکسٹ میسج تک نہ ملے، میں نے سوچا کہ کیا پی سی بی واقعی چاہتا ہے کہ میں کام کروں؟‘
’پاکستان میں بہت ٹینلٹ موجود ہے بس درست سمت کی ضرورت ہے‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایک تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں موجود ٹیلنٹ کو انتظامیہ درست استعمال نہیں کر رہی تو گلیسپی نے کہا کہ ’پاکستان میں موجود ٹیلنٹ دنیا کی کسی بھی دوسری جگہ جتنا اچھا ہے اور ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ملک میں کرکٹ سب سے بڑا کھیل ہے۔ وہ کرکٹ ہی جیتے اور سوچتے ہیں۔ اگر ٹیم ہارتی ہے تو جیسے دنیا ختم ہو جاتی ہے۔ تو ٹیلنٹ موجود ہے، اگر اسے صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے اور درست سمت میں کام ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ایک پاور ہاوس نہ بنے۔‘
گلیسپی کا کہنا تھا کہ ’میں نے اسی چیلنج کی وجہ سے کوچ بننا قبول کیا تھا۔ لیکن پھر میرا کردار محدود ہو گیا اور مجھے لگ رہا تھا کہ میں صرف کیچ کروا رہا ہوں اور بس۔ میچ سے پہلے ہیڈ کوچ کو پتہ ہونا چاہیے کہ ٹیم کیا ہو گی، کم از کم ایک دن پہلے، تاکہ آپ تیاری کر سکیں، منصوبہ سازی کر سکیں، لیکن یہ سب مشکل ہو رہا تھا اور اسی لیے میرے لیے اپنا کام بہتر انداز میں کرنا مشکل ہو چکا تھا۔‘
’بابر کو ڈراپ کرنے کا فیصلہ میرا نہیں تھا‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’جب بورڈ نے فیصلہ کیا کہ ٹم نیلسن جنوبی افریقہ نہیں جائیں گے، اور میں نے سنا ہے کہ ایسا کسی کی تجویز پر کیا گیا، تو میرے لیے کام کرنا ممکن نہیں رہا۔‘
اس موقع پر پروگرام کے میزبان نے سوال کیا کہہیڈ کوچ اگر بارہ سیلیکٹرز میں سے ایک نہیں تو یہ بہت مشکل ہے۔ یہ مضحکہ خیز ہے۔
جب ان سے بابر اعظم کے بارے میں سوال کیا گیا تو گلیسپی نے کہا کہ ’انگلینڈ سے پہلا میچ ہارنے کے بعد ایک گروپ میں ٹیسکٹ میسج آیا جس میں نئی سلیکشن کمیٹی کا اعلان کیا گیا تھا جو اگلے میچ کے لیے ٹیم سلیکشن کر رہی تھی۔ اس بار بھی مجھے اس سب کے بارے میں نہیں بتایا گیا اور میں اس سب سے لاعلم تھا۔ مجھے یہ سب بہت عجیب لگا۔‘
گلیسپی کہتے ہیں کہ ’بابر محنتی کھلاڑی ہے اور مجھے اس کے ساتھ کام کرنے میں بہت مزہ آیا۔ وہ اپنے لیے اور ساتھیوں کے لیے ہائی سٹینڈرڈ رکھتا ہے۔ وہ جیسے خود ٹریننگ کرتا ہے، فٹ رہتا ہے، وہ سب سے وہی توقع رکھتا ہے۔ اسے نکالنے کا فیصلہ کمیٹی نے کیا، میں اس میں شامل نہیں تھا۔ لیکن اب وہ جنوبی افریقہ میں سیزیز میں شامل ہے۔‘
سوشل میڈیا پر ردعمل
جیسن گلیسپی کے پاکستانی کرکٹ ٹیم سے علیحدہ ہو جانے کے بعد سے سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے جہاں گلیسپی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا وہیں ایسے لوگوں کی بھی بڑی تعداد سامنے آئی کہ جنھوں نے پی سی بی یعنی پاکستان کرکٹ بورڈ پر تنقید کی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر علی ظفر نامی ایک صارف نے گلیسپی کے لیے لکھا کہ ’معذرت گلیسپی! اس سب میں آپ کی واحد غلطی یہ تھی کہ آپ نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے اس کردار اور اس کے ساتھ آنے والے چیلنج کو سب سے پہلے قبول کیا۔ پی سی بی اور پاکستان کسی بھی عام انسان کے قابل نہیں۔‘
تاہم جب 12 دسمبر کو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ جیسن گلیسپی نے پی سی بی کے ساتھ مزید چلنے سے معذرت کر لی ہے تو اس کے بعد ایکس پر باسط سبحانی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’پاکستان کرکٹ کے لیے شرمناک لمحہ بین الاقوامی کوچز اب پاکستان کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے سے پہلے سوچیں گے اور یہ اُن کے لیے اتنا آسان نہیں ہو گا۔ پہلے گیری اور اب گلیسپی، دونوں سابق عظیم کرکٹرز اور تجربہ کار کوچ ہیں۔ پاکستان کرکٹ کے لیے بڑا نقصان جیسن گلیسپی کو کم از کم ایک اور سال کے لیے ٹیسٹ ٹیم کی کوچنگ کرنے کے لیے قائل کیا جانا چاہیے تھا!‘
کرکٹ تجزیہ کار سمیعچوہدری نے بی بی سی کے لیے اپنی تحریر میں لکھا تھا کہ ’گیری کرسٹن کے فوری بعد ہی جیسن گلیسپی کی بھی پاکستان کرکٹ سے یوں ناخوش رخصتی کے بعد اب شاید کوئی ثانوی انتخاب بھی یہاں آنا پسند نہ کرے، خواہ نوکری کی شرائط کیسی ہی پرکشش کیوں نہ ہوں۔‘