پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز نے حال ہی میں چین کا ایک طویل دورہ کیا جس کے دوران انہوں نے صوبے میں مختلف اداروں میں چینی ٹیکنالوجی اور اور چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے حوالے سے کئی اہم ملاقاتیں کی ہیں۔
ان کے دورہ چین کے اختتام پر جاری ہونے والے حکومتی وزرا کے بیانات پر سوشل میڈیا پر کئی طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔
خاص طور پر پنجاب حکومت کے کینسر ہسپتال کے منصوبے، جو کہ نواز شریف کینسر ہسپتال کے نام سے زیر تکمیل ہے، سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہاں پر کینسر کے علاج کے لیے کیمو تھراپی کے بجائے اس سے بہتر طریقہ علاج رائج کیا جائے گا۔
اس کے بعد پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے بھی ایک بیان جاری کیا جس میں یہ کہا گیا کہ اس کینسر ہسپتال میں کیمو تھراپی نہیں ہوگی۔ ان بیانات کے بعد سوشل میڈیا پر طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں۔
ن لیگ کے مخالفین نے اس بات کا مذاق اڑایا جبکہ پارٹی کے حامیوں نے اس اقدام کی تعریف کی۔ کئی ایک یوٹیوبرز اور صحافیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر کیمو تھراپی طریقہ علاج کے خلاف وی لاگ کیے اور بیانات بھی دیے ہیں۔
سوشل میڈیا پر شاید یہ اس لیے بھی زیر بحث ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کے سب سے بڑے سیاسی مخالف عمران خان نے بھی سیاست میں آنے سے پہلے شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا تھا۔ اب ن لیگ کی پنجاب حکومت بھی ایک بڑا ہسپتال لاہور میں کینسر کے حوالے سے بنا رہی ہے۔ تو کیا واقعی میں چین میں کیمو تھراپی سے علاج نہیں کیا جاتا اور نواز شریف کینسر ہسپتال میں کیموتھراپی کی جگہ کوئی اور طریقہ علاج اپنایا کیا جائے گا؟
اس حوالے سے اردو نیوز نے کینسر کے ماہر ڈاکٹروں سے بات چیت کی ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اس وقت دنیا میں کینسر کے حوالے سے کون سے طریقہ علاج دستیاب ہیں۔
ڈاکٹر عارف چوہدری، جو کینسر کیئر کے نام سے ایک ہسپتال بھی چلا رہے ہیں اور پاکستان کے مایہ ناز کینسر سپیشلسٹس ہیں، سے پوچھا گیا کہ اس وقت دنیا میں کینسر کے جدید ترین طریقہ علاج کون کونسے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ کینسر کو آج بھی تین طریقوں سے ہی ٹریٹ کیا جاتا ہے۔
مریم نواز کے دورہ چین کے اختتام پر جاری ہونے والے حکومتی وزرا کے بیانات پر سوشل میڈیا پر کئی طرح کی باتیں ہو رہی ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)
’پہلا سرجری کا مشہور زمانہ طریقہ علاج ہے کہ سرجری کی جائے اور کینسر زدہ حصے کو الگ کر دیا جائے، دوسرا طریقہ ریڈی ایشن ہے جس میں شعاعوں کے ذریعے کینسر کے سیلز کو ختم کر دیا جاتا ہے۔ ایک اور طریقہ ہے ادویات کے ذریعے، جسے کیمو تھراپی بھی کہا جاتا ہے۔ تو دنیا میں اس وقت یہی تین طریقے ہیں، کوئی چوتھا طریقہ علاج میرے علم میں تو نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر عارف چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ کیمو تھراپی میں چونکہ ادویات ہی استعمال ہوتی ہیں اب اس کے کچھ بہتر ورژن بھی آگئے ہیں جن کو ایمونو تھراپی یا ٹارگٹڈ تھراپی کہا جاتا ہے، یہ ہوتی تو دوائی ہی ہے لیکن چونکہ کینسر پر ریسرچ آئے روز ہوتی رہتی ہے تو ایسی ادویات بھی آگئی ہیں جو صرف ٹارگٹڈ حصے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ لیکن یہ طریقہ علاج بہت مہنگا ہے اور سرکاری ہسپتال میں تو اس کو لانا ناممکن ہے اسی طرح سے ریڈی ایشن کے حوالے سے جدید مشینیں آ چکی ہیں اور وہ پاکستان میں بھی ہیں جن کو سائبر نائف یا گاما نائف کہا جاتا ہے۔ چھ سے سات مشینیں اس وقت پاکستان میں موجود ہیں جو بہت ہی ٹارگٹڈ ریڈییشن کرتی ہیں تو بنیادی طریقہ علاج وہی ہے یعنی سرجری، شعاعیں اور دوائی۔‘
گذشتہ دو دہائیوں سے کینسر کا علاج کرنے والے ڈاکٹر ارسلان کہتے ہیں کہ ’کینسر کے علاج میں دن بدن جو بہتری آ رہی ہے اس میں جنرل تھراپی کے بجائے ٹارگٹڈ تھراپی پچھلے چند سالوں میں بہت مقبول ہوئی ہے اور چین میں بھی اور پوری دنیا میں حتی کہ اب پاکستان میں بھی ٹارگٹڈ تھراپی ہو رہی ہے۔ پہلے سے ہی یہ موجود ہے، پنجاب حکومت کون سی ایسی ٹیکنالوجی لا رہی ہے جو پہلے پاکستان میں نہیں ہے؟ تو یہ تھوڑا سا ہمیں بھی دیکھنا پڑے گا کیونکہ بظاہر کوئی ایسی چیز نہیں ہے دنیا میں۔‘
’جو بھی کینسر کا علاج ہے وہ پاکستان میں بھی دستیاب ہے جس حد تک سائنسدان یا ڈاکٹر قابل عمل چیزیں بنا پائے ہیں تو وہ پاکستان میں پہلے ہی استعمال ہو رہی ہیں۔ باقی کینسر کی جو سٹیجز ہیں ہر طریقہ علاج کا تعلق اس سٹیج سے ہوتا ہے کہ کینسر کی کب تشخیص ہوئی، اس لحاظ سے طریقہ علاج کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اس کا فیصلہ ہوتا ہے۔‘
کیا پنجاب حکومت کیموتھراپی کے مقابلے میں ٹارگٹڈ تھراپی کو طریقہ علاج کے طور پر لا رہی ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور ٹیکنالوجی ہے جس کا بظاہر ڈاکٹروں کو بھی علم نہیں ہے؟ اس حوالے سے پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری سے تحریری طور پر یہ پوچھا گیا کہ وہ اس ٹیکنالوجی کا نام یا اس طریقہ کار کا نام شیئر کریں، مگر ابھی تک اس حوالے سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔