یونائیٹڈ فرنٹ: چین کا ’جادوئی ہتھیار‘ اور عالمی جاسوسی کے الزامات

امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک کے تفتیش کار جاسوسی کے متعدد کیسز میں یو ایف ڈبیلو ڈی کا ذکر کرتے رہے ہیں اور چین پر دیگر ممالک کے معاملات میں مداخلت کے الزامات بھی عائد کرتے رہے ہیں۔
چین
Getty Images
امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک کے تفتیش کار جاسوسی کے متعدد کیسز میں یو ایف ڈبیلو ڈی کا ذکر کرتے رہے ہیں

کمیونسٹ پارٹی کے بانی رہنما ماؤ زے تنگ اور موجودہ رہنما شی جن پنگ کے مطابق چین کے پاس ایک ’جادوئی ہتھیار‘ ہے۔

اس ہتھیار کا نام یونائیٹڈ فرنٹ ورک ڈپارٹمنٹ (یو ایف ڈبلیو ڈی) ہے اور مغربی دنیا میں اس کے حوالے سے کافی تشویش بھی پائی جاتی ہے۔

یانگ ٹینگبو، جن کا تعلق برطانوی شاہی خاندان کے شہزادہ اینڈریو سے بھی جوڑا گیا ہے، ایک چینی شہری ہیں جن پر یو ایف ڈبلیو ڈی سے منسلک ہونے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

اس محکمے کا وجود ابھی کوئی راز نہیں ہے۔ اس کی موجودگی دہائیوں سے چینی کمیونسٹ پارٹی کے دستاویزات سے بھی ثابت ہوتی رہی ہے اور یہ چینی محکمہ ماضی میں بھی تنازعات کا شکار رہا ہے۔

امریکہ سے لے کر آسٹریلیا تک کے تفتیش کار جاسوسی کے متعدد کیسز میں یو ایف ڈبیلو ڈی کا ذکر کرتے رہے ہیں اور چین پر دیگر ممالک کے معاملات میں مداخلت کے الزامات بھی عائد کرتے رہے ہیں۔

چین نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے اور انھیں مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔ یقیناً لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوالات ہوں گے کہ ڈی ایف ڈبیلو ڈی ہے کیا اور کام کیا کرتا ہے؟

کیا ’ڈی ایف ڈبلیو ڈی‘ جاسوسی کا محکمہ ہے؟

یونائیٹڈ فرنٹ کا حقیقی مطلب کمیونسٹ اتحاد تھا اور اسے ماؤ زے تنگ نے چین میں خانہ جنگی کے دوران ’فتح کی چابی‘ قرار دیا تھا۔

جب سنہ 1949 میں چین میں جنگ ختم ہوئی تو یونائیٹڈ فرنٹ کی سرگرمیاں پس پشت چلی گئیں اور چین کی ترجیحات بدل گئیں۔

لیکن پچھلی ایک دہائی میں صدر شی جن پنگ کی قیادت میں یونائیٹڈ فرنٹ کو ایک نئی زندگی ملی ہے۔

جرمن مارشل فنڈ سے منسلک سینیئر فیلو ڈاکٹر ماریکے اولبرگ کے مطابق صدر شی جن پنگ کا یونائیٹڈ فرنٹ کے حوالے سے خیال ماضی سے مطابقت رکھتا ہے کہ ’ان تمام سوشل قوتوں سے اتحاد بنایا جائے جو آج بھی متعلقہ ہوں۔‘

بظاہر دیکھا جائے تو یو ایف ڈبیلو ڈی کوئی پُراسرار محکمہ نہیں ہے بلکہ اس کی ایک ویب سائٹ بھی ہے اور اس کی سرگرمیوں کی خبریں وہاں شیئر بھی کی جاتی ہیں۔ تاہم اس کا کام اور اس کا اثر و رسوخ آج بھی غیرواضح ہے۔

ڈاکٹر اولبرگ کے مطابق یو ایف ڈبلیو ڈی کی سرگرمیوں کا بڑا حصہ اندورنِ ملک کام پر مشتمل ہے، تاہم ’یونائیٹڈ فرنٹ کے لیے تعین کردہ ہدف بیرونِ ملک چینی شہریوں کی نگرانی کرنا ہے۔‘

چین
Getty Images
یونائیٹڈ فرنٹ کا حقیقی مطلب کمیونسٹ اتحاد تھا اور اسے ماؤ زے تنگ نے چین میں خانہ جنگی کے دوران فتح کی چابی قرار دیا تھا

آج یو ایف ڈبیلو ڈی کا مقصد عوامی بحث و مباحثے پر اثرانداز ہونا ہے اور ان موضوعات میں تائیوان، تبت اور سنکیانگ سے جُڑے معاملات شامل ہیں۔

یو ایف ڈبیلو ڈی کا ایک مقصد غیرملکی میڈیا میں چین سے متعلق بیانیہ بنانا، چینی حکومت کے ناقدین کو نشانہ بنانا اور بیرونِ ملک بااثر چینی شہریوں پر اثر انداز ہونا بھی ہے۔

یونیورسٹی آف ساؤدرن کیلیفورنیا سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر اوڈرے وونگ کہتی ہیں کہ ’یونائیٹڈ فرنٹ کے کاموں جاسوسی کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے لیکن ان کا کام جاسوسی سے بھی زیادہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کسی غیرملکی حکومت سے حساس معلومات حاصل کرنے کے علاوہ یونائیٹڈ فرنٹ کی سرگرمیوں کا مقصد بیرونِ ملک چینی شہریوں کو وسیع پیمانے پر متحرک کرنا ہے۔‘

چین کا مقصد ہمیشہ سے ہی اثر و رسوخ حاصل کرنا تھا لیکن حالیہ دہائیوں میں اس مقصد کو حاصل کرنے کی چینی کوششوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

شی جن پنگ سنہ 2012 میں چین کے صدر بنے تھے اور اس کے بعد سے ہی وہ چین کا پیغام دنیا تک پہنچانے کے لیے پُرجوش نظر آئے ہیں۔ انھوں نے بیرون ملک رہائش پزیر چینی شہریوں سے درخواست کی تھی کہ وہ ’اچھے طریقے سے چین کی کہانی سُنائیں۔‘

یو ایف ڈبلیو ڈی بیرون ملک مختلف تنظیموں کے ذریعے کام کرتا ہے جو کہ ماضی میں کمیونسٹ پارٹی کادفاع کرتی رہی ہیں۔ ان تنظیموں نے نہ صرف چینی کمیونسٹ پارٹی مخالف آرٹ کو نظرانداز کیا بلکہ تبت کے روحانی رہنما دلائی لاما کی سرگرمیوں کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا۔

ماضی میں ایو ایف ڈبلیو ڈی کا نام بیرونِ ملک تبتی اور اویغور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملنے والی دھمکیوں سے بھی جوڑا جاتا رہا ہے۔

لیکن یو ایف ڈبلیو ڈی کا کام کمیونسٹ پارٹی کے دیگر اداروں کے ساتھ بھی اکثر ٹکراتا رہتا ہے اور مشاہدہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سبب چین کو اپنی سرگرمیوں کی ’تردید‘ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

یو ایف ڈبلیو ڈی کی یہاں سرگرمیاں مغربی دنیا کے شکوک اور تشویش کا باعث ہیں۔

جب یانگ ٹینگبو نے اپنے اوپر عائد ہونے والی پابندیوں کے خلاف اپیل کی تھی تو ججز نے امریکی خارجہ سیکریٹری کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا تھا جس میں انھیں ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ قراد دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یانگ ٹینگبو نے یو ایف ڈبیلو ڈی کے ساتھ اپنے روابط کو چھپایا تھا۔

تاہم یانگ ٹینگبو کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا اور ان پر عائد کیے گئے جاسوسی کے الزامات ’مکمل طور پر جھوٹ‘ ہیں۔

یانگ ٹینگبو کے کیس سے مطابقت رکھتے مقدمات اب تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔ سنہ 2022 میں برطانوی خفیہ ایجنسی ’ایم آئی فائیو‘ نے چینی نژاد برطانوی وکیل کرسٹین لی پر بھی یو ایف ڈبلیو کے لیے برطانیہ میں بااثر لوگوں سے تعلقات استوار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

اسی برس امریکی شہر بوسٹن میں چینی ریستوران چلانے والے لیانگ لٹانگ پر چینی ناقدین کی معلومات یو ایف ڈبلیو ڈی کو فراہم کرنے پر فردِ جُرم عائد کی گئی تھی۔

پھر ستمبر میں نیو یارک کے گورنر کے دفتر کی سابق ملازم لنڈا سُن پر بھی چینی مفادات کے لیے کام کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔

چین کے سرکاری میڈیا کی اطلاعات کے مطابق لنڈا کی ملاقات سنہ 2017 میں یو ایف ڈبیلو ڈی کے اعلیٰ عہدیدار سے ہوئی تھی جنھوں نے لنڈا کو ’چین و امریکہ دوستی کی سفیر‘ کا کردار ادا کرنے کو کہا تھا۔

بیرونِ ملک بااثر چینی شہریوں کے کمیونسٹ پارٹی سے تعلقات ہونا عام سی بات ہے اور اکثر یہ شخصیات کاروباری معاملات میں بھی پارٹی کے عہدہداران سے اجازت طلب کرتے ہیں۔

جون ہوپکنز یونیورسٹی سے منسلک سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر ہو فنگ ہنگ کہتے ہیں کہ جب چین کی بات آتی ہے تو ’ہمیں جاسوسی اور اثر و رسوخ کے حصول کی کوششوں کے درمیان لکیر غیر واضح ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔‘

یہ لیکر اس وقت مزید غیر واضح ہوئی جب چین نے سنہ 2017 میں نئے قوانین کی منظوری دی جس کے تحت چینی شہریوں اور کمپنیوں کو انٹیلیجنس ایجنسیوں سے تعاون اور چینی حکومت سے معلومات شیئر کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر ہنگ کے مطابق اس قانون نے ’ہر شخص کو سیاسی جاسوس میں بدل دیا۔‘

اس حوالے سے چین کی وزارت برائے سٹیٹ سکیورٹی نے پروپیگنڈا پر مبنی ویڈیوز بھی جاری کی تھی جس میں عوام کو خبردار کیا گیا تھا کہ غیرملکی جاسوس ہر جگہ پھیل چکے ہیں۔

دیگر ممالک خصوصی دوروں پر جانے والے چینی کچھ چینی طالب علموں کو بھی چینی یونیورسٹیوں کی جانب سے ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ غیرملکی شہریوں کے ساتھ اپنے روابط کو محدود رکھیں اور اپنی سرگرمیوں کی رپورٹ بھی جمع کروائیں۔

لیکن اس سب کے باوجود بھی صدر شی جن پنگ دنیا میں چینی مفادات کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور اس کی ذمہ داری انھوں نے یو ایف ڈبیلو ڈی کو سونپی ہے۔

ان تمام معاملات کے سبب مغربی قوتوں کے لیے اس بات کا تعین کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ سکیورٹی خدشات کے باوجود دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت کے ساتھ کاروبار کیسے کیا جائے؟

چینی مداخلت سے بچنے کی کوششیں

مغرب میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کی کوششیں اب تیز ہو رہی ہیں۔

آسٹریلیا جیسے ممالک نے اپنے تحفظ کے لیے غیرملکی مداخلت کو روکنے کے لیے قوانین متعارف کروائے ہیں جس کے تحت ملک کے اندورنی معاملات میں مداخلت کرنے والوں کو مجرم تصور کیا جائے گا۔

سنہ 2020 میں امریکہ نے ایسے لوگوں کو ویزہ جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی جو کہ یو ایف ڈبیلو ڈی کی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے۔

ان اقدامات سے چین میں بھی بےچینی بڑھی تھی اور اس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان پابندیوں کے سبب دو طرفہ تعلقات میں رُکاوٹیں کھڑی ہو رہی ہیں۔

منگل کو ایک سوال کے جواب میں چینی دفترِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ’چین پر جاسوسی کے الزامات مکمل طور پر مضحکہ خیز ہیں۔ چین اور برطانیہ کے تعلقات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں۔‘

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے یونائیٹڈ فرنٹ کے لمبے ہوتے ہاتھ یقیناً باعثِ تشویش ہیں۔

چین
Getty Images
یو ایف ڈبیلو ڈی کا مقصد عوامی بحث و مباحثے پر اثرانداز ہونا ہے اور ان موضوعات میں تائیوان، تبت اور سنکیانگ سے جُڑے معاملات شامل ہیں

ڈاکٹر ہنگ کہتے ہیں کہ ’مغربی حکومت کو چین کے یونائیٹڈ فرنٹ کے کام کو نہ صرف اپنی قومی سلامتی کے لیے سنجیدہ خطرہ سمجھنا چاہیے بلکہ اسے چینی ناقدین کے تحفظ اور آزادی کے لیے بھی خطرہ سمجھنا چاہیے۔‘

تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مغربی ’حکومتوں کو چین مخالف تعصب پر نظر رکھنے اور چینی کمیونیٹی کے ساتھ اعتماد بڑھانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس خطرے کو روکنے کے لیے مل کر کام کیا جا سکے۔‘

گذشتہ برس دسمبر میں آسٹریلیا میں ویتنام میں پیدا ہونے والے چینی کمیونٹی کے رہنما ڈی سنھ ڈونگ کو ایک آسٹریلوی وزیر سے روابط بڑھا کر آسٹریلیا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کے الزام میں سزا سُنائی گئی تھی۔

پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ ڈونگ یو ایف ڈبیلو ڈی کے لیے ایک ’مثالی امیدوار‘ تھے کیوںکہ وہ 1990 کی دہائی میں انتخابات میں بھی حصہ لے چکے تھے اور اکثر چینی حکام کے ساتھ اپنے روابط کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے۔

ڈونگ کے خلاف عدالتی کارروائی میں دنیا کی دلچپسی نظر آئی تھی کیونکہ انھوں نے ایک فلاحی تقریب میں کہا تھا کہ آسٹریلوی وزیر کی وہاں موجودگی ’ہم چینی شہریوں‘ کے لیے فائدہ مند ہوگی۔ اس موقع پر سوال اُٹھا کہ ڈونگ کا اشارہ آسٹریلیا میں چینی کمیونٹی کی طرف ہے یا پھر براہِ راست چین کی طرف۔

آخر میں جب ڈونگ کو سزا سُنائی گئی تو ان خدشات نے بھی جنم لیا کہ کہیں جاسوسی مخالف قوانین چینی شہریوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر نہ استعمال ہونے لگیں۔

ڈاکٹر ہونگ کہتے ہیں کہ ’یہ یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ ہر چینی فرد کمیونسٹ پارٹی کا حامی نہیں ہے اور بیرونِ ملک کام کرنے والی ہر چینی تنظیم بھی چین کی وفادار نہیں ہے۔‘

’لسانی تعصب پر مبنی جارحانہ پالیسیاں کے سبب چینی حکومت کے پروپیگنڈے کو تقویت ملے گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.