31 سالہ ڈاکٹر کا ریپ کرنے اور قتل کرنے کے مقدمے میں ایک انڈین شخص نے اعتراف جرم سے انکار کر دیا ہے۔
9 اگست کو مشرقی شہر کولکتہ کے ایک سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر کی خون آلود لاش کی دریافت نے خواتین کے خلاف تشدد کے دائمی مسئلے پر ملک گیر غصے کو جنم دیا اور بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ملزم کے وکیل سورو بندیوپادھیائے نے بتایا کہ اس کیس کے اکلوتے ملزم 33 سالہ سنجے رائے نے جمعے کو کولکتہ کی ایک عدالت میں جج کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف نہیں کیا۔وکیل نے اپنے مؤکل کے الفاظ کو دہراتے ہوئے کہا کہ ’میں قصوروار نہیں ہوں، مجھے پھنسایا گیا ہے۔‘سنجے رائے کو قتل کے اگلے دن گرفتار کیا گیا تھا اور تب سے حراست میں ہے۔ جرم ثابت ہونے پر اسے ممکنہ طور پر سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت نے تقریباً 50 گواہوں کے شواہد سنتے ہوئے 11 نومبر کو سماعت شروع کی۔وکیل نے کہا کہ ’جج انیربن داس نے چھ گھنٹے تک ان کیمرہ سماعت کے دوران ان سے 100 سے زیادہ سوالات کیے، یہ عمل شام تک جاری رہا۔‘سنجے رائے نے نومبر میں سماعت سے قبل عدالت کے باہر جیل وین سے چیختے ہوئے عوام کے سامنے اپنی بے گناہی کا اعلان کیا تھا۔ اس وحشیانہ حملے کے ردعمل میں کولکتہ میں ڈاکٹروں نے کئی ہفتوں تک ہڑتال کی۔ہزاروں کی تعداد میں عام شہری احتجاج میں شامل ہوئے اور لوگوں میں خواتین ڈاکٹروں کے لیے بغیر کسی خوف کے کام کرنے کے لیے اقدامات کی کمی پر غصہ تھا۔انڈیا کی سپریم کورٹ نے ایک قومی ٹاسک فورس کو حکم دیا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کی حفاظت کو کیسے بڑھایا جائے۔حملے کی بھیانک نوعیت کا موازنہ 2012 میں دہلی کی بس میں ایک نوجوان خاتون کے اجتماعی عصمت دری اور قتل سے کیا گیا، جس نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا تھا۔مقدمے کی سماعت جاری ہے۔ اگلی سماعت 2 جنوری 2025 کو مقرر ہے۔