جس فلم سے نورجہاں کو پہچان ملی وہ دل سکھ ایم پنچولی کی فلم 'گل بکاؤلی' تھی۔ اس فلم کے لیے جب نورجہاں نے اپنا پہلا نغمہ صدا بند کروایا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ اس گانے کے بول تھے 'شالا جوانیاں مانیں، آکھا نہ موڑیں پی لیں‘۔
انڈیا اور پاکستان کی فلمی صنعت کی بہت سی شخصیات کو ان کے چاہنے والوں نے ایسے خطابات سے نوازا ہے جو ان کی شخصیت کے ساتھ مخصوص ہو گئے ہیں اور جب وہ خطاب زبان پر آتا ہے ذہن پر اس شخصیت کا نام دستک دینے لگتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم 'پری چہرہ' کہیں تو ذہن میں نسیم بانو کا نام ابھرتا ہے۔ 'ملکۂ موسیقی' کے ساتھ روشن آرا بیگم کا نام مخصوص ہے۔
'عوامی اداکار' کہیں تو ذہن میں علاؤالدین کا نام آتا ہے۔ 'آہو چشم' کا خطاب راگنی کی یاد دلاتا ہے، 'دختر صحرا' ریشماں کہلاتی ہیں اور 'ملکۂ جذبات' نیر سلطانہ، 'شہنشاہ غزل' مہدی حسن کو کہا جاتا ہے تو 'چاکلیٹی ہیرو' وحید مراد کہلاتے ہیں۔
اسی طرح دیبا کو 'مونا لیزا'، دلیپ کمار کو 'کنگ آف ٹریجڈی'، مینا کماری کو 'کوئن آف ٹریجڈی'، اعجاز کو 'خوبرو اعجاز'، مینا شوری کو 'لارا لپا گرل'، نینا کو 'پراسرار نینا'، شیاما کو 'چنچل شیاما'، ناڈیہ کو 'فیئرلیس (بے خوف) ناڈیہ' اور صادق علی کو 'پرنس آف منروا' کہا جاتا ہے۔
اب بہت سے خطابات کے ساتھ ساتھ ایک خطاب 'ملکۂ ترنم' بھی ہے، جو نورجہاں کی شخصیت کے ساتھ مخصوص ہو چکا ہے۔ جن اداکاروں اور گلوکاروں کے نام اوپر لیے گئے انھیں خطابات کب اور کس نے دیے اور وہ خطابات کیونکر ان کی شخصیت کا حصہ اور وجہ تعارف بنے، اس پر وقت کی دھول جم چکی ہے۔ مگر نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب کب اور کیسے ملا، اس پر پڑی وقت کی دھول کچھ کچھ صاف ہو چکی ہے۔
25 جون سنہ 1945 کو ایک فلم کا اشتہار شائع ہوا تھا جس میں نور جہاں کے نام سے پہلے 'ملکۂ ترنم' کا خطاب درج تھا۔
میڈم نور جہاں کے بارے میں مزید پڑھیے
'یہ لڑکی تو روتی بھی سروں میں ہے'
میڈم نورجہاں کا آخری انٹرویو
نورجہاں کی یاد دلوں میں زندہ ہے
میڈم نورجہاں کے کئی رنگ
اللہ وسائی سے 'بے بی نور جہاں' تک
نور جہاں 21 ستمبر 1926 کو قصور میں پیدا ہوئی تھیں۔ ماں باپ نے ان کا نام اللہ وسائی رکھا اور چار سال میں انھیں موسیقی کی تعلیم کے لیے خاندانی استاد غلام محمد کے سپرد کر دیا۔
سات برس کی عمر میں انھیں موسیقی کی اتنی شد بد ہو چکی تھی کہ وہ اپنی بڑی بہن عیدن اور کزن حیدر باندی کے ساتھ سٹیج پر گانا گانے لگی تھیں۔ ابتدا میں وہ مختار بیگم، اختری بائی فیض آبادی اور دوسری گلوکاروں کے مقبول گیت گاتی تھیں۔
آٹھ نو برس کی عمر میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا جہاں انھوں نے سٹیج پر پرفارم کرنا شروع کر دیا۔ یہیں انھیں موسیقار جی اے چشتی مل گئے جنھوں نے نور جہاں کی آواز کو مزید سنوارا اور انھیں چند طبع زاد گیتوں کی دھن بنا کر دی۔
لاہور میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد یہ بہنیں اپنے بھائی محمد شفیع کے ساتھ کلکتہ چلی آئیں۔ اس وقت کلکتہ میں مختار بیگم کا طوطیٰ بول رہا تھا۔ اس خاندان نے جلد ہی مختار بیگم تک رسائی حاصل کر لی اور مختار بیگم کو ان بہنوں کی آواز پسند آئی۔ ان کی سفارش پر انھیں کے ڈی مہرا کی فلم کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ اس کمپنی نے اللہ وسائی کا نام 'بے بی نور جہاں' رکھا جبکہ عیدن اور حیدر بائی اپنے اصل نام کے ساتھ ہی گاتی رہیں۔
تینوں بہنوں نے جس پہلی فلم میں کام کیا اس کا نام 'شیلا عرف پنڈ دی کڑی' تھا۔ اس فلم میں مرکزی کردار پشپا رانی اور استاد مبارک علی خان نے ادا کیے تھے۔ 'شیلا عرف پنڈ دی کڑی' ایک کم بجٹ والی فلم تھی چنانچہ اس فلم کے لیے کوئی نیا گیت نہیں کہا گیا اور پرانے لوک گیتوں سے ہی کام چلایا گیا۔
اس فلم میں نور جہاں نے ایک گانے 'لنگھ آجا پتن چنہاں دا او یار، لنگھ آ جا' پر پرفارم کیا جسے پسند کیا گیا اور اگلے تین چار سال تک انھیں فلموں میں ثانوی کردار ملتے رہے۔ چند فلموں میں انھیں گانے کا موقع بھی ملا جن میں 'مصر کا ستارہ'، 'مسٹر اینڈ مسز بمبئی'، 'ناری راج'، 'ہیر سیال' اور 'سسی پنوں' کے نام شامل تھے۔
’گل بکاؤلی‘ سے شہرت کا آغاز
مگر جس فلم سے نور جہاں کو پہچان ملی وہ دل سکھ ایم پنچولی کی فلم 'گل بکاؤلی' تھی۔ اس فلم کے موسیقار ماسٹر غلام حیدر تھے جبکہ نغمہ نگار ولی صاحب تھے۔ اس فلم کے لیے جب نورجہاں نے اپنا پہلا نغمہ صدا بند کروایا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ اس گانے کے بول تھے 'شالا جوانیاں مانیں، اکھا نہ موڑیں، پی لیں'۔
سنہ 1939 میں جب یہ فلم نمائش پزیر ہوئی تو پنجاب کا بچہ بچہ نورجہاں سے واقف ہو چکا تھا۔
اس کے بعد یکے بعد دیگرے نورجہاں کے نغمات اور اداکاری سے مزید فلمیں نمائش کے لیے پیش ہونے لگیں جن میں 'یملا جٹ' اور 'چودھری' کے نام شامل تھے۔
'خزانچی' کے ایڈیٹر شوکت حسین رضوی تھے جن کے کام سے خوش ہو کر سیٹھ دل سکھ ایم پنچولی نے انھیں اردو سوشل فلم 'خاندان' بنانے کے لیے کہا۔ شوکت حسین رضوی نے اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے نورجہاں کا انتخاب کیا۔ اس فلم کی موسیقی بھی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی تھی مگر نغمات لکھنے کے لیے ڈی این مدھوک کو بمبئی سے بطور خاص بلوایا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب بر صغیر میں اچھا گانے والیوں میں اختری بائی فیض آبادی، عنایت بائی ڈھیرو والی، طمنچہ جان، الہی جان، زینت بیگم، امراؤ ضیا بیگم اور شمشاد بیگم شامل تھیں۔
ماسٹر غلام حیدر نے 'گل بکاؤلی' کے کامیاب تجربے کو مد نظر رکھتے ہوئے 'خاندان' کے زیادہ تر گانوں کو نورجہاں کی آواز سے آراستہ کیا۔ اس فلم کے جس اشتہار میں انہیں 'نغموں کی رانی' لکھا گیا ہے وہ لاہور کے روزنامہ انقلاب میں 5 فروری 1942 کو شائع ہوا تھا اور جناب امجد سلیم علوی کے توسط سے بہم ہوا ہے۔ اس میں نورجہاں کو نغموں کی رانی لکھا گیا ہے۔ یہ فلم اسی برس نمائش پزیر ہوئی اور اسی کی عکس بندی کے دوران نورجہاں اور شوکت حسین رضوی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔
'خاندان' کے بعد اگلے دو تین برسوں میں نورجہاں کی بطور اداکار و گلوکار کئی فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوئیں۔ ان میں 'نوکر'، 'دہائی'، 'نادان'، 'دوست' اور 'لال حویلی' شامل ہیں تاہم جب سنہ 1945 میں فلم زینت ریلیز ہوئی تو نخشب جارچوی کے لکھے ہوئے اس فلم کے نغمات نے پورے انڈیا میں دھوم مچا دی۔
آہیں نہ بھریں شکوے نہ کیے، کچھ بھی نہ زبان سے کام لیا
اس پر بھی محبت چھپ نہ سکی جب تیرا کسی نے نام لیا
اس فلم کے دو نغمات شیون رضوی نے بھی تحریر کیے تھے۔ ابھی 'زینت' کے نغموں کی گونج فضا میں موجود تھی کہ اِسی برس نورجہاں کی ایک اور فلم، 'بڑی ماں' نمائش کے لیے پیش ہوئی اس فلم کے نغمات اور مکالمے ضیا سرحدی نے لکھے تھے اور موسیقی کے دتہ نے ترتیب دی تھی۔
ملکہ ترنم کے بارے میں مزید جانیے
نورجہاں کا کیریئر ایک نظر میں
میڈم کی یادیں قیمتی سرمایہ ہیں
نوشاد کا نورجہاں کو خراجِ تحسین
تیرے چرچے گلی گلی
نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب کب اور کس نے دیا؟
فلمی شائقین خصوصاً نورجہاں کے مداحوں کے ذہن میں یہ سوال ہمیشہ سے موجود رہا ہے کہ نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب کب اور کس نے دیا۔
آج سے ٹھیک 75 سال پہلے 25 جون سنہ 1945 کو ہفت روزہ چترا میں اس فلم کا جو اشتہار شائع ہوا تھا اس میں نور جہاں کے نام سے پہلے 'ملکۂ ترنم' کا خطاب درج ہے۔ یہ اشتہار جناب سلطان ارشد کی وساطت سے دستیاب ہوا اور جناب رضا علی عابدی صاحب کی روایت کے مطابق اسے ضیا سرحدی نے تحریر کیا تھا اور نورجہاں کو ملکۂ ترنم کا خطاب عطا کرنا بھی انھی کا کارنامہ تھا۔
’بڑی ماں‘ کے فلم ساز اور ہدایت کار مسٹر ونائیک تھے۔ مسٹر ونائیک کے دو بچے بھی فلمی دنیا میں آئے تھے، ایک تو مشہور اداکارہ نندہ اور دوسرے ماسٹر سچن، جنھوں نے فلم 'شعلے' میں امام صاحب کے بیٹے کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں نورجہاں کے علاوہ میناکشی، ایشور لال، یعقوب اور ستارہ کے ساتھ لتا منگیشکر نے بھی ’بےبی لتا‘ کے نام سے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
نورجہاں کے بارے میں لکھی گئی اکثر کتب اور مضامین میں بتایا جاتا ہے کہ نور جہاں کو یہ خطاب 1965 کی انڈیا پاک جنگ کے بعد صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے دیا تھا جبکہ زخمی کانپوری کی تحقیق کے مطابق نورجہاں کو یہ خطاب ان کے مداحوں نے فلم انتظار کے گیتوں پر دیا تھا۔
مگر فلم ’بڑی ماں‘ کے اس اشتہار کی دستیابی کے بعد یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے نور جہاں کو اٹھارہ سال کی عمر میں ملکۂ ترنم تسلیم کیا جا چکا تھا۔
اداکاری سے کنارہ کشی
قیام پاکستان کے بعد نورجہاں نے فلم 'چن وے' سے اپنے پاکستانی فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم کی ہدایات بھی انھی نے دی تھی۔
بطور اداکارہ ان کی دیگر فلموں میں ’گلنار‘، ’دوپٹہ‘، ’پاٹے خان‘، ’لخت جگر‘، ’انتظار‘، ’نیند‘، ’کوئل‘، ’چھومنتر‘، ’انارکلی‘ اور ’مرزا غالب‘ شامل ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرکے خود کو گلوکاری تک محدود کر لیا۔
ایک تاریخ کے مطابق نورجہاں نے 995 فلموں کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے۔ بطور گلوکارہ ان کی آخری فلم 'گبھرو پنجاب دا' تھی جو 2000 میں ریلیز ہوئی تھی۔نورجہاں کے کریڈٹ پر لاتعداد غزلوں کے علاوہ 27 ملی نغمے بھی موجود ہیں۔
حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور نشان امتیاز بھی عطا کیا تھا۔ نورجہاں 23 دسمبر 2000ء کو دنیا سے رخصت ہوئیں اور وہ کراچی میں ڈیفینس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
٭یہ تحریر بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر پہلی بار جون 2020 میں شائع کی گئی تھی۔