آپ میں سے بہت سوں نے بالی وڈ کے شہنشاہ کہے جانے والے اداکار امیتابھ بچن کی آواز میں گیت سنے ہوں گے۔ ان کی آواز میں ان کے والد ہری ونش رائے بچن کی لکھی مشہور نظم ’مدھوشالا‘ بھی سنی ہوگی۔ساحر کی نظم ’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘ سنی ہو گی۔ آپ میں سے بہت سوں کو ان کے بہت سے ڈائیلاگ بھی یاد ہوں گے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ ہر فن مولا اداکار ایک نغمہ نگار بھی ہے۔گذشتہ برسوں جب ان کے لکھے 101 ناٹ آؤٹ کے ایک گیت ’باڈنبا‘ پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً 40 سال قبل ایک گیت کے بول دیے تھے جو بہت مقبول بھی ہوئے۔ یہ گیت ان کی مشہور فلم ’کالیا‘ میں شامل ہے اور اس کے بول اس طرح ہیں: ’جہاں تیری یہ نظر ہے میری جاں مجھے خبر ہے۔۔۔‘آج ہم امیتابھ بچن کے اس ہنر کی بات نہیں بلکہ فلم ’کالیا‘ کی بات کرنے جا رہے ہیں جو کرسمس کے موقعے پر آج سے کوئی 43 سال قبل آج ہی کے دن 1981 میں ریلیز ہوئی تھی۔یہ ایک بھولے بھالے نوجوان کی ’کلو سے کالیا بننے‘ تک کی کہانی ہے اور اس میں ایسا کچھ خاص نہیں ہے کہ یہ فلم ہٹ ہوتی لیکن یہ اس زمانے میں منظر عام پر آئی تھی جب امیتابھ بچن کا ستارہ بلندیوں پر تھا اور ان کی فلمیں دھوم مچا رہی تھیں جبکہ وہ سابق سپر سٹار راجیش کھنہ کے قد سے کہیں اوپر جا چکے تھے۔یہ فلم کئی اعتبار سے یاد کی جاتی ہے۔ پہلی یہ کہ امیتابھ بچن اس فلم کے لیے تیار نہیں تھے جبکہ یہ فلم ساز اور ہدایت کار ٹینو آنند کی پہلی فلم تھی۔ اور ٹینو آنند کے مطابق ان کے والد اندر راج آنند نے ان کے سکرپٹ پر مکالمہ لکھا تھا۔انھوں نے امسال کے اوائل میں لہریں پوڈ کاسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد اپنے مکالموں کے حوالے سے بہت سخت تھے اور وہ دلیپ کمار سمیت کسی بھی اداکار کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ ان کی لکھی ہوئی کوئی بھی چیز تبدیل کریں۔
کالیا فلم کا سکرپٹ ہدایت کار ٹینو آنند کے والد راج آنند نے لکھا تھا۔ فوٹو: این ڈی ٹی وی
کالیا کے مکالمے بھی ان کے والد نے لکھے تھے۔ ٹینو نے بتایا کہ جب امیتابھ اس دن سیٹ پر آئے تو ان کا موڈ اچھا نہیں تھا۔ جیسے ہی ٹِینو نے انہیں سین سنایا، جس میں پران اور پروین بابی بھی تھے، بچن نے دو ٹوک لہجے میں کہا کہ ’میں یہ ڈائیلاگ نہیں بولوں گا۔‘
جب ٹینو نے وجہ پوچھی تو امیتابھ نے صاف صاف جواب دے دیا۔ اس موقع پر ٹِینو سیٹ سے باہر نکل گئے اور دل میں یہ طے کر لیا کہ وہ فلم چھوڑنے کے لیے تیار ہیں اور پروڈیوسر اس کے لیے کسی اور ڈائریکٹر کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔تو آخر وہ مکالمہ تھا کیا جسے امیتابھ بچن بولنے کے لیے تیار نہیں تھے؟فلم کالیا اپنے بہت سے یادگار مکالموں کے لیے بھی مشہور ہے جن میں سے آج بھی گاہے بگاہے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بہت مشہور یہ ہے: ’ہم جہاں کھڑے ہوتے ہیں، لائن وہیں سے شروع ہوتی ہے۔‘دراصل اس فلم میں جیلر پران اور اور کالیا امیتابھ بچن کے درمیان کئی جگہ یادگار مکالمے ہیں جن پر ہال سیٹیوں سے گونج اٹھتا ہے اور اس میں اردو زبان کے کئی مکالمے ہیں۔ امیتابھ بچن کو ایک ریہرسل یعنی مشق کے دوران اس خاص اردو مکالمے کی ادائیگی میں خاصی دشواری پیش آ رہی تھی تو انہوں نے اس کو منع کر دیا تھا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ یا تو ٹینو آنند فلم چھوڑ دیں یا امیتابھ بچن۔200 لوگوں کے سامنے امیتابھ پر لعن طعنجب امیتابھ نے دو ٹوک منع کیا تو ٹینو آنند نے یہ بات اپنے والد کو بتائی اور انہوں نے کہا کہ امیتابھ بچن کو یہ پیغام دے دو کہ یہ مکالمہ سنجے گاندھی کی جواں مرگی کو ذہن میں رکھ کر لکھا گیا اور چونکہ امیتابھ بچن کی اس وقت گاندھی خاندان سے بہت زیادہ قربت تھی اس لیے وہ جذباتی ہو گئے اور مکالمے کے لیے تیار ہو گئے۔اس مکالمے کی شوٹنگ کے دوران امیتابھ کو پریشانی ہو رہی تھی کہ اچانک غیر متوقع طور پر راج آنند وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے 200 لوگوں کے سامنے امیتابھ کی کارکردگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’یہ ڈائیلاگ اردو میں ہے اور تمہیں اس کو پوری قوت اور توانائی سے ادا کرنا چاہیے۔ تمہیں ہرونش رائے بچن کے بیٹے ہونے پر شرم آنی چاہیے کہ تم یہ زبان نہیں جانتے ہو۔‘
امیتابھ بچن جلد ہی سابق سپر سٹار راجیش کھنہ کے قد سے کہیں اوپر جا چکے تھے۔ فوٹو: دا سٹیٹس مین
سپرسٹار کو ایسی بات کہنے پر سناٹا چھا گیا۔ امیتابھ بچن نے دس منٹ کی مہلت مانگی اور سیٹ سے چلے گئے۔ ٹینو آنند کو ڈر ستانے لگا کہ کہیں امیتابھ فلم نہ چھوڑ دیں لیکن راج آنند پرامید تھے اور انہوں نے کہا کہ ’وہ ہری ونش رائے بچن کا بیٹا ہے بھاگے گا نہیں۔‘
بہر حال تھوڑی دیر میں امیتابھ واپس آئے اور انہوں نے ایک ہی ٹیک میں وہ مکالمہ ادا کر دیا جس پر ان کی کچھ دیر پہلے سرزنش ہوئی تھی۔ راج آنند اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے امیتابھ گو گلے سے لگا لیا۔اس سین میں پران پروین بابی اور امیتابھ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’لوگ جب کامیابی کے گھوڑے پر سوار سونے کی بنی ہوئی سڑک پر دوڑتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ سڑک جیل کی کال کوٹھری میں ختم ہوتی ہے۔‘اس کے جواب میں امیتابھ کہتے ہیں: ’کیا نزع کی تکلیفوں میں مزہ، جب موت نہ آئے جوانی میں، کیا لطف جنازہ اٹھنے کا، ہرگام پہ جب ماتم نہ ہو۔‘اس جواب پر پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے اور یہی فلم کالیا کی کامیابی کی بھی دلیل ہے جو بعض ناقدین کے نزدیک محض امیتابھ کی وجہ سے ہٹ ہوئی ورنہ اس میں وہی پرانی کہانی ہے اور بقول امیتابھ ’سب سے مشکل کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ کسی احمقانہ چیز کو اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ قائل کرتی ہوئی نظر آئے۔‘کالیا نے بھی سب کو قائل کر دیا تھا۔