انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کی ثانیہ زہرا کی زندگی گزشتہ پانچ برس کے دوران شہد کی مکھیاں پالنے کے گرد گھوم رہی ہے۔ اور اب اُن کو مقامی لوگ شہد کی ’مکھیوں کی ملکہ‘ بھی پکارنے لگے ہیں۔
عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق ثانیہ زہرا روزانہ صبح چھ بجے جاگتی ہیں اور اس کے بعد سارا دن اس کاروبار کی دیکھ بھال میں گزارتی ہیں۔
ثانیہ زہرا کا شہد کی مکھیاں پالنے کا سفر 16 سال کی عمر میں شروع ہوا، جب وہ اپنے والد کو کشمیر کے علاقے بلہامہ میں فیملی فارم میں سخت محنت کرتے دیکھتی تھیں۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’پہلے اپنے دادا کو شہد کی مکھیوں کے ساتھ کام کرتے دیکھا، اور پھر میں نے اپنے والد کو بھی یہی کاروبار کرتے دیکھا۔ جب والد کو سخت محنت کرتے دیکھا تو ان کی مدد اور ہاتھ بٹانے کا فیصلہ کیا۔‘
ثانیہ زہرا نے شہد کی مکھیوں کے ڈنک کے اپنے ابتدائی خوف پر قابو پا لیا اور فوری طور پر یہ کام شروع کیا۔ انہوں نے ایک سرکاری سکیم کے لیے درخواست دی جس سے اُن کو کاروبار وسیع کرنے کا موقع ملا۔
اُن کے لیے یہ کوئی آسان سفر نہ تھا۔ پہلے دو برسوں میں منافع کمانے کے لیے جدوجہد کی اور شہد کی مکھیوں کے پالنے اور اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔
اسی محنت کی وجہ سے اُن کے کاروبار کو وسعت ملی اور اب اُن کے برانڈ کا شہد انڈیا بھر میں فروخت ہو رہا ہے اور اُن شہد کی مکھیوں کی ’ملکہ‘ کا خطاب ملا ہے۔
ثانیہ زہرہ نے بتایا کہ میں ’انڈیا بھر میں اپنی پروڈکٹ فروخت کر رہی ہوں اور مجھے سعودی عرب، پاکستان، دبئی، جنوبی افریقہ، قطر اور ہر طرف سے آرڈر مل رہے ہیں۔‘
شہد کی مکھیاں پالنا 20 سال کی عمر کی لڑکی کے لیے ایک کثیر الجہتی کام ہے۔ ثانیہ اس کام کو اپنے خاندان کے ورثے کے طور پر دیکھتی ہیں جس کو وہ آگے بڑھا رہی ہیں اور اس کے ساتھ ماحول کے تحفظ میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
وہ کشمیر کی اُن خواتین میں شامل ہیں جو اپنے کاروبار چلا رہی ہیں اور جن کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان خواتین کی اکثریت اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے سرکاری تعاون سے تربیت حاصل کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری ماں مجھے دل سے سپورٹ کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’میرے بیٹے ہیں لیکن آپ لڑکوں سے آگے نکل گئی ہیں اور ایسی کوئی چیز نہیں جو عورت کو روک سکتی ہے۔‘
ثانیہ زیرا کہتی ہیں کہ شہد کی مکھیاں پالتے ہوئے وہ اُن کے سماجی ڈھانچے کی جانب متوجہ ہوئیں اور ماحول میں مکھیوں کی اہمیت سے آگاہی ملی۔ ’یہ میرے لیے ایک طرح سے تحریک بھی ہیں اور فطرت سے جڑے رہنے کا ذریعہ بھی۔‘
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، ثانیہ زہرا نے محسوس کیا کہ شہد کی مکھیاں پالنا نہ صرف اُن کی ذہنی صحت کے لیے اچھا ہے بلکہ کشمیر میں کاروباری منظرنامے کو بہتر بنانے کا ایک طریقہ بھی ہے۔
اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ثانیہ زہرا نے خواتین کو ایک بااختیار بنانے والا گروپ تشکیل دیا جس کی اراکین ایسی باصلاحیت خواتین ہیں جن کے پاس وسائل تک رسائی نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میری توجہ اس پر مرکوز ہے کہ دوسروں کے لیے ایک کیٹالسٹ کے طور پر کام کروں اور اُن کو آگے بڑھنے میں مدد کروں۔‘
ثانیہ کے گروپ میں اب 40 ممبران ہیں اور وہ اس کو 100 تک لے جانا چاہتی ہیں تاکہ حکومت سے اُسی طرح تعاون حاصل کیا جا سکے جیسا خود ثاںیہ زہرا کو ملا تھا۔
ثانیہ زہرا نے کہا کہ ’میں سب کو روزگار دینا چاہتی ہوں۔ میرے پاس کشمیر میں بے روزگاری کے مسئلے کو حل کرنے اور کشمیر کو ایک شاندار جگہ بنانے کا مستقبل کا منصوبہ ہے۔ میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہوں۔‘