جنوبی افریقہ کے دوردراز علاقوں میں حیاتیاتی تنوع کا ایک اہم مقام پودوں کی غیر قانونی تجارت کا مرکز بن گیا ہے اور منظم جرائم پیشہ گروہ ان پودوں کی بیرون ملک طلب کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے دوردراز علاقوں میں حیاتیاتی تنوع کا ایک اہم مقام پودوں کی غیر قانونی تجارت کا مرکز بن گیا ہے اور منظم جرائم پیشہ گروہ ان پودوں کی بیرون ملک طلب کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اس غیر قانونی کاروبار کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی اور ماحولیاتی بحران پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے ایک کسان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں نے صرف ہماری زمین یا پودے نہیں چرائے بلکہ انھوں نے ہمارے ورثے کو بھی چُرایا ہے۔‘
جن پودوں کی غیر قانونی طور پر تجارت ہو رہی ہے، وہ صحرائی پودے (سکولنٹ) ہیں۔ یہ نایاب پودے صرف جنوبی افریقہ اور نمیبیا تک پھیلے ’سکولنٹ کارو‘ صحرا میں ہی پائے جاتے ہیں۔
یہ پودے مختلف سائز، شکل اور ساخت کے ہوتے ہیں۔ کچھ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ رنگ برنگے بٹن ہوں، کچھ کیکٹس کی طرح نظر آتے ہیں جن پر سال کے مختلف اوقات میں پھول بھی لگتے ہیں۔
یہ پودے نرسری میں بھی اُگائے جا سکتے ہیں لیکن عالمی سطح پر ان کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے ان کا غیر قانونی کاروبار بڑھ رہا ہے۔ ان پودوں کو پھر امریکہ، یورپ اور مشرقی ایشیا میں سمگل یا آن لائن فروخت کیا جاتا ہے۔
جنوبی افریقہ کے نامکولینڈ خطے کے وسط میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے کیمیسکرون میں پہاڑیاں ایسے لوگوں کی پناہ گاہ بن گئی ہیں۔
غیر قانونی شکار کی وجہ سے ان پودوں کا وجود ختم ہو سکتا ہے۔
جنوبی افریقہ کے ٹرانسفرنٹیر پارک کے ایک باغبان پیٹر وین وائیک کہتے ہیں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں پودوں کی سات انواع پہلے ہی سرے سے ختم ہو چکی ہیں اور یقیناً جلد ہی بہت سی اور انواع بھی معدوم ہو جائیں گی۔‘
اس بارے میں اعداد و شمار کے بارے میں پتا لگانا بہت مشکل ہے کہ اب تک کتنے پودوں کی غیر قانونی طور پر تجارت کی گئی لیکن ایک غیر سرکاری تنظیم ’ٹریفک‘ کے مطابق سنہ 2019 سے 2024 کے درمیان جنوبی افریقہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے غیر قانونی طور پر کاشت کیے گئے 16 لاکھ سکولنٹ پودوں کو قبضے میں لیا گیا۔
یہ صرف وہ پودے ہیں جن کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خبر ملی، لہذا اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔
جنوبی افریقہ کی حکومت اس مسئلے سے اچھی طرح واقف ہے اور سنہ 2022 میں پودوں کی اس غیر قانونی تجارت کو روکنے کے لیے حکمت عملی بھی ترتیب دی گئی۔
اس حکمت عملی میں ایسے کمیونٹی پروگرام بھی شامل ہیں، جن کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دی جاتی ہے کہ ماحول کی حفاظت کیوں ضروری ہے۔
پیٹر وین وائیک سمیت ماحول کے تحفظ پر کام کرنے والے بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ سنہ 2020 میں کوورنا وائرس کی عالمی وبا کے دوران لگنے والے لاک ڈاؤن کے دوران پودوں کی غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہوا۔
اس دوران چونکہ بیرون ملک سفر پر پابندی تھی تو بین الاقوامی تاجروں نے مقامی لوگوں سے رجوع کیا کہ وہ ان کے لیے یہ پودے جمع کریں اور انھیں بھیجیں۔
وین وائیک کا کہنا ہے کہ اس سے عالمی مانگ میں اضافہ ہوا۔
’لوگوں کے پاس وقت تھا اور وہ خود کو مصروف رکھنا چاہتے تھے اور پودے ان چند اشیا میں شامل تھے، جو آپ کو باہر کی دنیا سے جوڑے رکھتے تھے۔‘
اس سے پودوں کی سمگلنگ میں ملوث جرائم پیشہ گرہووں کو موقع ملا، جو یہ پودے سمگل کرنے کے لیے ٹیموں کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور پھر ان کو سوشل میڈیا اور ای کامرس پلیٹ فارمز کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔
وین وائیک کہتے ہیں کہ غیر قانونی سمگلنگ میں ملوث افراد کو اس سب میں کسی چیز کو وائرل کرنے کا موقع نظر آیا۔ وہ لوگوں کو کہتے کہ ’ہمارے پاس یہ انتہائی عجیب نظر آنے والی چیز ہے، جو افریقی براعظم سے آتی ہے۔‘
’تو پھر لوگ تو جیسے پاگل ہو جاتے اور کہتے کہ میں بھی ایک خریدنا چاہتا ہوں اور پھر یہ لوگ پودوں کی سمگلنگ کا انتظام کرتے۔‘
خطے میں ان سرگرمیوں میں اضافے کے مقامی کمیونٹیز پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں ماحول کے تحفظ کے ادارے ’کنزویشن ساؤتھ افریقہ‘ کی میلنڈا گارڈینر وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہاں لوگوں کی آمدن بہت کم ہے اور لوگ امیر نہیں تو لوگ آمدن کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
ایسے ہی خیالات کا اظہار بی بی سی سے بات کرنے والی ایک خاتون کسان نے بھی کیا کہ جب غیر قانونی تجارت ہوتی ہے تو ان کی کمیونٹی میں ہمیشہ پیسہ آتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم نوجوانوں کو پہاڑی علاقوں میں جاتے دیکھتے ہیں تو ہم سجھ جاتے ہیں کہ وہ ہ پودوں کی غیر قانونی تجارت سے منسلک ہیں۔‘
’وہ پودوں کو اکھاڑنے کے لیے سکریو ڈرایور استعمال کرتے ہیں اور چوری شدہ پودوں کو رکھنے کے لیے بیگ اور بوریاں کے کر جاتے ہیں۔‘
پیسے آنے سے علاقے میں شراب نوشی بھی بڑھ جاتی ہے۔
کسان نے بتایا ’جب انھیں پیسے ملتے ہیں تو منشیات اور شراب نوشی بھی بڑھ جاتی ہے۔ بچے بری طرح نظر انداز ہوتے ہیں کیونکہ والدین نشے میں ہوتے ہیں، کھانے کو کچھ نہیں ہوتا۔‘
میلنڈا گارڈینر کہتی ہیں کہ اس صورتحال کے طویل مدتی اثرات ہوں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں چھوٹی کمیونٹیز کو ایک دوسرے کی بہت ضرورت ہوتی ہے لیکن اس صورتحال سے یہاں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ اس سے مختلف کمیونٹیز میں اختلافات ہوں گے۔‘
وین وائیک کہتے ہیں کہ ’ان پودوں کو خریدنے والے اور ان کی غیر قانونی تجارت سے وابستہ افراد کمیونٹی میں لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔‘
ان پودوں کو خریدنے والوں میں آگاہی پھیلانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ یہ پودے کہاں سے آ رہے ہیں۔
گذشہ کچھ برسوں میں چین کی جانب سے سکولنٹ کی ڈیمانڈ میں خاصا اضافہ دیکھا گیا تھا تاہم اس بارے میں انٹرنیٹ پر مہم کے بعد کچھ مثبت نتائج دیکھنے کو ملے۔
یہ مہم مارچ 2023 میں ’چائنا بائیو ڈائیورسٹی کنزرویشن‘ اور ’گرین ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن‘ کی جانب سے شروع کی گئی تھی۔
فاؤنڈیشن کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل لنڈا وونگ کے مطابق اس مہم کے بعد انھوں نے سکولنٹ کی ایک قسم ’کونو فیتھم‘ کی فروخت کے اشتہارات میں 80 فیصد کمی دیکھی کیونکہ خریدار سوال کرنے لگے کہ آن لائن فروخت ہونے والے یہ پودے کہاں سے آ رہے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آگاہی بہت ضروری ہے۔ جب لوگوں کو پتا چل جائے تو وہ عمل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ان پودوں کو استعمال کرنے اور ان کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتے ہیں۔‘
ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے افراد دنیا بھر میں صارفین کو یہ ہدایت کرتے ہیں کہ وہ کوئی بھی پودا خریدنے سے پہلے پوچھیں کہ یہ کہاں سے آیا۔
وین وائیک کہتے ہیں کہ ’غیر قانونی تجارت کو کم کرنے کے لیے سوکلنٹ کی کاشت کو فروغ دینے کے لیے مزید کچھ کیا جانا چاہیے۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں بحیثیت ملک یہ کہنا چاہیے کہ ہمارے پاس یہ وسیلہ ہے اور دنیا میں بہت سے ممالک اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو ہم اس سے مستفید کیوں نہیں ہو رہے۔‘