’شوہر کی محبت میں اپنا ملک چھوڑا‘: شمالی غزہ کے وہ ڈاکٹر جنھیں اسرائیلی فوج اپنے ساتھ لے گئی

جب اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے واحد فعال ہسپتال 'کمال عدوان' میں کارروائی کی تو وہ ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ سمیت طبی عملے کے کئی افراد کو پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ لے گئی۔
ڈاکٹر حسام
BBC

جب اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے واحد فعال ہسپتال 'کمال عدوان' میں کارروائی کی تو وہ ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسام ابو صفیہ سمیت طبی عملے کے کئی افراد کو پوچھ گچھ کے لیے اپنے ساتھ لے گئی۔

اسرائیلی فوج نے بغیر شواہد ان پر 'حماس کے سہولت کار' ہونے کا الزام لگایا اور کہا کہ یہ ہسپتال 'حماس کا گڑھ' تھا۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جمعے کو اس علاقے میں طبی عملے سمیت قریب 50 لوگ اسرائیلی فضائی حملوں میں ہلاک ہوئے تھے۔

تاہم البینہ ابو صفیہ اپنے شوہر پر لگنے والے الزامات کی تردید کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے شوہر کی وجہ سے پہنچان ملی جو کہ انھیں پسند ہے۔ ان کا تعلق قزاقستان سے ہے اور وہ اپنا ملک چھوڑنے کے بعد گذشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اپنے شوہر کے ساتھ شمالی غزہ میں رہ رہی ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کے پروگرام 'غزہ ٹوڈے' کو اسرائیلی فوج کے ہسپتال پر دھاوے، ڈاکٹر حسام کی گرفتاری اور اپنی محبت کی کہانی کے بارے میں بتایا ہے۔

یہ کوئی عام محبت کی کہانی نہیں بلکہ ایسی کہانی ہے جس کے لیے البینہ نے نہ صرف اپنا ملک چھوڑا بلکہ کشیدگی کے باوجود غزہ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔

تب سے انھوں نے غزہ میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ان کے مطابق ان کے شوہر نے ہمیشہ انسانی ہمدردی کی خاطر اپنی ڈیوٹی نبھائی۔

غزہ میں فلسطینی وزارت صحت نے 28 دسمبر کو اعلان کیا کہ اسرائیلی فورسز نے ڈاکٹر حسام ابو صفیہ اور طبی عملے کے درجنوں افراد کو گرفتار کر کے تفتیش کے لیے ایک مرکز میں منتقل کر دیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ اس نے شمالی غزہ کی پٹی میں بیت لاہیا میں کمال عدوان ہسپتال کے آس پاس کے علاقے میں 'حماس کے ارکان کو نشانہ بنانے کے لیے' فوجی آپریشن شروع کیا۔ جبکہ حماس نے ہسپتال میں مسلح افراد کی موجودگی کی تردید کی اور اسرائیلی فوج پر حملے کا الزام لگایا۔

ڈاکٹر حسام
Reuters

'میں نے جنگ کے دوران ڈاکٹر حسام کو نہیں چھوڑا، انھوں نے ہسپتال نہیں چھوڑا'

البینہ نے انٹرویو کا آغاز اپنے شوہر کی گرفتاری کے احوال سے کیا۔ انھوں نے بتایا کہ 'میں نے جنگ کے آغاز سے انھوں نہیں چھوڑا اور انھوں نے کمال عدوان ہسپتال کو نہیں چھوڑا۔ وہ زخمیوں اور بیمار افراد کی خیریت کے بارے میں پریشان ہو کر وہاں سے نہیں نکلتے تھے۔

'ہم آخر تک ہسپتال کے اندر رہے۔ فوجی دستوں نے دھاوا بولا اور کہا کہ وہ ہسپتال کو بند کرنا چاہتے ہیں۔'

البینہ کے مطابق ان کے شوہر شروع دن سے لوگوں کے تحفظ کے لیے پریشان تھے اور اسی لیے انھوں نے ہسپتال چھوڑنے سے انکار کیے رکھا۔ انھوں نے اسرائیلی فوج کو تجویز دی کہ ہسپتال کو بتدریج خالی کیا جائے۔ پہلے بیمار اور زخمیوں کو اور پھر طبی عملے کے ارکان کو اور آخر میں انھیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ 'لیکن ہم حیران رہ گئے جب زبردستی ہسپتال پر دھاوا بولا گیا اور خواتین کو بھی باہر نکال دیا گیا۔ انھوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ طبی عملے کے تمام مرد انڈونیشیا ہسپتال میں ہمارے ساتھ شامل ہوں گے۔'

'خواتین انڈونیشیا ہسپتال کی طرف بڑھیں اور ہم شام دس بجے کے قریب پہنچے۔ لیکن مردوں میں سے کوئی بھی نہیں آ سکا۔ ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ان سب کو تفتیش کے لیے لے جایا جا رہا ہے۔'

اگلے دن صبح دس بجے طبی عملے کے کئی لوگوں کو رہا کر دیا گیا جبکہ ڈاکٹر حسام ابو صفیہ اور 10 دیگر افراد کو حراست میں لیا گیا۔ 'تب سے مجھے اپنے شوہر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔'

دوسری طرف اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ہسپتال کو خالی کرانے کے عمل میں صحت کے مقامی اور بین الاقوامی حکام سے تعاون کیا جا رہا ہے۔

دوسری طرف ہسپتال کے نرسنگ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ عید صباح نے بی بی سی کو بتایا کہ 'جمعے کی صبح فوج نے ہسپتال انتظامیہ کو مریضوں اور طبی عملے کو اپنے صحن میں لے جانے کے لیے صرف 15 منٹ کا وقت دیا۔'

ڈاکٹر حسام
Reuters

'غزہ کو اُن کی ضرورت ہے'

ہسپتال پر فوجیوں کے دھاوے اور شوہر کی گرفتاری سے قبل کے حالات کے بارے میں البینہ ابو صفیہ کہتی ہیں کہ 'بمباری بہت شدید ہو گئی تھی۔ آرکائیوز، نگہداشت کا محکمہ، ہسپتال کا صحن اور یہاں تک کہ آپریشن روم کو بھی جلا دیا گیا۔ بمباری کے دوران دھوئیں سے دم گھٹنے کے کئی واقعات پیش آئے۔'

ان حملوں میں ہسپتال سے ملحقہ مکانات کو نشانہ بنایا گیا۔ 'ہمیں ملبے کے نیچے سے لوگوں کی مدد کے لیے پکارنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں اور جب ایمبولینس کا عملہ مدد کے لیے نکلا تو انھیں ایک ڈرون نے نشانہ بنایا اور وہ سب مارے گئے۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ بمباری سے ہونے والا نقصان یہاں تک محدود نہیں۔ 'اسرائیلی فوج نے ہسپتال پر دھاوا بولنے کے لیے جس روبوٹ کا استعمال کیا اس نے ایک شخص کو شدید زخمی کر دیا جو آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر تھا۔ اس کے ساتھ موجود نرس بھی زخمی ہوئیں۔ یہ بہت مشکل صورتحال تھی۔'

انھیں تاحال اپنے شوہر کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ تاہم رہائی پانے والے ڈاکٹروں کا دعویٰ ہے کہ ان پر تشدد کیا گیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے شوہر کے لیے کیا پیغام دینا چاہتی ہیں تو انھوں نے کہا 'میں کیا کہنا چاہتی ہوں؟ پورا غزہ آپ کا منتظر ہے۔ غزہ کو آپ کی ضرورت ہے۔ طبی عملہ آپ کا منتظر ہے۔'

ڈاکٹر حسام
Getty Images

'ڈاکٹر حسام سے محبت ہوئی جب وہ قزاقستان آئے'

البینہ نے کہا کہ ان کے شوہر کو 'ہسپتال کی دیواروں سے باہر کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ جنگ کے آغاز سے ہی ان کی تمام کوششیں اور توجہ زخمیوں اور بیماروں کی مدد اور ان کی جان بچانے پر مرکوز تھی۔

'ابو صفیہ نے سب کچھ کیا۔ طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باوجود انھوں نے ایسے لوگوں کی بھی مدد کی جن کے اعضا کاٹ دیے گئے تھے۔ اس کام کے لیے کوئی سرجن بھی موجود نہیں تھا۔'

البینہ نے بتایا کہ ڈاکٹر حسام ابو صفیہ ان کے ملک قزاقستان میں طب کی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے جہاں دونوں کی ملاقات ہوئی تھی۔ البینہ نے ان سے محبت میں اپنا ملک چھوڑ دیا تھا۔

وہ 1996 سے ان کے ساتھ شمالی غزہ میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ اور ان کے بچوں کے پاس غیر ملکی شہریت ہے مگر اس کے باوجود وہ ڈاکٹر حسام کے ساتھ یہیں رہیں۔

انھوں نے اسرائیلی فوج سے اپنی شوہر کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

حسام ابو صفیہ 21 نومبر 1973 کو شمالی غزہ کے جبالیہ کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان 1948 میں ضلع اشکلون میں واقع شہر حمامہ سے بے گھر ہوا تھا۔

وہ غزہ کی پٹی میں طبی ٹیموں کے سب سے نمایاں ارکان میں سے ایک ہیں۔ انھوں نے پیڈیاٹرکس اور نیونٹولوجی میں فلسطینی بورڈ کا سرٹیفکیٹ حاصل کر رکھا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.