پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں فرقہ وارانہ فسادات میں درجنوں اموات کے بعد دو ماہ سے راستوں کی بندش اور ادویات سمیت اشیائے ضروریہ کی عدم دستیابی کے باعث حالات بدستور خراب ہیں تاہم دوسری جانب حکام کو امید ہے کہ امن جرگے کے طرف سے طے کردہ شرائط پر جلد ہی دونوں فریقین میں اتفاق رائے پیدا ہو جائے گا۔
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں فرقہ وارانہ فسادات میں درجنوں اموات کے بعد دو ماہ سے راستوں کی بندش اور ادویات سمیت اشیائے ضروریہ کی عدم دستیابی کے باعث حالات بدستور خراب ہیں تاہم دوسری جانب حکام کو امید ہے کہ امن جرگے کے طرف سے طے کردہ شرائط پر جلد ہی دونوں فریقین میں اتفاق رائے پیدا ہو جائے گا۔
خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کے مطابق منگل کو ’کرم کے حوالے سے جرگے پر حتمی فیصلہ اور دستخط کر لیے جائیں گے۔‘
پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی پہلی ترجیح جنگ بندی تھی جو کہ نافذ العمل ہو چکی ہے اور اب صوبائی حکام جرگہ معاملات کو نمٹانے کے لیے اس لیے ٹائم دے رہے ہیں تاکہ وہ متفقہ اور حتمی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو شرائط رکھی گئی ہیں وہ دیرپا اور پائیدار امن کے قیام کے لیے ہوں گی تاکہ آئندہ اس قسم کے حالات پیدا نہ ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے سے اسلحہ اور بنکر ختم کیے بغیر پاڑہ چنار ٹل روڈ کو محفوظ نہیں بنایا جا سکتا جبکہ اس ضمن میں کابینہ اور ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر ہر حال میں عملدرآمد کروایا جائے گا۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں فرقہ وارانہ فسادات میں اب تک ناصرف 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں بلکہ نہ ختم ہونے والی کشیدگی کے باعث کُرم کے صدر مقام پاڑہ چنار جانے والی رابطہ سڑکیں بند ہیں جس کی وجہ سے اس علاقے میں ادویات، خوراک اور اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا بھی ہے۔
سڑکیں بند ہونے کے باعث وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ادویات و دیگر اشیا کرم کے متاثرہ علاقوں تک پہنچائی جا رہی ہیں۔
اس معاملے پر مذہبی سیاسی جماعت مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں دھرنے کی کال دی گئی تھی جس کے بعد کراچی، اسلام آباد اور کوئٹہ سمیت ملک کے کئی شہروں میں متعدد مقامات پر دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری جانب سنی علما کونسل پاکستان نے کرم میں بلاتفریق آپریشن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر علاقے کو اسلحے سے پاک کر کے مجرموں کو کٹہرے میں نہ لایا گیا تو وہ پورے ملک میں احتجاج کریں گے۔
28 دسمبر کو کرم کی صورتحال پر کوہاٹ میں ہونے والا امن جرگہ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا تھا۔ کمشنر کوہاٹ کے آفس سے جاری ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق اس معاملے میں ’ایک فریق قومی مشران کے پاس اسلحہ جمع کروانے پر معترض ہے جبکہ دوسرے فریق نے دو دن کا وقت مانگا ہے۔‘
کمشنر کوہاٹ کے آفس سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’جرگہ دوبارہ 31 دسمبر کو ہو گا۔ پائیدار معاہدے کے لیے دونوں فریقوں کا متفق ہونا لازمی ہے۔ (اگر امن) معاہدہ نہیں ہوتا اور اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے مطابق اسلحہ جمع نہیں ہوتا تو روڈ کھولنا ممکن نہیں ہے۔‘
واضح رہے ضلع کُرم میں فرقہ وارانہ فسادات کی نئی لہر رواں برس اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب سنی اور شیعہ اکثریتی علاقوں سے روانہ ہونے والے مسافروں کے قافلوں پر مبینہ طور پر مخالف قبائل کی جانب سے فائرنگ کے پے در پے بڑے واقعات رونما ہوئے۔ اِن حملوں کے بعد اردگرد کے متعدد گاؤں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جن میں کئی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بی بی سی نے فریقین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کرم میں قیام امن کے لیے کیا شرائط رکھی گئی ہیں اور اس معاہدے پر اتفاق پیدا کرنے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔
کرم میں قیام امن کے لیے مجوزہ ’تجدید مری معاہدہ‘ میں کیا ہے؟
بی بی سی کو کرم میں قیام امن کے لیے جو مجوزہ مسودہ موصول ہوا ہے اس میں 14 نکات شامل ہیں۔ فریقین نے اس مسودہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسی پر مزید بات چیت جاری ہے۔
اس مجوزہ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ مری معاہدہ 2008 بشمول سابقہ تمام علاقائی و اجتماعی معاہدات، کاغذات مال، فیصلہ جات اور روایات اپنی جگہ برقرار و بحال رہیں گے جن پر ضلع کرم کے تمام مشران متفق ہیں۔
مجوزہ معاہدے میں کہا گیا ہے کہ حکومت سرکاری سڑک پر ہر قسم کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف سخت ایکشن لے گی جبکہ ضلع کرم کے تمام بے دخل خاندانوں کو اپنے اپنے علاقوں میں آباد کیا جائے گا جبکہ ان کی آبادکاری میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔
اس معاہدے میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ اسلحہ کی ’آزادانہ نمائش و استعمال پر مکمل پابندی ہو گی اور اسلحہ خریدنے کے لیے چندہ جمع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی‘ جبکہ فریقین تمام بھاری اسلحہ ایک مہینے کے اندر اندر ضلعی پولیس کے پاس جمع کروانے کے پابند ہوں گے۔
اس کے مطابق ’حکومت اسلحے کی برآمدگی کو یقینی بنائے گی اور بھاری اسلحہ استعمال کرنے والے گاؤں کے خلاف امن کمیٹی ایکشن لے گی۔‘
مجوزہ مسودے کے مطابق کوئی بھی شخص یا اشخاص اپنے مابین لڑائی کو مذہبی رنگ نہیں دیں گے اور آئندہ فریقین پناہ میں لیے گئے افراد کی حفاظت کو یقینی بنائیں گے اور لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی جائے گی۔ ’سوشل میڈیا پر جذبات کو ٹھیس پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
اس کے مطابق ’تمام سرکاری ملازمین بشمول اساتذہ کرام بلا روک ٹوک و خوف و خطر ضلع کرم کے تمام علاقوں میں اپنی ڈیوٹیاں انجام دیں گے۔ اس حوالے سے پشتون ولی کوڈ کے ذریعے ان کی حفاظت مشران یقینی بنائیں گے۔‘
امن معاہدے میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ علاقے میں ’اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا تو متعلقہ علاقے میں امن کمیٹیاں فوراً متحرک ہوں گی اور دوسرا فریق کسی قسم کا کوئی ردعمل نہیں دے گا۔‘
اس مجوزہ معاہدے کے مطابق اگر دو گاؤں کے درمیان تنازع پیدا ہوا تو ’مسلک یا ذات کی بنیاد پر لڑائی کے لیے‘ صف آرائی نہیں ہو گی۔
اس مجوزہ معاہدے کے تحت فریقین کی جانب سے ہر قسم کے بنکرز کی تعمیر پر پابندی ہو گی اور فریقین کے درمیان فائربندی دائمی ہو گی۔ معاہدے کے مطابق سابقہ خلاف ورزیوں کا بھی تعین کیا جائے گا۔
مجوزہ امن معاہدے پر اتفاق پیدا ہونے میں تاخیر کیوں؟
سینیٹر ساجد طوری نے بی بی سی کو بتایا کہ کرم میں دیرپا امن قائم کرنے سے متعلق ایک معاہدے پر کافی حد تک اتفاق ہو گیا ہے۔ اُن کے مطابق 28 دسمبر کو جرگے کے اجلاس میں اس معاہدے کے نکات سامنے رکھے گئے تھے۔
ساجد طوری نے اسلحہ جمع کرنے سے متعلق سرکاری مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے ’ہم نے دورانِ جرگہ ایسی کوئی شرط نہیں رکھی کہ ہم قومی مشران کے پاس اسلحہ جمع نہیں کرائیں گے۔‘
ان کے مطابق اہل تشیع نے سرکار کی طرف سے پیش کردہ مسودے پر ہی دستخط کیے ہیں اور اُن کے مطابق یہ وہی مسودہ ہے جس کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں حتمی منظوری دی گئی ہے۔
اس جرگے میں اہل سنت کی نمائندگی کرنے والے سیاسی رہنما ڈاکٹر قادر اورکزئی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جو مسودہ اس وقت زیر بحث ہے اس پر گذشتہ ایک سال سے کام جاری تھا اور اس پر فریقین سے رائے بھی لی گئی تھی۔
ان کے مطابق اس وقت معاہدے پر جو اختلافی نکتہ ہے وہ یہی ہے کہ اسلحہ جمع کرانے کے آپشن دیے جانے کے بجائے سرکار یہ اسلحہ خود ضبط کرے تاکہ ماضی کی طرح محض ایک ایسے معاہدے پر دستخط نہ کیے جائیں جس پر مستقبل میں عمل نہ ہو سکے۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اب تک کرم میں قیام امن کے لیے کل 26 معاہدے ہو چکے ہیں مگر ان پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے پھر تنازع سر اٹھا لیتا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اِس بار فریقین ’فوج کی مشاورت سے اکتوبر 2008 میں مری معاہدے کی تجدید پر راضی ہو گئے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’ہم نے جرگے میں اس وجہ سے وقت مانگا ہے تاکہ واپس کرم جا کر اپنے قبائل کو اعتماد میں لیں اور ان کی مشاورت سے پھر ایک بامعنی نتیجے پر پہنچ سکیں تاکہ آئندہ علاقے کا امن خراب نہ ہو۔‘
اسلحے سے متعلق سوال پر سینیٹر ساجد طوری نے تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے بی بی سی کو صرف اتنا بتایا کہ ’ہمارا علاقہ محفوظ نہیں ہے۔ یہاں خلفشار ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ ہم اسلام آباد کی طرح ایک محفوظ علاقہ بن جائیں۔‘
تاہم انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اسلحہ جمع کرانے سے متعلق سرکاری مسودے میں لکھا تھا ’ہم نے اس سے اتفاق کیا ہے۔‘
اُدھر ڈاکٹر قادر کے مطابق اس وقت کرم میں بھاری اسلحہ موجود ہے اور انھیں خدشہ ہے کہ ’کوئی بھی اسلحہ رضامندی سے جمع نہیں کرائے گا بلکہ ریاست کو خود آگے آ کر یہ اسلحہ اپنے قبضے میں لے کر تلف کرنا ہو گا۔‘
ان کی رائے میں اگر یہ معاملہ لوگوں پر چھوڑ دیا گیا تو پھر ریاست کی رِٹ بحال ہونا ایک خواب ہی رہے گا۔
فریقین کے خدشات
سید اختر علی شاہ خیبر پختونخوا میں انسپکٹر جنرل پولیس رہ چکے ہیں اور اس معاملے پر اُن کی نظر ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ کرم کے اہل تشیع قبائل کو یہ خوف ہے کہ اگر انھوں نے اسلحہ سرینڈر کر دیا تو پھر انھیں ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیمیں بھی ہدف بنا سکتی ہیں۔
ان کے مطابق ’اہل تشیع کو یہ بھی احساس ہے کہ وہ اقلیت میں ہیں اور کل اگر کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو پھر ان کے پاس دفاع کے لیے کچھ نہیں ہو گا۔‘
اختر علی شاہ کے مطابق افغانستان کی صورتحال نے بھی کرم کے حالات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور اب یہ ایک صدی پرانا معاملہ مقامی سے قومی اور بین الاقوامی مسئلہ بن گیا ہے۔
ان کے مطابق ماضی میں کرم کے اہل تشیع ان لوگوں اور تنظیموں کو روکتے تھے جو افغانستان میں جہاد کرنے جاتی تھیں کیونکہ انھیں یہ ڈر تھا کہ اس سے سرحدی علاقے پر اثرات مرتب ہوں گے۔
اختر علی شاہ کے مطابق یہ تشویش درست ثابت ہوئی اور افغانستان کے اندر خلفشار کے 40 سال نے کرم کی آبادی کے تناسب کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
دوسری طرف ڈاکٹر قادر کو اس نکتہ نظر سے اختلاف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کرم میں اہل تشیع اقلیت میں نہیں ہیں اور نہ ہی ابھی تک کسی بھی شدت پسند تنظیم نے کرم کی کسی بھی کمیونٹی کو ہدف نہیں بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اِن تنظیموں کی لڑائی نظام سے اور ریاست سے ہے۔
ان کے مطابق نئے معاہدے کے تحت اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ دو گاؤں کی لڑائی کو فرقہ وارانہ تنازع کا رنگ نہیں دیا جائے گا بلکہ جہاں گڑبڑ ہو گی، اُن علاقوں کو سزاؤں اور جرمانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سید اختر علی شاہ نے کہا کہ ریاست کو جہاں کرم سے متعلق متاثرین کو معاوضے دینا ہوں گے اور اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی وہیں اپنی رٹ بزور طاقت بحال کرانی ہو گی۔
دوسری طرف جرگے کے اجلاس میں ایک گروہ کی جانب سے یہ اعتراض بھی کیا کہ حکومت نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ کچھ ’جانبدار‘ انتظامی اہلکاروں کو کرم سے دیگر علاقوں کی طرف ٹرانسفر کر دیں گے مگر اس وعدے پر ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا۔
اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جو نفرت پھیلائی جا رہی ہے اس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے جس پر فریقین نے اتفاق کیا ہے۔
کمیٹی اراکین کے مطابق ایپکس کمیٹی، جس کی صدارت وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کور کمانڈر پشاور عمر احمد بخاری کے ساتھ مل کر کی تھی، کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ کرم میں فریقین سے اسلحہ لیا جائے گا اور بنکر ختم کیے جائیں گے۔
ڈاکٹر قادر کے مطابق وہ ایپکس کمیٹی کے فیصلے سے متفق ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب اسلحہ ضبط کرنے کے لیے ریاست کو انٹیلیجنس کے ذریعے بھی یہ عمل مکمل کرنا ہو گا تاکہ اگر یہ گھروں، کھیتوں یا کہیں پر بھی چھپایا گیا ہے تو اس کو ڈھونڈا جا سکے۔