پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور کے بعد ہی دونوں طرف سے کہیں لچک دکھائی گئی ہے تو کہیں ایک بداعتمادی کی فضا کا تاثر بھی ابھرا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟
پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان مذاکرات کے پہلے دور کے بعد ہی دونوں طرف سے کہیں لچک دکھائی گئی ہے تو کہیں ایک بداعتمادی کی فضا کا تاثر بھی ابھرا ہے۔
پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان سیاسی تناؤ کو کم کرنے کی کوشش میں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد دوسری بیٹھک دو جنوری کو ہو گی۔
مگر اس سے قبل ہی دونوں جماعتوں کی جانب سے بیانات سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ معاملات جیسے جیسے آگے بڑھیں گے ایک نئی صورتحال ابھر کر سامنے آئے گی۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور 23 دسمبر کو ہوا تھا جس میں حکومت کی طرف سے نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے تقریباً تمام اراکین اس اجلاس میں موجود تھے تاہم دوسری جانب پی ٹی آئی کی طرف سے صرف تین اراکین اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس شامل تھے۔جبکہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ، حامد خان اور صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلٰی علی امین گنڈاپور اجلاس میں شامل نہیں تھے۔
اجلاس کے جاری اعلامیے کے مطابق دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے آئندہ اجلاس دو جنوری کو بلانے پر اتفاق کیا تھا جس میں حزب اختلاف 'اپنے مطالبات تحریری صورت میں حکومت کو دے گی۔'
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اجلاس 'سازگار ماحول میں ہوا اور دونوں اطراف نے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔'
دو جنوری کو دوسرے اجلاس سے قبل دونوں سیاسی جماعتیں اپمی اپنی حکمت عملی اپنا رہی ہیں۔ سابق سپیکر اور رکن قومی اسمبلی اسد قیصر نے منگل کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے مذاکرات کے دوسرے اجلاس میں حکومت کے سامنے دو مطالبات پیش کرنے کا کہا ہے۔
اسد قیصر کے مطابق جو دو مطالبات پیش کیے جائیں گے ان میں سر فہرست عمران خان سمیت تمام رہنماؤں اور کارکنان کی رہائی ہے جبکہ دوسرا مطالبہ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سینیئر ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا ہے۔
اس سے قبل عمران خان کی بہن علیمہ خان بھی اس بات کی تصدیق کر چکی ہیں کہ عمران خان سے ملاقات میں انھوں نے ان سے دو مطالبات پیش کرنے سے متعلق بات کی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل عمران خان کی جماعت کے چار مطالبات تھے جن میں 26 ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ، جمہوریت اور آئین کی 'بحالی،' 'چوری شدہ مینڈیٹ' کی واپسی اور تمام 'بے گناہ' سیاسی قیدیوں کی رہائی۔
واضح رہے کہ نومبر کے تیسرے ہفتے میں وزیرِ اعلیٰ امین گنڈاپور کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ 'مذاکرات بانی چیئرمین کی رہائی سے شروع ہوں گے اور آگے بڑھیں گے۔'
انھوں نے کہا تھا کہ 'بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے۔'
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے موقع پر وکلا اور صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ 'مجھے پیغام ملا ہے کہ ہم سے ڈیل کریں، ہم آپ کی پارٹی کو سیاسی سپیس دیں گے لیکن آپ کو نظر بند کرکے بنی گالہ منتقل کردیں گے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میں نے جواب دیا کہ پہلے باقی سیاسی قیدیوں کو رہا کریں۔ میں جیل میں رہ لوں گا لیکن کوِئی ڈیل قبول نہیں کروں گا۔ نظر بندی یا خیبرپختونخوا کے کسی جیل میں نہیں جاؤں گا۔'
یہ گفتگو ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے پوسٹ کی گئی تھی تاہم اس پوسٹ میں یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ عمران خان کو 'ڈیل' کی پیشکش کس نے کی تھی۔
اسد قیصر نے منگل کے روز بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ابھی بھی اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ ان کے مطابق ان کی جیل میں عمران خان سے جو ملاقات ہوئی ہے اس میں انھوں نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ کارکنان کی رہائی تک اپنی رہائی کی پیشکش کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
تحریک انصاف 26ویں آئینی ترمیم اور چوری شدہ مینڈیٹ کے مطالبات سے پیچھے کیوں ہٹ گئی ہے کے سوال پر اسد قیصر نے کہا کہ آپ اسے اس طرح بھی دیکھ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف ایک قدم آگے بڑھی ہے اور اب بال حکومت کے کورٹ میں ہے کہ انھیں تسلیم کرتی ہے یا پھر اپنی انا کی تسکین چاہتی ہے۔'
مگر دوسری جانب اگر مسلم لیگ ن کے بیانات کا جائزہ لیں تو ان کے بیانات سے مذاکرات کو لے کر ایک بد اعتمادی اور غیر یقینی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟
ن لیگ کو مذاکرات پر کیا خدشات ہیں؟
جہاں ایک طرف پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ چل رہا ہے اور ان مذاکرات کے پہلے دور کے بعد دوسرا دور دو جنوری کو ہو گا وہیں حکومتی جماعت ن لیگ کے اندر سے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے حق اور مخالفت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
دو جنوری کو ہونے والی مذاکراتی بیٹھک سے قبل ہی ن لیگ سے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اپنی ہی حکومت کو سر عام یہ مشورہ دیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی سے ہوشیار رہیں اور انھوں نے ساتھ یہ شکوہ بھی کیا ان کی جماعت نے اس بارے میں انھیں پوچھا تک نہیں۔ تاہم بعد میں ٹی وی پر آ کر انھوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ وہ اس مذاکراتی عمل کے خلاف نہیں ہیں۔
خواجہ آصف نے پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل جیو ٹی وی پر یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ 'ہم مذاکرات کے حق میں ہیں، میں اس کا مخالف نہیں ہوں لیکن اب (پی ٹی آئی کی) بے صبری دیکھیں کہ وہ ہمیں جنھیں وہ کسی بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے اب اُن کے توسط سے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔'
خواجہ آصف نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ 'میں بار بار پوچھ رہا ہوں کہ جو شخص ہم سے ہاتھ نہیں ملانا چاہتا تھا اس کو اب کیا ہوا ہے؟ اس شخص میں یہ تبدیلی کس طرح آئی ؟ یہ مکمل یوٹرن ہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مجھے پی ٹی آئی میں سنجیدگی کی کمی نظر آرہی ہے، میری دعا ہے کہ یہ مذاکرات کامیاب ہوں، میں 100 فیصد مذاکرات کے حق میں ہوں۔ پی ٹی آئی ہمارے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کو تیار ہے میں نہیں کہہ رہا کہ مذاکرات نہ کریں لیکن محتاط ضرور رہنا چاہیے۔'
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ 'بیرون ملک پاکستانی اپنے وطن پیسے بھیجتے ہیں، میرے لیے یا پی ٹی آئی کے لیے نہیں بھیجتے، بانی پی ٹی آئی مینڈیٹ والی بات سے بھی پیچھے ہٹے ہیں، دیکھیں گے کہ پی ٹی آئی کے دو مطالبات پر کیا ہوتا ہے۔‘
'ہم مذاکراتی عمل کو باہر کے حالات اور دھند سے پاک رکھنا چاہتے ہیں'
پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنے والی حکومتی اتحادی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف کی باتوں سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’مذاکراتی کمیٹی باہر کے حالات کا کوئی اثر لیے بغیر اس مذاکراتی عمل کو آگے بڑھائے گی۔‘
عرفان صدیقی نے کہا کہ ’چاہے خواجہ آصف ہوں یا عارف علوی ہوں ہم باہر کے اثرات سے اور دھند سے اپنی کمیٹی کے عمل کو پاک رکھنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسے لوگ جو سرے سے اس عمل اور مذاکراتی کمیٹی کا حصہ ہی نہیں ہیں ان کی بات کمیٹی پر اثرانداز نہیں ہو گی۔
ترجمان کمیٹی کے مطابق 'ابھی تک پی ٹی آئی کی طرف سے ان کے سامنے کوئی مطالبہ نہیں آیا ہے اور جب دو جنوری کے اجلاس میں مطالبات پیش کیے جائیں گے تو ہی مذاکرات کی بات آگے بڑھ سکے گی۔'
ان کے مطابق ’ساری کہانی جب کھلے گی جب 'چارٹر آف ڈیمانڈ' سامنے آئے گا۔‘
پی ٹی آئی اپنے دو مطالبات سے پیچھے کیوں ہٹی؟
سینیئر صحافی نصرت جاوید نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مطالبات کی فہرست محدود کر کے عمران خان نے پہلی بار اپنے رویے میں لچک دکھائی ہے۔ ان کے مطابق جب دو مطالبات پر بحث شروع ہو گی تو 26 نومبر کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن پر اتفاق ہو سکتا ہے مگر بات اس سے آگے نہیں بڑھنا مشکل ہے۔
ان کے مطابق 26 نومبر کے واقعے پر بھی اس وجہ سے کمیشن بننے کے امکانات ہیں کیونکہ دونوں اطراف سے اموات ہوئی ہیں اور ایسا کمیشن صرف ایک جماعت یا پارٹی نہیں بلکہ تمام اطراف کی اموات کا تعین کر سکے گا۔
تجزیہ نگار عارفہ نور نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تحریک انصاف کی ترجیح عمران خان کی رہائی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کی یہ سوچ ہے کہ ایک بار عمران خان باہر آ جائے تو پھر وہ سڑکوں پر آ کر باقی مطالبات بھی منوا لیں گے۔
عارفہ نور کے مطابق حکومت کے لیے عمران خان کی رہائی نئے انتخابات کرانے جیسے چیلنج کے برابر ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جب عمران خان جیل میں بیٹھ کر اتنا دباؤ ڈال سکتے ہیں تو پھر جب وہ سڑک پر آ گئے تو صورتحال کتنی مشکل ہو جائے گی۔
تاہم عارفہ نور کہتی ہیں کہ حکومتی حلقوں میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ کہیں امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کی رہائی کا ہی مطالبہ نہ کر دیں۔
ان کی رائے میں یہی وہ امریکی دباؤ کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے حکومت اس معاملے کو پہلے ہی زیر بحث لا رہی ہے تاکہ بعد میں کوئی اقدام اٹھانے میں ندامت نہ ہو۔