سعید انور: بولرز کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘ بننے والے اوپنر جوعمران خان کی طرح کرکٹ کی دنیا چھوڑنا چاہتے تھے

گیراج میں دوستوں کے ہمراہ ٹیپ بال کھیلتے ہوئے سعید انور کا رجحان کرکٹ کی طرف بڑھا تو پہلے ملیر جمخانہ کی ٹیم میں بھی وہ بطور بلے باز نہیں آئے بلکہ انھوں نے لیفٹ آرم سپنر کے طور پر کھیلنا شروع کیا
سعید انور
Getty Images

1977 میں جب عالمی اقتصادی بدلاؤ اور داخلی خلفشار کے سبب ایران انقلاب کی طرف بڑھ رہا تھا تو، کراچی سے تہران منتقل ہوئے، انجینئر انور احمد نے دوبارہ نقل مکانی کا سوچا۔ مگر اب کی بار، جہاں وہ خود سعودی عرب منتقل ہو گئے، وہیں انھوں نے اپنے نو سالہ بیٹے کو کراچی اپنے آبائی گھر بھیج دیا۔

تہران کی گلیوں میں فٹبال کھیلنے والا وہ بچہ کرکٹ سے اتنا ہی واقف تھا جتنا کوئی بھی ایرانی ہو سکتا تھا۔ لیکن عین 11 برس بعد وہی لڑکا قذافی سٹیڈیم لاہور کی کریز پر کھڑا، فقط اپنی کلائیوں کے بل پر وسیم اکرم کے سر کے اوپر سے سیدھے چھکے رسید کر رہا تھا۔

وہ لڑکا بائیں ہاتھ کا دلکش اوپننگ بلے باز سعید انور تھا جس نے آنے والے برسوں میں ون ڈے اوپننگ کا تصور یکسر بدل کر رکھ دیا۔ ون ڈے کرکٹ میں جارحیت کا جو رجحان بعد ازاں مائیکل سلیٹر، رومیش کالووتھرنا اور سنتھ جے سوریا نے اپنایا، اس کی طرح ڈالنے والے کوئی اور نہیں، پاکستانی تاریخ کے کامیاب ترین اوپنر سعید انور تھے۔

’اپنے دور میں کرکٹ بال کا بہترین ٹائمر‘

پاکستان کے سابق کوچ ہارون رشید ڈومیسٹک کرکٹ میں یو بی ایل کے کوچ تھے جب پہلی بار ان کی نظر سعید انور پر پڑی۔ ’ایک سپارک نظر آ جاتا ہے پلئیر میں، اس میں بھی وہ سپارک دکھائی دیا مجھے.‘

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ہارون رشید کا کہنا تھا کہ سعید انور تب کراچی ایسوسی ایشن کی انڈر 19 ٹیم کی نمائندگی کر رہے تھے۔

’غالباً 1987 کی بات ہے، ایک انڈر 19 ٹورنامنٹ تھا اور ہم فائنل کھیلے، وہاں اس نے جو بیٹنگ ہمارے خلاف کی، میں نے تو وہیں سے پِک کر لیا کہ اس لڑکے میں فلیئر ہے۔ کٹ بہت اچھا کھیلتا تھا، مڈ وکٹ پر بڑا اچھا کھیلتا تھا۔‘

سعید انور
Getty Images

عمران خان نے ہمیشہ انھیں برائن لارا کے ہم پلّہ قرار دیا اور اس کی توجیہہ میں اس مہارت کا ذکر کیا جو ہر طرح کی کنڈیشنز میں سعید انور کا خاصہ تھی۔

’میں اسے (سعید انور) ٹنڈولکر اور برائن لارا کی بریکٹ میں اس لیے رکھتا ہوں کہ وہ اپنے دور میں کرکٹ بال کا سب سے اچھا ٹائمر ہے۔‘

’سکواش اور ٹیبل ٹینس پر آزمائی کلائیاں‘

ایسا نہیں کہ نو سال کی عمر میں کراچی پلٹنے والے سعید انور واپسی پر فوری کرکٹ کی طرف مائل ہو گئے ہوں۔ بچپن میں ان کے پسندیدہ ایتھلیٹ سکواش لیجنڈ جہانگیر خان تھے جن سے متاثر ہو کر انھوں نے خوب سکواش کھیلی۔

مگر سکواش کے بعد بھی ان کا دوسرا پسندیدہ کھیل کرکٹ نہیں تھا۔ وہ زیادہ وقت ٹیبل ٹینس کھیلنے میں گزارتے تھے۔

حوادث کی یہی ترتیب بعد ازاں کرکٹ میں ان کی بے مثال انفرادیت کا سبب بھی ٹھہری کہ یہ دونوں کھیل لا شعوری طور پر ان کی کلائیوں میں وہ حیران کن لچک اور قوت سموتے گئے جس نے آنے والے سالوں میں کرکٹ کے میدانوں پہ جادو جگایا۔

ثقلین مشتاق بھی اس خیال کی تائید کرتے ہیں۔

’سعید بھائی کبھی کبھی کہتے تھے کہ یار سکواش اور ٹیبل ٹینس کھیل کھیل کر میری رِسٹ (کلائی) اتنی پکی ہو گئی ہے، اب مجھے کسی بھی طرح کی گیند پر مسئلہ نہیں ہوتا۔‘

’ان کی آنکھ بہت اچھی تھی۔ کچھ بیٹسمین گیند کو ہوا میں پِک کرتے ہیں، کچھ پچ سے کرتے ہیں۔ سعید بھائی بولر کے ہاتھ سے ہی گیند کو ریڈ کر لیتے تھے۔‘

یہی ابتدائی برسوں میں سکواش اور ٹیبل ٹینس کی پریکٹس ان کے اس دلکش سٹائل کی بنیاد بنی جو تمام بنیادی کوچنگ مینوئلز سے ماورا ہونے کے باوجود اپنی جارحیت کی نفاست سے متحیر کر چھوڑتا تھا۔

سعید انور
Getty Images

’جو شاٹ ہم خوابوں میں دیکھتے، یہ کھیلتے تھے‘

دلچسپ امر یہ ہے کہ جب اپنے گیراج میں دوستوں کے ہمراہ ٹیپ بال کھیلتے ہوئے سعید انور کا رجحان کرکٹ کی طرف بڑھا تو پہلے ملیر جمخانہ کی ٹیم میں بھی وہ بطور بلے باز نہیں آئے بلکہ انھوں نے لیفٹ آرم سپنر کے طور پر کھیلنا شروع کیا اور بیٹنگ کے لیے آٹھویں نویں نمبر پر آتے تھے۔

ان دنوں وہ کراچی کی ایک یونیورسٹی میں کمپیوٹر سسٹمز انجینئرنگ میں بیچلرز کے طالب علم تھے۔

وہیں ملیر جمخانہ کے نیٹس میں ہی سعید انور کی دلچسپی بیٹنگ میں پیدا ہوئی جب ٹینس بال پر ٹیپ لپیٹ کر ان کے دوست نے انھیں بولنگ کرنا شروع کی۔ ان کے یہ دوست راشد لطیف تھے۔

اپنے یوٹیوب چینل پر انضمام الحق بتاتے ہیں کہ سعید انور کو کھیلتے دیکھ کر انھیں کرکٹ بہت آسان لگتی تھی۔

’جو شاٹ ہم رات کو خوابوں میں دیکھا کرتے تھے، صبح وہ سعید انور کھیل رہا ہوتا تھا۔۔۔ وہ بیٹنگ کر رہے ہوتے تھے تو کرکٹ بہت آسان لگتی تھی، نہ گیند سیم ہوتا دکھائی دیتا تھا، نہ پچ سے کچھ ہوتا نظر آتا تھا۔‘

’کرکٹ امریکہ سے زیادہ ضروری تھی‘

اپنے دیگر دوستوں کی طرح سعید انور بھی گریجویشن کے بعد ماسٹرز کے لیے امریکہ جانا چاہتے تھے مگر کرکٹ سے لگن کے سبب انھوں نے امریکہ جا کر ماسٹرز کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور اپنا کرکٹ کرئیر جاری رکھا۔

ہارون رشید جب انھیں منتخب کر کے یو بی ایل میں لے آئے تو وہاں انھیں بہتر مسابقتی ماحول ملا،

’وہاں ہم نے انٹرنیشنل لیول کا ماحول رکھا ہوا تھا، فٹنس، ٹریننگ، تکنیک، ہر چیز پر پورا کام کرتے تھے۔ وہاں اس نے بہت محنت کی۔‘

’دوسرا‘ کے موجد، مایہ ناز آف سپنر ثقلین مشتاق نے بھی بی بی سی اردو کو بتایا کہ سعید انور نہایت سخت ٹریننگ ڈسپلن پر کار بند رہتے تھے۔

’ٹیلنٹ تو ظاہر ہے، وہ خداداد تھا، مگر محنت بھی بہت کی انھوں نے۔ بہت چیلنجنگ پریکٹس کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے اگر یہاں ٹریننگ میں ایزی کھیل بھی لیا تو کیا فائدہ؟ میں نے تو میچ کے لیے تیار ہونا ہے۔‘

’یہ نیا لڑکا جو کر رہا ہے، کرکٹ نہیں ہے‘

گو کھیلوں کی دنیا میں اعدادوشمار کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں مگر کرکٹ کی روایت میں جمالیات کا اپنا مقام ہے۔ جب بات لطافت کی آئے تو سعید انور کا نام، عہد ساز برائن لارا سے کہیں پیچھے نہیں۔

ون ڈے کرکٹ میں ان کی ابتدائی چند اننگز کی جارحیت نے ہی آسٹریلوی کپتان ایلن بارڈر کو یہ کہنے پہ مجبور کر دیا کہ ’یہ نیا لڑکا جو کر رہا ہے، یہ کرکٹ نہیں کچھ اور ہی ہے.‘

انگلینڈ کے خلاف اوول میں جب انھوں نے 176 رنز کی فاتحانہ اننگز کھیلی تو جیفری بائیکاٹ نے انھیں بولرز کے لیے ڈراؤنا خواب قرار دیا۔ اسی سال ’وزڈن‘ نے جہاں انھیں اپنے پانچ چنیدہ کرکٹرز میں شمار کیا، وہیں اوول کی اس اننگز کو بھی سال کی خوبصورت ترین اننگز قرار دیا۔

’آپ تو میرے کانفیڈنس کا قیمہ بنا دیتے ہیں‘

سعید انور
Getty Images

ثقلین مشتاق سے جب ہم نے یہ پوچھا کہ ایسی کیا خوبی تھی سعید انور میں جو انھیں اپنے دیگر ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھی تو انھوں نے بتایا کہ وہ کبھی بھی دب کر نہیں کھیلتے تھے۔

’ان کی شخصیت ایسی تھی کہ جہاں جاتے، چھا جاتے تھے۔ کوئی محفل ہو، کوئی ڈسکشن چل رہی ہو، بات کرکٹ کی ہو رہی ہو یا شغل مذاق چل رہا ہو، ہر جگہ چھا جاتے تھے۔‘

سعید انور کی یہی شخصیت ان کی کرکٹ میں بھی جھلکتی تھی۔ سامنے سے آنے والا بولر بھلے گلین میک گرا ہو، مرلی دھرن ہو یا شین وارن، وہ ہمیشہ پریشر واپس منتقل کرتے تھے۔

ثقلین مشتاق نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ وہ نیٹ سیشنز میں بھی سعید انور کو بولنگ کرنے سے کترانے لگے تھے اور اکثر تنگ آ کر اپنی الگ پریکٹس کرنے لگتے تھے۔

’مجھے کہتے تھے، تم ٹرن کرو گے تو میں سپن کے الٹ کھیل دوں گا، فرنٹ فٹ پر کرو گے تو پیچھے سے کھیلوں گا، بیک فٹ والے کو آگے نکل کر کھیلوں گا۔ میں تو تجھے کریز میں نہیں کھیلوں گا، میں ٹانگ سے تجھے آف سائیڈ پر کھیل دوں گا۔‘

ثقلین مشتاق ہنستے ہوئے یاد کرتے ہیں، ’میں نے کہا سعید بھائی آپ تو میرے سارے کانفیڈنس، لائن، لینتھ، سب کا قیمہ بنا دیتے ہیں۔‘

’شین وارن اور مرلی دھرن کو بھی پھینٹتے تھے‘

اپنے کرئیر میں تیز ترین 200 وکٹوں کا ریکارڈ بنانے والے ثقلین مشتاق کے مطابق سعید انور آف سپن کے خلاف بہترین 'لیفٹ ہینڈڈ' بلے باز تھے،

’ہم کچھ بھی کر لیں، انھوں نے پہلے بتا بھی دیا ہو کہ وہ کون سا شاٹ کھیلیں گے، پھر بھی مجال ہے کبھی گیند کیپر تک جائے یا سٹمپ کا چانس بنے۔ بتا کے شاٹ مارتے تھے۔‘

’پریکٹس میں وہ اپنے کمفرٹ زون سے نکل کر کھیلتے تھے، جبھی انھوں نے 194 کیا انڈیا کے خلاف، تو کمبلے کو ایک اوور میں اتنا مارا۔ انھیں کوئی پرابلم نہیں تھی۔ انھیں کسی سپنر کے خلاف کبھی مسئلہ نہیں رہا۔ شین وارن اور مرلی دھرن کو بھی ایسے ہی پھینٹتے تھے۔‘

چنائی کے اس ریکارڈ شکن میچ میں سعید انور طویل بیماری کے بعد لوٹ رہے تھے اور جیسے انھوں نے چیپاک سٹیڈیم کے اس زائد از گنجائش ہجوم پر یکسر سکوت طاری کر دیا، دیکھنے والوں کو آج بھی یاد ہے۔

اس اننگز میں سعید انور نے بلند ترین انفرادی سکور میں سر ویوین رچرڈز کا تیرہ سالہ ریکارڈ توڑ کر وہ نیا ریکارڈ اپنے نام کیا جسے اگلے 13 برس تک ون ڈے انٹرنیشنل کی بہترین انفرادی اننگز کا اعزاز حاصل رہا۔

’بے فکر رہیں، وسیم اکرم کو بھی چھکے مار لوں گا‘

سعید انور
Getty Images

1990 میں جب عمران خان انھیں ون ڈے ٹیم میں لائے، تب پاکستان کو شعیب محمد اور عامر ملک جیسے اوپنرز دستیاب تھے جو 50 کے سٹرائیک ریٹ سے اننگز کا آغاز کرتے تھے۔ جب سعید انور کو ٹاپ آرڈر میں باقاعدہ موقع دیا گیا تو ان کی سبھی اننگز کا سٹرائیک ریٹ 90 سے زیادہ تھا۔

ہارون رشید بتاتے ہیں کہ سعید انور کو اپنی تکنیک پر پورا اعتماد تھا۔

’ایک خاص بات اس کی یہ تھی، گھبراتا بالکل نہیں تھا۔ ولز کپ کا فائنل تھا۔ وسیم اکرم کی پی آئی اے نے ہمیں 229 کا ٹارگٹ دیا۔ ہماری وکٹیں تو بچی ہوئی تھیں پر مطلوبہ (رن) ریٹ اوپر جا رہا تھا، میں ڈریسنگ روم میں پریشان پِھر رہا تھا۔‘

’اس وقت یہ چھٹے نمبر پر کھیلتا تھا۔ یہ آرام سے پچھلی سیٹوں پہ ریلیکس ہو کے بیٹھا تھا۔ مجھے کہتا، ہارون بھائی! آپ کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ میں نے کہا پیچھے رنز بہت پڑے ہیں اور باقی اوورز میں پانچ ابھی وسیم (اکرم) کے پڑے ہیں۔ اسے چھکے کون مارے گا؟‘

’اس نے کہا آپ بے فکر ہو جائیں، میں ہوں ناں، میں وسیم اکرم کو بھی چھکے مار لوں گا۔‘

پی سی بی کے ڈومیسٹک ٹورنامنٹ ولز کپ کے اس فائنل میں جب سعید انور کریز پر آئے تو مطلوبہ رن ریٹ 12 سے اوپر جا رہا تھا، مگر وہاں اپنے عروج پر، برق رفتار سوئنگ کرتے ہوئے، وسیم اکرم کو اوپر تلے چوکے چھکے لگا کر انھوں نے اپنی ٹیم کے لیے جیت کی راہ ہموار کر دی۔

ڈربن کی لکی سینچری اور ایڈن گارڈنز میں بیٹ کیری

اگرچہ ٹیسٹ کرکٹ میں سعید انور کا آغاز فیصل آباد میں کرٹلی امبروز اور ایئن بشپ کی عمدگی کی نذر ہو گیا مگر جب تین برس کے انتظار کے بعد دوسرا موقع ملا تو انھوں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔

گو اپنے مختصر کرئیر میں انھوں نے صرف 55 ٹیسٹ میچز کھیلے اور ایک تشنہ کرئیر کے اعداد و شمار ان کے معیارات کا درست تخمینہ نہیں ہو سکتے، مگر یہ چشم کشا حقیقت ان کے ہنر کی دلیل ہے کہ بیٹنگ کے کارزار چار ممالک (جنوبی افریقہ، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا) میں ان کی مجموعی اوسط 40 کے قریب تھی۔

زمبابوے کے سوا، اپنے سبھی غیر ملکی دوروں پر نہ صرف سعید انور نے ٹیسٹ سینچریاں بنائیں بلکہ ان میں سے کئی ایک پاکستان کی یادگار فتوحات کا حصہ ہوئیں۔ جیسے ڈربن میں جنوبی افریقہ کے خلاف 118 رنز کی اننگز پاکستان کی جنوبی افریقہ میں پہلی ٹیسٹ فتح کی بنیاد بنی، ویسے ہی 1999 میں انڈیا کے خلاف ایڈن گارڈنز میں ان کے بہترین انفرادی ٹیسٹ سکور اور ’بیٹ کیری‘ کا نادر ریکارڈ بھی پاکستان کی جیت پر منتج ہوا۔

’یار! تو بھاگ کیوں جاتا ہے؟‘

سعید انور
Getty Images

ہارون رشید بتاتے ہیں کہ سعید انور گیند کو بہت لیٹ کھیلتے تھے،

’بعض کھلاڑی گیند کو بہت لیٹ کھیلتے ہیں جیسے ماجد خان تھے۔ (سعید انور) فٹ ورک پر زیادہ انحصار نہیں کرتا تھا مگر اس میں بھی کمال اس کا یہ تھا کہ جتنا اچھا بیک فٹ پر کھیلتا تھا، اتنا ہی فرنٹ فٹ پر بھی تھا۔ اس میں خاص قابلیت تھی، یہ بہت جلد گیند کی لینتھ کے حساب سے (خود کو) ایڈجسٹ کر لیتا تھا۔‘

ثقلین مشتاق بتاتے ہیں کہ اپنے تمام تر ہنر کے باوجود سعید انور ہر گیند کو میرٹ پر کھیلتے تھے۔

’گریٹ بیٹسمین جو سعید بھائی جیسے ہوتے ہیں، وہ بولر کے ہاتھ سے ہی پکڑ لیتے ہیں کہ (گیند) ڈراپ کتنا ہو گا، ڈرفٹ کتنی ہو گی، ان کی کلاس یہ تھی کہ گیند کو ریڈ کر کے میرٹ پر کھیلتے تھے۔‘

’ٹاپ سپن، آف سپن، دوسرا۔۔۔ میں اپنی ساری ورائٹی کرتا تھا، وہ ہر ایک پر پکے تھے۔ نیٹ سیشنز میں جب ہم سعید بھائی کو بولنگ کرتے تھے تو 99.99 فیصد (مواقع پر) وہ ہاتھ سے ہی گیند کی لینتھ بھانپ لیتے تھے۔ ہمارے لیے بڑا مشکل ہوتا تھا۔ میں جان چھڑا کے نکل جاتا تو مجھے کہتے تھے یار تو بھاگ کیوں جاتا ہے؟‘

’وہ جادوئی کلائی فریکچر ہو گئی‘

برائن لارا اور سچن ٹنڈولکر میں سینچریوں کی دوڑ شروع ہونے سے پہلے یہ سعید انور تھے جو ویسٹ انڈین ڈیسمنڈ ہئینز کا ریکارڈ توڑنے کی جانب گامزن تھے۔ مگر ان کی دبلی پتلی جسمانی ساخت کبھی انجریز سے آسودہ نہ ہو پائی۔

سعید انور
Getty Images

عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا کہ انجریز ہمیشہ ان کے کرئیر پہ اثر انداز ہوئیں۔

’1999 میں مجھے گھٹنے کی انجری ہوئی مگر میں ایک سال تک کھیلتا رہا۔‘

’ہمارے پاس انگلینڈ آسٹریلیا والوں کی طرح بہت زیادہ متبادل پلیئرز نہیں ہوتے۔ (انجری کے ساتھ) کھیلنے سے مسئلہ اتنا بڑھ گیا کہ اگلے سال مجھے سرجری کروانا پڑی۔‘

اس سرجری کے بعد جب سعید انور واپس آئے تو اپنے پسندیدہ ترین وینیو شارجہ کرکٹ سٹیڈیم پہ انہوں نے 60 رنز کی اننگز کھیلی۔ مگر بدقسمتی سے اس اننگز کے دوران ان کی وہی کلائی فریکچر ہو گئی جس کے ہنر کی ایک دنیا دیوانی تھی۔

انجریز اور بیماری کی پرچھائیاں سعید انور کے کرئیر پہ اس قدر گہری رہیں کہ 1991 سے 1993 کے دوران وہ صرف پانچ ون ڈے میچز کھیل پائے۔ مگر 1993 میں بلند بانگ واپسی کے ساتھ وہ ظہیر عباس کے بعد دوسرے بلے باز بنے جنھوں نے متواتر تین سینچریاں بنائیں۔

’کون سعید انور؟‘

بنگلہ دیش کے خلاف ملتان ٹیسٹ میں جب پاکستانی بلے باز تاریخی ریکارڈز رقم کر رہے تھے، تب اچانک انھیں وہ افسوسناک خبر ملی جس نے ایک لمحے میں سعید انور کے کرئیر کی کہانی بدل دی۔

اپنی اکلوتی بیٹی کی کم عمری میں اچانک وفات ایسا صدمہ تھا جس نے سعید انور کی سوچ کا رخ یکسر بدل دیا۔ مہینوں وہ کرکٹ سے دور رہے اور جب بالآخر واپس آئے تو انہی کے ’قلعے‘ شارجہ کرکٹ سٹیڈیم کے سکیورٹی گارڈز نے باریش سعید انور کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔

گو سعید انور ان سکیورٹی گارڈز کو تو یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ وہی جادوگر تھے جن کی کلائیوں نے اسی پچ پر 2000 سے زیادہ رنز بنا رکھے تھے مگر اس کے بعد، ان کے ناقدین ان کی ہر ناکامی کو ان کے نئے مذہبی رجحانات سے جوڑنے لگے۔

سعید انور
Getty Images

اپنی ریٹائرمنٹ پر پریس کانفرنس میں انہوں نے اس تاسف کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کے لیے مزید کھیلنا چاہتے تھے مگر انھیں نظر انداز کیا گیا۔ ’میں آسانی سے دو سال اور کھیل سکتا تھا مگر مجھے محسوس کروایا گیا کہ اب میری ضرورت باقی نہیں رہی۔‘

’عمران خان کی طرح کرکٹ سے جانا چاہوں گا‘

عرب نیوز کو انٹرویو میں سعید انور نے کہا تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کرکٹ سے بالکل دور رہنا چاہیں گے۔ ’پہلے میرا ارادہ ریٹائرمنٹ کے بعد کمنٹری شروع کرنے کا تھا۔ مگر اب نہیں۔ اب میں عمران خان کی طرح کرکٹ سے جانا چاہوں گا۔۔۔ مکمل دور۔‘

2010 کے بدنام دورۂ آسٹریلیا کے بعد جب پاکستان کے چیف سلیکٹر اقبال قاسم مستعفی ہوئے تو پی سی بی چئیرمین اعجاز بٹ نے سعید انور کو یہ عہدہ سنبھالنے کی پیشکش کی۔

مگر سعید انور نے اس بنا پر معذرت کر لی کہ وہ خود کو اس عہدے سے انصاف کرنے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔

انور
Getty Images

ان کی آخری یادگار اننگز وہ ٹھہری جب ورلڈ کپ 2003 میں ایک بار پھر ان کی پرانی لو روشن ہوئی اور انڈیا کے خلاف ناکام معرکے میں انھوں نے سینچری بنائی۔ مگر ورلڈ کپ کے اس میچ کے بعد جہاں دیگر کئی کرئیرز پہ مہر لگنا طے تھا، وہاں سعید انور بے سبب ہی اس لہر کی لپیٹ میں آ گئے۔

ورلڈ کپ 2003 کے اس تلخ مقابلے کے بعد سینچورین کے میدان سے مایوس لوٹنے والوں میں سے کئی ایک عظیم کرئیر اچانک ختم ہو گئے مگر وہ سبھی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں کرکٹ شائقین کی نگاہوں سے جڑے ہوئے ہیں۔

سعید انور مگر اپنی بات کے پکے نکلے اور عمران خان ہی کی طرح کرکٹ سے بالکل دور چلے گئے، اتنا دور کہ آج شائقین کو انھیں پہچاننے کے لیے صائم ایوب کا آسرا لینا پڑتا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.