پنجاب پولیس کی ناکامی کے بعد کیا رینجرز بجلی چوری روک پائے گی؟

image
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو بجلی سپلائی کرنے والی سرکاری کمپنی لیسکو نے بجلی چوری کے خلاف لاہور کے مضافات میں آپریشن کرنے کے لیے رینجرز کی مدد حاصل کی ہے۔

رینجرز کی مدد حاصل کرنے کے لیے وزارت توانائی کو تحریری طور پر ایک درخواست بھیجی گئی جس کے بعد وفاقی وزارت توانائی نے یہ درخواست منظور کرتے ہوئے رینجرز کو مدد فراہم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

ترجمان لیسکو رائے مسعود نے اردو نیوز کو بتایا کہ منگل کو ایک تفصیلی نشست ہوئی ہے جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران نے شرکت کی اور لیسکو کی جانب سے ہمارے افسران نے ان کو پوری تفصیل کے ساتھ مسائل سے آگاہ کیا۔

’یہ پہلی میٹنگ تھی جس کے بعد اب مزید میٹنگز بھی ہوں گی اور حتمی مشاورت اور لائحہ عمل تیار کرنے کے بعد بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کیا جائے گا۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ لاہور میں ایسے کون سے علاقے ہیں جہاں بجلی چوری ہو رہی ہے اور جس کے لیے اب رینجرز کی مدد حاصل کرنا پڑی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے زیادہ بجلی چوری قصور کے علاقے میں ہو رہی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر لاہور شہر کے مضافات میں بھی ایسے فیڈرز ہیں جن کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں پر بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہو رہی ہے۔‘

’حتمی طور پر تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ پولیس ناکام ہوئی ہے لیکن حکام بالا نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بجلی چوروں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے ہمیں رینجرز کی ضرورت ہے۔ اب اس پر کام ہو رہا ہے اور میٹنگز چل رہی ہیں، جلد ہی بجلی چوروں کے خلاف ایک بڑی کارروائی  شروع ہوگی‘

پاکستان میں گذشتہ ایک برس سے بجلی چوروں کے خلاف ملک بھر میں حکومت کی جانب سے مہم چلائی جا رہی ہے جس میں بڑے پیمانے پر بجلی چوروں کے خلاف نہ صرف مقدمات درج کیے گئے ہیں بلکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اربوں روپے چوری شدہ بجلی کی مد میں ریکور بھی کیے گئے ہیں۔

تاہم اس سب اچھا کی رپورٹ کے ساتھ ساتھ  صورتحال اس وقت دلچسپ ہوئی جب وزیر داخلہ محسن نقوی نے یہ انکشاف کیا کہ ملک بھر میں 86 کروڑ بجلی کے یونٹ عام صارفین پر ڈال کر ان کی جیب سے پیسے نکلوائے گئے ہیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں بجلی چوری ہونے کے بعد لائن لاسز پورے کرنے کے لیے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے اضافی بوجھ ان صارفین پہ ڈالا جو پہلے ہی بل دے رہے تھے۔

محسن نقوی کے ان بیانات کے بعد انہوں نے ایف آئی اے کے ذریعے ان افسران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا جو عوام پر بجلی کے زائد بل ڈالنے میں کردار ادا کر رہے تھے۔

لیسکو کی اپنی ہی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بجلی چوری قصور کے علاقے میں ہو رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

گذشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ایک بیان دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ بہت بڑے پیمانے پر عوام کو بجلی کے زائد بل بھیجے گئے ہیں جو کہ ناقابل قبول ہے۔

بجلی کے حوالے سے حکومت کی سالانہ رپورٹ میں بھی یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر بجلی چوری اب بھی ہو رہی ہے اور اس کا بوجھ عام آدمی پر ڈالا جا رہا ہے۔ اس لیے بجلی کی  تقسیم کار کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جائے

اردو نیوز کو دستیاب دستاویزات کے مطابق پنجاب کے صوبائی دارالحکومت کی بجلی کی تقسیم کار کمپنی لیسکو کی ناک کے نیچے بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہو رہی ہے۔

لیسکو کی اپنی ہی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بجلی چوری قصور کے علاقے میں ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ  2023 میں بھی پنجاب کے تمام اضلاع میں سب سے زیادہ بجلی چوری قصور کے علاقے میں رپورٹ کی گئی تھی۔

لیسکو کے سب سے زیادہ 26 گرڈ سٹیشن جہاں پر بجلی چوری ہو رہی ہے ان میں سے 10 ضلع قصور میں واقع ہیں۔

لیسکو کے سب سے زیادہ 26 گریڈ سٹیشن جہاں پر بجلی چوری ہو رہی ہے ان میں سے 10 ضلع قصور میں واقع ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس رپورٹ کے مطابق ان 26 گرڈ سٹیشن سے سالانہ 17 ارب روپے کی بجلی چوری ہو رہی ہے۔

 لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ایک اعلی افسر نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ زیادہ تر مسئلہ قصور کے سرحدی علاقوں میں ہے اسی طرح لاہور کے سرحدی علاقوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔

’مقامی عملے کی ملی بھگت کی وجہ سے کارروائیاں کرنا مشکل ہے اس لیے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ رینجرز کو اس کام میں ساتھ لیا جائے گا ۔‘

یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی ملتان میں بجلی چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے رینجرز کو طلب کیا گیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں بھی مطلوبہ نتائج حاصل ہو گئے تھے۔

تاہم یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ پنجاب کے صوبائی دار الحکومت لاہور میں بجلی چوری کو روکنے کے لیے رینجرز کو طلب کیا گیا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.