پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے 10 سے 18 برس تک کی عمر کے بچوں کے لیے نئے ب فارم جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر انگلیوں کے نشانات اور تصویر کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔بدھ کے روز وزارتِ داخلہ کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی ہدایت پر نادرا اور محکمہ امیگریشن اینڈ پاسپورٹ آفس نے بچوں کے لیے خصوصی سکیورٹی فیچرز پر مشتمل ب فارم تیار کیا ہے جس پر 15 جنوری سے مرحلہ وار عمل درآمد ممکن بنایا جائے گا۔‘نئی پالیسی کے مطابق 10 سے 18 سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے اُنگلیوں کے نشانات اور تصویر کے بغیر ب فارم پر پاسپورٹ اور شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جائے گا۔نادرا کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’نئے ب فارم کو متعارف کروانے کا مقصد مستقبل میں بچوں کی شناختی معلومات کی چوری اور غلط استعمال کو روکنا ہے۔‘اُردو نیوز نے نادرا کے متعلقہ حکام، سائبر سکیورٹی اور آئی ٹی ماہرین سے بچوں کے لیے متعارف کروائے جانے والے نئے ب فارم کی خصوصیات اور اس تبدیلی کے مقاصد جاننے کی کوشش کی ہے۔نئے ‘ب ‘فارم کی خصوصیات اور مقاصد وزارتِ داخلہ کی جانب سے 10 سے 18 سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے ب فارم میں اُنگلیوں کے نشانات اور تصویر کو شامل کیا گیا ہے۔وزارت داخلہ کے مطابق اس سے قبل 10 سے 18 سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے انُگلیوں کے نشانات یا تصویر والے نئے ب فارم کی ضرورت نہیں تھی اور والدین بچے کی پیدائش کے بعد صرف برتھ سرٹیفیکیٹ اور اپنے نکاح نامے کی بنیاد پر متعلقہ یونین کونسل سے ب فارم کے لیے رجوع کر سکتے تھے اور پھر وہی ب فارم 18 سال کی عمر تک استعمال ہوتا تھا۔نئے ‘ب‘ فارم کا حصول کیسے ممکن ہو گا؟نئے ب فارم کے متعارف کروائے جانے کے فیصلے پر نادرا کے ایک سینیئر عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’بچوں کے ب فارم کے حصول کے لیے نادرا کی موجودہ پالیسی کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔ موجودہ پالیسی کے تحت صرف برتھ سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر یونین کونسل سے ب فارم کا حصول ممکن ہے اور ب فارم پر بچے کے فنگر پرنٹس یا تصویر موجود نہیں ہوتی جس پر بچوں کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا حصول ممکن ہو جاتا ہے۔‘
نادرا کے مطابق بچوں کے جعلی برتھ سرٹیفیکٹ پر ب فارم بنوا کر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوائے گئے (فوٹو: اے ایف پی)
اس حوالے سے نادرا کے مشاہدے میں آیا ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں بچوں کے جعلی برتھ سرٹیفیکٹ پر ب فارم بنوا کر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوائے گئے ہیں جس کی روک تھام کے لیے وفاقی وزارتِ داخلہ نے متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد ب فارم کے لیے انگلیوں کے نشانات اور تصویر کو لازمی قرار دیا ہے۔
وزارت داخلہ کی ہدایات کے بعد ب فارم کے حوالے سے نادرا اور پاسپورٹ آفس کی نئی پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ خصوصی سکیورٹی فیچرز کے حامل ب فارم بچوں کے جعلی شناختی کارڈز، غیر قانونی پاسپورٹ کے حصول اور انسانی سمگلنگ جیسے جرائم کی روک تھام میں معاون ثابت ہوں گے۔دس سے اٹھارہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے نئے ب فارم کے حصول کے لیے 15 جنوری کے بعد والدین میں سے کسی ایک یا قانونی سرپرست کا نادرا آفس آنا ضروری ہے جہاں پر اُنہیں اپنے ہمراہ اپنا کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ اور بچے کا یونین کونسل یا ٹاؤن کمیٹی سے جاری شدہ کمپیوٹرائزڈ برتھ سرٹیفکیٹ دکھانا ضروری ہوگا جس کے بعد ضروری کارروائی کے بعد بچے کا تصویر والا ب فارم جاری کر دیا جائے گا۔ پالیسی میں بتایا گیا ہے کہ ’10 سال سے زائد اور 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو پاسپورٹ کی درخواست دیتے وقت صرف نادرا سے جاری شدہ انگلیوں کے نشانات اور تصویر والا ب فارم پیش کرنا ہوگا۔ دوسری صورت میں اُنہیں پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائے گا۔‘نئی پالیسی کے مطابق، نیا ب فارم دینے پر ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس پاسپورٹ کی درخواست پر کارروائی کے دوران نادرا کے ڈیٹا بیس سے بچے کی تصویر اور انگلیوں کے نشانات کی تصدیق کرے گا۔ سائبر سکیورٹی کے ماہر ارتضیٰ احمد نے نادرا کی جانب سے خصوصی سکیورٹی فیچرز کے ساتھ ب فارم متعارف کروانے کے اقدام کو سکیورٹی وجوہات پر مبنی قرار دیا ہے۔
ارتضیٰ احمد نے کہا کہ ’اب چوں کہ نادرا کے پاس فنگر پرنٹس اور بچے کی تصویر کا ریکارڈ موجود ہو گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
اُن کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں بالخصوص افغان شہریوں کی جانب سے بچوں کے جعلی ب فارم بنا کر شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بنائے گئے ہیں جس کے باعث بظاہر یہ اقدام اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔‘
اُنہوں نے ب فارم کے سائبر سکیورٹی کے پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اب 10 سے 18 سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے جاری کیے گئے ب فارم پر اُن کی اُنگلیوں کے نشانات اور تصویر موجود ہو گی۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’اب چوں کہ نادرا کے پاس فنگر پرنٹس اور بچے کی تصویر کا ریکارڈ موجود ہو گا جس کی بنیاد پر بچے کے والدین کی تصدیق کی جا سکے گی اور جعلی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس کی روک تھام بھی ممکن ہو گی۔‘