مذاکرات اور پس پردہ کہانی، اجمل جامی کا کالم

image
نیا سال مبارک ہو، دعا ہے کہ یہ شانتی کا برس ثابت ہو، امید ہے کہ اس برس ہم پیچھے دیکھ کر کلیجہ جلانے کے بجائے آگے دیکھیں کہ آگے دیکھنے سے ہی دل میں امید پیدا ہوتی ہے اور امید بہر حال اعتماد کا باعث بھی بنتی ہے۔

امید ہے کہ کچھ ایسا ہی خیال میرے دیس کے حکمرانوں اور رہنماؤں کے ہاں بھی پایا جاتا ہوگا۔ 2024 رخصت ہوا تو 2025 کی رات بارہ بجے تمام چینلز پر ملک بھر میں ہونے والی آتشبازی اور نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے برپا تقریبات براہ راست دکھائی جا رہی تھیں۔

کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ معلوم ہوا کہ کامران ٹیسوری صاحب بھی خبروں کی زینت بن چکے ہیں۔ موصوف صوبہ سندھ میں ان دنوں گورنر ہوا کرتے ہیں۔ دلچسپ شخصیت واقع ہوئے ہیں۔ البتہ اس رات تو ان کے ایک بیان نے عجب بے چینی پیدا کیے رکھی۔ یعنی نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے 40 منٹ تک مسلسل آتشبازی کر کے ٹیسوری سرکار نے نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔

اس سے پہلے 34 منٹ تک مسلسل آتشبازی کا ریکارڈ ہوا کرتا تھا۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ شہر قائد میں 16 افراد ہوائی فائرنگ سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ خاکسار کو اس آتشبازی سے کیا تکلیف لاحق ہوئی، بھلا خوشی کے موقع پر آتشبازی نہ ہو تو کیا سوگ منایا جائے۔ عرض ہے کہ پاکستان ایسے ملک کی عوام کے لیے حکمرانوں کی ترجیحات اور ان کے ایسے بیانات زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہوا کرتے ہیں۔

ورلڈ بینک کی تازہ رپورٹ دیکھ لیجیے، وطن عزیز میں غربت سات فیصد بڑھ گئی ہے۔ ایک کروڑ 30 لاکھ پاکستانی غریب ہو گئے ہیں۔ یعنی 2024 میں پاکستان میں غربت کی شرح پچیس اعشاریہ تین فیصد رہی جو 2023 کے مقابلے میں سات فیصد زیادہ ہے۔  تو کیا یہ ریکارڈ آتشبازی غربت میں اضافے کا جشن ہے یا دو تین کروڑ بچوں کا سکول سے باہر ہونے کا ماتم۔ کیا ایسے ریکارڈ ہمیں زیب دیتے ہیں؟ کیا پاکستان جیسے ملک کی ترجیحات آتشبازی کا ریکارڈ بنانا ہونا چاہیے؟  فیصلہ آپ کے ہاتھ میں!

بہرحال رات ڈھل رہی تھی اور خاکسار تھا کہ مسلسل بے چینی کا شکار۔ وجہ سادہ سی تھی، یعنی کسی سیانے بندے کی محفل سے جانکاری  کا حصول۔ 2024 تقریباً ڈھل چکا تھا اور نئے سال کے سواگت کے لیے سجی مختصر ترین مگر انتہائی غیر روایتی مجلس میں ہماری توجہ ریٹائڑڈ بزرگوار کے بجائے صاحب حال ایک شخصیت تھیں۔

معلوم ہوا کہ انہیں 2025 سے غیر معمولی توقعات وابستہ نہیں ہیں۔ ہاں یہ فروری اور مارچ کے مہینوں میں کپتان کے لیے صورتحال موافق ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فریقین ایک ایک قدم مزید پیچھے ہٹیں اور مذاکراتی عمل کو خلوص دل کے ساتھ راہ فراہم کریں تو یقیناً بات بن سکتی ہے کہ انگریزی کی وار اور پنجابی کا ویر جب بھی انت ہوا، ہوا مذاکرتی ٹیبل پر ہی ہے۔

کپتان کی اب بھی سب سے قابل اعتماد اور قابل بھروسہ شخصیت ان کی اہلیہ ہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

یہاں اسی مجلس میں معلوم ہوا کہ پس پردہ مذاکرات کی کہانی میں بھی دم ہے اور اس سلسلے میں کپتان کی اہلیہ محترمہ اہم ترین شخصیت ہیں۔ ان کی رہائی اور پھر اسلام آباد چڑھائی کے ہنگام رات گئے ان کی پرامن واپسی اور اب طریقے سلیقے سے بلا رکاوٹ ان کی اڈیالہ آنیاں جانیاں اس سلسلے میں قابل غور حرکات و سکنا ت ہیں۔ یہاں بیٹھے ہی علم ہوا کہ کپتان کی اب بھی سب سے قابل اعتماد اور قابل بھروسہ شخصیت ان کی اہلیہ ہی ہیں۔

جاننے کی کوشش کی کہ پس پردہ پھر چل کیا رہا ہے، معلوم ہوا کہ نو مئی ہی اصل مسئلہ ہے۔ اگر اس ایک اہم نکتے پر اڈیالہ داد رسی کرتے ہوئے پیچھے ہٹے تو بدلے میں ریلیف کی صورت میں ہاؤس اریسٹ جیسی پیشکش کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ تاہم نو مئی پر تاحال اڈیالہ سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو پا رہے۔ قابل اعتماد اور قابل بھروسہ شخصیت مثبت سوچ کے ساتھ البتہ اپنا کردار مسلسل ادا کر رہی ہیں۔

مذاکراتی کمیٹیوں کے رابطوں میں 26 نومبر کے معاملات پر پیش رفت ہوسکتی ہے کہ اس میں دونوں جانب سے شہادتیں ہوئیں۔ البتہ نو مئی پر ان کمیٹیوں کے ہاں پیش رفت ممکن نہیں۔ اسیران کی رہائی کی ڈیمانڈ مسلسل رابطہ کاری کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

رہ گئی سول نافرمانی یا 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا کا التوا تو یہ درحقیقت بارگیننگ پوزیشن بہتر بنانے کے لیے دباؤ بڑھانے کے حربوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جنرل فیض کا معاملہ بھی اسی لیے واضح سمت اختیار نہیں کر سکا۔ اس بیچ پھر اصل سر درد کیا ہے؟

اب دیکھنا صرف یہی ہوگا کہ حلف اٹھاتے ہی ٹرمپ سرکار کے مطالبات میں پاکستان اور عمران خان کس تواتر کے ساتھ دہرایا جاتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

استفسار کیا تو جواب ملا بین الاقوامی دباؤ اور تیزی سے بدلتا بین الاقوامی اور ہمسائیگی کا منظر نامہ۔ دستیاب سفارتکاری ناکام ہوئی، جبھی تو باہر بیٹھا پاکستانی ٹرمپ سرکار کے اہم ترین عہدیداروں سے موثر ربط کے ذریعے مرضی  کے بیانات لینے میں کامیاب ہوا۔

اطلاع ہے کہ اس کارن بھی کچھ اہم تبدیلیاں آن بورڈ ہیں۔ لیکن شاید اس مدعے پر کچھ تاخیر ہوچکی۔ اب دیکھنا صرف یہی ہوگا کہ حلف اٹھاتے ہی ٹرمپ سرکار کے مطالبات میں پاکستان اور عمران خان کس تواتر کے ساتھ دہرایا جاتا ہے۔ بدلے میں ہماری سرکار ایک خاص حد تک تو ٹال سکتی ہے مگر آئی ایم ایف اور یورپی یونین سے جڑے معاملات کے لیے ہمیشہ امریکہ پر انحصار مزید ٹال مٹول کا متحمل نہیں ہو پائے گا۔

دعا  اور امید ہے کہ اس سے پہلے ہی ہاؤس ان آرڈر ہو۔ وگرنہ بڑھتے دباؤ میں فریقین کے پاس گریس پیریڈ باقی نہیں رہتا۔ باقی کہاں عاجز فقیر اور اس کی ادنی رائے اور کہاں آتشبازی کا ریکارڈ بنانے والے رہنماوں کی رہنمائی۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.