شوہر سے 50 منٹ ’ملاقات‘ کے لیے 50 گھنٹوں کا سفر: وہ خواتین جنھیں اپنی شادی بچانے کے لیے میدان جنگ کا رُخ کرنا پڑتا ہے

اونچی ہیلز میں ایک خاتون فوجی یونیفارم پہنے ایک مرد کو بوسہ دے رہی ہو تو سین کسی دوسری عالمی جنگ پر مبنی فلم کا لگتا ہے۔ لیکن مشرقی یوکرین میں یہ روزمرہ زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔
Ukrainian military personnel with their wives at the Kramatorsk train station, November 3, 2024
Getty Images
شوہر سے چھوٹی سی ملاقات کے لیے سینکڑوں کلو میٹر کا سفر کرنے والی خواتین

اونچی ہیلز میں ایک خاتون فوجی یونیفارم پہنے ایک مرد کو بوسہ دے رہی ہو تو سین کسی دوسری عالمی جنگ پر مبنی فلم کا لگتا ہے۔ لیکن مشرقی یوکرین میں یہ روزمرہ زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔

یوکرین میں روس کی فوجی مداخلت کے تین سال مکمل ہونے والے ہیں اور ایسے میں صف اول پر لڑنے والے یوکرینی فوجیوں اور گھروں میں ان کی منتظر بیویوں کے لیے زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔

جب جنگ شروع ہوئی تھی تو اس وقت اوکسانا اور ارتم کی شادی کو صرف 18 ماہ ہوئے تھے۔ ارم نے یوکرینی فوج میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔

ان کا خواب تھا کہ ان کے بھی بچے ہوں۔ تاہم ارتم کو وقتاً فوقتاً صرف چند چھٹیاں ہی مل پاتی تھیں۔

اس لیے دارالحکومت کیئو کے قریب اپنے آبادی علاقے میں رہائش پذیر اوکسانا کے پاس صرف یہی راستہ تھا کہ وہ اپنے شوہر سے ملاقات کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کریں۔ وہ پہلے خارخیو جاتی ہیں اور پھر مشرقی یوکرین کے ڈونیسک خطے میں اس مقام پر پہنچی ہیں جہاں ان کے شوہر تعینات ہیں تاکہ ان کے ساتھ محبت کے کچھ پل گزار سکیں۔

Oksana and Artem during one of their dates
BBC
اوکسانا اور ارتم

ان کی پہلی 'ملاقات' اسی طرح اپریل 2022 میں ہوئی۔ اسی سال نومبر میں انھیں دوسری ملاقات کا موقع ملا۔ ارتم اس وقت زخمی تھے اور اوکسانا کا مِس کیرج ہوا تھا۔

اوکسانا باقاعدگی سے یہ ملاقاتیں کر رہی تھیں تاکہ دونوں کے ہاں اولاد پیدا ہوسکے۔ تاہم ان کے شوہر کو اوکسانا کے تحفظ کے بارے میں خدشات تھے۔

اوکسانا نے بی بی سی نیوز یوکرین کو بتایا کہ 'میں ایسی زندگی کا تصور نہیں کر سکتی تھی جس میں، میں ان سے نہ مل سکوں۔ میں صرف انھی دنوں خود کو زندہ محسوس کر پاتی تھی جب میں ان سے ملتی تھی۔'

یہ جوڑا میدان جنگ کے قریب کسی گاؤں یا شہر میں ملتا تھا جہاں کے مقامی شہری اکثر انھیں ایک رات مفت میں اپنے گھر میں گزارنے کی پیشکش کرتے تھے۔ ان ویران گھروں میں پہلے فیملیز رہا کرتی تھیں۔

اوکسانا کہتی ہیں کہ 'شوہر سے ملنے کی خوشی ہوتی تھی لیکن اردگرد اجنبیوں کی تصاویر دیکھ کر افسوس ہوتا تھا۔ جنگ کی وجہ سے یہ تمام زندگیاں اُجڑ گئی تھیں۔'

طلاق کی بڑھتی شرح

یوکرین جنگ کی ابتدا سے ملک میں تیزی سے کئی خاندان ٹوٹ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 60 لاکھ یوکرینی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ یہ جنگ سے قبل قریب 15 فیصد آبادی بنتی ہے۔ ملک چھوڑنے والوں کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ مارشل لا کے تحت 18 سے 60 سال کے مردوں کو یوکرین چھوڑنے کی اجازت نہیں۔

فوج میں تعینات سپاہی 30 روز تک کی سالانہ چھٹی لے سکتے ہیں جبکہ غیر معمولی خاندانی مصروفیات کے لیے 10 اضافی روز دیے گئے ہیں۔

چونکہ جوڑے اور خاندان آپس میں کم وقت گزار پاتے ہیں اسی لیے شرح پیدائش میں ڈرامائی کمی آئی ہے۔

سنہ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے سے یوکرین آزاد ملک بنا تھا۔ اس سال یوکرین میں چھ لاکھ 30 ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی تھی۔

اس کے بعد سے شرح پیدائش میں بتدریج کمی آتی رہی ہے اور 2019 کے دوران یوکرین میں تین لاکھ نو ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی۔

جنگ شروع ہونے کے بعد 2023 میں یوکرین کے شرح پیدائش میں تاریخی کمی آئی اور اس سال صرف ایک لاکھ 87 ہزار بچوں کی پیدائش ہوئی۔

اس دوران یوکرین میں طلاق کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یوکرین کی وزارت انصاف کے مطابق 2024 کے پہلے چھ ماہ میں گذشتہ سال اسی عرصے کے مقابلے طلاق کی شرح میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کئی خواتین کا خیال ہے کہ میدان جنگ کے قریب اپنے شوہر سے ملاقات واحد راستہ ہے جس سے وہ اپنی شادیوں اور خاندانوں کو برقرار رکھ سکتی ہیں۔

ڈیوٹی سے مجبور شوہر

صف اول پر تعینات فوجیوں سے ملاقات کا سفر کوئی آسان نہیں۔ اس کے لیے سینکڑوں کلو میٹر دور جانا پڑتا ہے اور اس میں کئی خطرات ہوتے ہیں۔

خواتین اکثر بذریعہ ٹرین ایک قریبی شہر تک جاتی ہیں اور بقیہ سفر بس یا ٹیکسی پر کرتی ہیں۔

وہ بعض اوقات زیادہ وقت سفر میں گزارتی ہیں اور ملاقات کا دورانیہ بہت کم ہوتا ہے۔ ایک فوجی جب چھٹی پر نہ ہو تو اسے دوران سروس قلیل بریک ملتی ہے۔

Natalya and her husband
BBC
نتالیہ اور ان کے شوہر

نتالیہ نے اپنے شوہر سے ملنے کے لیے 1230 کلو میٹر کا سفر کیا جس میں وہ مغربی یوکرین کے شہر لیئو سے مشرقی شہر کراماتورسک تک گئیں۔

انھوں نے اس سفر میں دو دن یعنی 50 گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزار، صرف اس لیے تاکہ وہ اپنے شوہر سے چھوٹی سی ملاقات کر سکیں۔ اس دوران آس پاس کے پانچ سرحدی علاقوں میں مسلسل شیلنگ ہو رہی تھی اس لیے ان کے شوہر کو ڈیوٹی پر واپس لوٹنا پڑا۔

نتالیہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بتاتی ہیں کہ 'ہم نے ایک ساتھ پلیٹ فارم پر صرف 50 منٹ گزارے۔ پھر انھوں نے مجھے واپس اسی ٹرین پر چڑھایا جس پر میں وہاں پہنچی تھی۔'

اس سفر پر انھیں 120 امریکی ڈالر تک کا خرچ آیا۔ یہ یوکرین میں اوسط ماہانہ تنخواہ کا ایک چوتھائی بنتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے باوجود وہ ہر دو سے تین ماہ بعد اپنے شوہر سے ملاقات کی کوشش کرتی ہیں۔

یہ دونوں 22 سال سے شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچے ہیں۔ 'یہ دورہ واحد راستہ ہے کہ میں خود کو ایک خاندان کا حصہ سمجھ سکوں۔'

Soldiers with bouquets
Getty Images
فوجی پھولوں کے ساتھ اپنی بیگمات کا انتظار کر رہے ہیں

مگر ایسے تمام جوڑوں کی ملاقاتوں کا اچھا اختتام نہیں ہوا۔

بعض خواتین نے اپنے شوہروں سے ملاقات کے لیے خطرناک سفر طے کیا اور انھیں وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ان کے شوہروں نے صف اول کے ایک گاؤں میں کسی اور خاتون کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ یا پھر انھوں نے کسی خاتون کو اپنی 'فیلڈ وائف' بنا رکھا ہے۔

جب روس نے یوکرین کے خلاف 2014 میں پراکسی وار شروع کی تھی تو اس وقت مشرقی یوکرین کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا گیا۔ ماریہ (فرضی نام) کے شوہر صف اول پر لڑ رہے تھے۔ وہ کیئو سے تین روز تک سفر کر کے مشرقی یوکرین جا کر اپنے شوہر سے ملتی تھیں مگر حالات بگڑنے لگے۔ ماریہ کے شوہر پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس سنڈروم (پی ٹی ایس ڈی) کا شکار ہوگئے۔

جب وہ گھر لوٹے تو ماریہ اور بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے لگے۔ ان کے دوسری خواتین کے ساتھ تعلقات شروع ہوگئے۔ جلد دونوں میں طلاق ہوگئی۔

اب ماریہ ایک دوسرے فوجی کے بیوی ہیں۔ وہ اپنے شوہر سے ملنے کے لیے طویل سفر کی حامی نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ 'صف اول پر ملاقات ایک خاندان کو بچاتی نہیں ہے۔ آپ صرف تبھی اسے بچا سکتے ہیں جب دونوں یہ چاہتے ہوں۔'

صبر کا پھل

اوکسانا کے ہاں حال ہی میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس سے قبل ان کا دو بار مِس کیرج ہوا تھا۔ طویل عرصے سے ان کا خاندان ایک اولاد کا خواہش مند تھا۔

اوکسانا چاہتی تھیں کہ ان کے شوہر ارتم بھی پیدائش کے وقت ان کے ساتھ موجود ہوں۔ لیکن ان کے شوہر کو ڈیوٹی سے چھٹی نہ مل سکی۔

Artem and Oksana
BBC
ارتم اور اوکسانا

بچے کی پیدائش سے قبل ان کا کہنا تھا کہ 'ہر خاتون یہ چاہے گی کہ ایسے وقت میں ان کا شوہر ان کے ساتھ ہو۔'

'لیکن یہاں میں ہمارے بچے کی دیکھ بھال کر رہی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے شوہر وہیں ہوں گے جہاں انھیں ہونا چاہیے۔'


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.