’زہر کا پیالہ‘ یا ’جنگِ احد‘ کا راستہ: آیت اللہ خامنہ ای ایران کی پے در پے ناکامیوں کا مقابلہ کیسے کریں گے؟

شام کے معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کے گذشتہ ماہ خاتمے کے بعد ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای چار مرتبہ اپنے ملک، شام اور مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے حوالے سے تقاریر کر چکے ہیں۔ ان کی تقاریر کا مواد اتنا ہی اہم ہے جتنے وہاں بیٹھے سامعین۔
آیت اللہ علی خامنہ ای
Getty Images

شام کے معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کے گذشتہ ماہ خاتمے کے بعد ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای چار مرتبہ اپنے ملک، شام اور مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے حوالے سے تقاریر کر چکے ہیں۔ ان کی تقاریر کا مواد اتنا ہی اہم ہے جتنے وہاں بیٹھے سامعین۔

ایرانی رہبر اعلیٰ کو سننے والوں میں ایرانی سپاہی، ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا یا حکومت کے حامی تھے۔ یہ تمام افراد کسی نہ کسی طرح شام میں ایک دہائی قبل خانہ جنگی کے واقعات سے جڑے تھے۔ عراق کے خلاف 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی آٹھ سالہ جنگ میں ان ایرانی فوجیوں کو اپنی شناخت ملی تھی۔

حالیہ تقریر خطے میں ہلاک ہونے والے ایرانی فوجیوں کے اہل خانہ کو بھی سنائی گئی جنھیں ایرانی حکومت 'شہید' کہتی ہے۔

اس صورتحال کے دوران آیت اللہ خامنہ ای پر دباؤ ہے کہ وہ حسن نصر اللہ اور قاسم سلیمانی جیسی اہم شخصیات کی عدم موجودگی میں اپنے حامیوں کو جواب دیں کہ: اسد حکومت کے دفاع کے لیے ایران شام کیوں گیا؟ اس بار شام کا دفاع کیوں نہیں کیا گیا؟ اور ایران کے 'مزاحمت کے محور' کا مستقبل کیا ہو گا؟

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایران عسکری اور سفارتکاری دونوں میدانوں میں ناکام ہوا ہے۔

خامنہ ای نے ’جنگ احد‘ اور مسلمانوں کی شکست کا ذکر کیوں کیا؟

بین الاقوامی امور کے ماہرین ہادی معصومی زارے اور علی صمد زادہ دونوں اس بارے میں متفق ہیں کہ ایران کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ علاقائی تنازعات میں ناکام ہوا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ ایک نئی حکمت عملی اپنائی جائے۔

ہادی معصومی زارے کا خیال ہے کہ ایرانی حکومت کو ’فتح کے ادب‘ کی عادت ہو چکی ہے مگر اب اسے ’شکست کے ادب‘ کو سیکھنا پڑے گا۔

عراق کے خلاف جنگ کے اختتام پر اس وقت کے ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خمینی نے واضح طور پر جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری کو ’زہر کا پیالہ پینے‘ سے تشبیہ دی تھی۔

تاہم موجودہ ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی پے در پے تقریروں میں تاحال صاف گوئی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی ایرانی حکمت عملی کے کمزور ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ انھوں نے پیغمبرِ اسلام کا حوالہ دیتے ہوئے ’جنگ احد‘ کا ذکر کیا جو کہ اسلامی تاریخ کی سب سے اہم جنگوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تھی۔

خامنہ ای نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ’اسلام کی آمد کے ابتدائی عرصے میں احد کے میدان میں مسلمانوں کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا اور امیر المومنین حمزہ شہید ہوئے۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب سر سے پیر تک زخمی ہوئے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس جنگ میں پیغمبر اسلام زخمی ہوئے اور ’کئی لوگ شہید ہوئے۔ جب وہ مدینہ واپس آئے تو منافقین نے دیکھا کہ یہ فتنہ پھیلانے کا اچھا موقع ہے اور انھوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے پروپیگنڈا شروع کر دیا۔‘

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ایرانی رہبر اعلی کو ناکامی کی وضاحت کرنے سے زیادہ ’فتنے‘ اور اپنے حامیوں میں ابھرتے شکوک و شبہات کی فکر ہے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای
Getty Images

خامنہ ای نے شام میں ایران کی ناکامی کی وضاحت کیسے کی؟

شام کی ناکامی کے بعد خطے میں ایران کی پوزیشن کمزور نظر آ رہی ہے۔ نئی نسل میں ایران کی اسلامی جمہوریہ کی حمایت کرنے والوں میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے علاقائی جنگوں اور 'مزاحمت کے محور' کے ذریعے اپنی پہچان پائی۔

ایرانی حکومت کے بہت سے حامیوں کو خدشہ ہے کہ جو شام کے سابق حکمرانوں کے ساتھ ہوا وہ ایران میں دہرایا جا سکتا ہے۔

قاسم سلیمانی کی پانچویں برسی کے موقع پر آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں ان خدشات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'بعض ممالک کی بڑی غلطیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ استحکام اور حاکمیت کے اہم عوامل کو منظر سے ہٹا دیتے ہیں۔ (مگر) نوجوانوں کا گروہ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ یہ کسی قوم میں حاکمیت کے سب سے اہم عوامل میں سے ایک ہے۔ انھیں منظر سے ہٹایا نہیں جانا چاہیے۔ ہمارے لیے بھی یہی سبق ہے۔'

خامنہ ای نے کہا کہ 'خدا کا شکر ہے یہاں یہ محفوظ ہیں۔ کچھ دوسرے ممالک کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے استحکام کے عوامل کیا ہیں۔ جب انھیں نکالا جاتا ہے تو خطے کے بعض ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ (جب) وہ استحکام اور حاکمیت کے عوامل کو باہر نکال دیتے ہیں تو وہ شام بن جاتا ہے۔'

ایرانی رہبر اعلیٰ نے یہ کہہ کر دراصل اپنے حامیوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اس مشکل مرحلے میں انھیں ان کی ضرورت ہے۔

اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ ان کی اس تقریر کا مقصد رائے عامہ کے سوالات اور ابہام کا جواب دینا ہے۔

وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حامیوں کے خدشات دور ہوں اور ان کے حوصلے بلند رہیں۔ اسی لیے انھوں نے ایک ماہ کے عرصے میں چوتھی مرتبہ خطے میں ایران کی حکمت عملی اور مزاحمت کے محور پر بات کی۔

سقوط دمشق کے صرف تین دن بعد ایران کے رہبر اعلیٰ نے اپنی پہلی تقریر میں بغیر کسی تمہید کے شام کے مسئلے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ جاہل اور نادان تجزیہ کار جو ان واقعات کو ایران کو کمزور کرنے کے مترادف سمجھتا ہے انھیں سمجھ لینا چاہیے کہ ایران مضبوط ہے یہ طاقتور سے مزید طاقتور ہو جائے گا۔'

اسی تقریر میں آیت اللہ خامنہ ای نے کہا تھا کہ 'شام کی موجودہ صورت حال اور مصائب شامی فوج کی مزاحمت اور مزاحمت کے جذبے کی کمزوری اور کمی کا نتیجہ ہیں۔'

انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ 'شام کی کمزوری کے برعکس' ایرانی مسلح افواج کے اعلیٰ حکام کے حوصلے بلند ہیں۔

ایران کے لیے نئے دور کا آغاز

ایران کے رہبر اعلیٰ نے ان تمام تقاریر میں بشار الاسد کا نام لینے سے بھی گریز کیا۔ حالیہ برسوں کے دوران ایران اور بشار الاسد کے بیچ تعلقات اتنے قریبی نہیں تھے جتنے شام میں خانہ جنگی کے دوران ہوا کرتے تھے۔

شام کی تعمیر نو کے برسوں میں اور خاص طور پر پچھلے چار سالوں میں بشار الاسد نے اقتصادی دباؤ اور سخت پابندیوں کے باعث ایران کے علاقائی حریفوں بشمول متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے پے در پے حملے اور شام میں سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے ایرانی افواج کی موجودگی کمزور پڑ گئی تھی۔

ایسا لگتا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای اچھی طرح جانتے ہیں کہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ایران کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔

یہ ایک ایسا نیا دور ہے جس میں خطرات کے ساتھ ساتھ دوست، دشمن اور جنگ کی لکیروں کو نئے سرے سے متعین کیا جائے گا۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا آیت اللہ خامنہ ای 'زہر کا پیالہ' پیئیں گے اور مغرب کے ساتھ مذاکرات کریں گے یا ’جنگ احد‘ کی طرح شکست تسلیم کرنے کا انتخاب کریں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.