ملالہ یوسفزئی کی ورلڈ سکول گرلز کانفرنس میں شرکت، ’پاکستان آکر بہت خوش ہوں‘

image

نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی اسلامی دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے عالمی سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے پہنچی ہیں اور اس موقع پر انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن پاکستان میں واپس آنے پر بہت خوش ہیں۔

ملالہ یوسفزئی کو پاکستانی طالبان نے 2012 میں اس وقت گولی مار دی تھی جب وہ ایک سکول کی طالبہ تھیں اور اس کے بعد سے صرف چند بار ملک واپس آئی ہیں۔

دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی کانفرنس میں پہنچنے پر انہوں نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے لیے پاکستان میں واپس آنا اعزاز کی بات ہے اور میں خوش ہوں۔‘

دو روزہ سربراہی اجلاس کا افتتاح سنیچرکی صبح وزیراعظم شہباز شریف نے کیا تھا اور اس میں مسلم اکثریتی ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی ہے۔

ملالہ یوسفزئی اتوار کو کانفرنس سے خطاب کریں گی۔ انہوں نے جمعے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایک پر پوسٹ کیا کہ ’میں تمام لڑکیوں کے سکول جانے کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں بات کروں گی، اور یہ بھی کیوں رہنماؤں کو افغان خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ان کے جرائم کے لیے طالبان کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے۔‘

ملک کے وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن اسلام آباد کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لڑکیوں اور خواتین کے سکول اور یونیورسٹی جانے پر پابندی ہے۔

2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد سے وہاں کی طالبان حکومت نے اسلامی قانون کا ایک سخت ورژن نافذ کیا ہے جسے اقوام متحدہ نے ’جنسی امتیاز‘ کہا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کو شدید تعلیمی بحران کا سامنا ہے جس میں غربت کی وجہ سے دو کروڑ 60 لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے۔

2012 میں سوات کی دور دراز وادی میں ایک سکول بس پر پاکستانی طالبان کے عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ملالہ یوسف زئی کو گولی لگی اور انہیں علاج کے لیے برطانیہ بھیجا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مہم چلائی اور 17 سال کی عمر میں، سب سے کم عمر نوبل امن انعام یافتہ شخصیت بن گئیں۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.